مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو!
یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔
شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روکدے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہوگے؟(سورہ مائدہ آیت 90تا 91)
پہلی آیت مبارکہ میںاللہ تبارک و تعالیٰ چار چیزوں کا نام لے کر مسلمانوں کو حکم فرماتے ہیںکہ یہ چیزیں حرام ہیں اس سے بچو، پر ہیز کرو۔
نمبر ایک ’’شراب‘‘ نمبر دو ’’جوا‘‘ نمبرتین ’’بتوں کے استھان‘‘ نمبرچار’’پانسے‘‘۔
دوسری آیت شریفہ میں شراب اور جوئے کی یہ برائی بیان کی گئی ہے کہ اس کے ذریعہ سے اہل ایمان کے درمیان پھوٹ ،نفرت اور عداوت پیدا ہوتی ہے اور سب سے بڑی خرابی یہ کہ شراب پینے سے آدمی خدا کو بھلا بیٹھتا ہے اور جوا کھیلنے کی مصروفیت، تارک الصلوۃ بنادیتی ہے۔ یہ سارے اعمال نجس اور شیطانی افعال ہیں اور شیطان چاہتا بھی یہی ہے کہ تم ان چیزوں میںمبتلا ہوکر ذکر خدا اور بندگی رب کے اعلیٰ اظہار ’’نماز‘‘ سے غفلت برتو۔
تمام برائیوں کی ماں:۔شراب نوشی ایک ایسی قبیح چیز ہے جو کہ کئی جرائم کو جنم دیتی ہے جس کے استعمال سے انسان کے اندر سے آدمیت ختم اور حیوانیت وجود میں آتی ہے۔ جس کی بناء پر انسانی معاشرے میں ایک عجیب کیفیت پائی جانے لگتی ہے۔
’’قتل و غارت گری‘‘ شراب خور لوگ خود ان کی ذات کیلئے اور ساری سوسائٹی کیلئے وبال جان بن جاتے ہیں۔ شراب پی کر لوگ کسی کا قتل بھی کردیتے ہیں اور خود یہ شرابی ایک دوسرے کے قتل کا ارتکاب بھی کر بیٹھتے ہیںاس طرح قتل و خون غارت گری کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔
’’معاشی بدحالی‘‘شراب کا معاشی پہلو بھی قابل غور ہے۔ یعنی شراب کے عادی اکثر لوگوں کے گھر کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ان کے افراد خاندان، کھانے پینے اور یہاں تک کہ مناسب لباس زیب تن کرنے کیلئے بھی محتاج ہوجاتے ہیںکیونکہ شراب پینے والے لوگ اپنے بیوی بچوں اور والدین کا حق مارتے ہوئے صرف اپنی شوق کی خاطر پوری کمائی شراب کی نذر کردیتے ہیں اس طرح یہ مئے نوشی کرنے والے لوگ نہ تو اپنے خاندان کو خوش رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے ملک کی بھلائی و ترقی میں معاون و مددگار ہوسکتے ہیں۔
’’اخلاقی پستی‘‘شراب کا اخلاقی پہلو بھی دیکھے کہ یہ بھی بڑا دلخراش و کربناک ہے کہ شراب پینے کے بعد انسان کے اندر سے آدمیت ختم ہوکر حیوانیت شروع ہوجاتی ہے اس کے بعد پھر اس شرابی کے اندر سے ماں، بیٹی او ربہو کا امتیاز ختم ہوجاتا ہے،حلال حرام کی تمیز ختم ہوکر رہ جاتی ہے پھر اس کے بعد ایسی ایسی شیطانی حرکات سرزد ہوجاتی ہیںجو ناقابل بیان ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ جو حقیقت میں حکیم بھی ہے اپنا حکیمانہ فیصلہ صادر فرماتے ہوئے اس سلسلہ میں شراب کو اب قطعی طور پر حرام فرماتے ہیں کہ ایمان والے بندے اس چیز سے مطلق بچتے رہیں تا کہ آخرت کے ساتھ دنیاکا بھی فائدہ انہیں حاصل ہوسکے۔
شراب سے متعلق قبل ازیں دو احکام :۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ شراب کی حرمت تین دفعہ آئی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اس وقت لوگ شراب پیتے تھے، جوئے کا مال کھاتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو یہ وحی نازل ہوئی کہ ’’تم سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ دو کہ اس میں فائدہ تو ہے لیکن بہت کم اور اس کے مقابلہ میں نقصان بہت زیادہ ہے‘‘۔ یعنی شراب سے لوگوں کو نفرت دلائی کہ اس میں جو فائدے ہیں اس کے مقابلہ میں نقصان اس سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن لوگ پھر بھی شراب پینا جاری رکھے، اس لئے کہ اب تک بھی شراب حرام نہیں ہوئی تھی لیکن ایک دن ایسا ہوا کہ ایک صحابیؓ۔ حالت نشہ میں نمازکیلئے کھڑے ہوئے اور قرات میں ان سے سہو ہوگئی تو پھر اللہ کا حکم آیا کہ اے ایمان والو حالت نشے میںنماز کے قریب مت جاو، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موذن نے اذان میں’’حی الصلوۃ‘‘ کے بعد پکار کر کہدیا کہ ’’نشے کی حالت میں نماز پڑھنے کی ممانعت آگئی ہے‘‘ اور اس حکم کے سننے کے بعد لوگ پھر بھی شراب کو ترک نہیںکئے البتہ اس اس کے اوقات مقرر کرلیے اور اوقات نماز کے دوران اس سے اجتناب کرنے لگے۔ بعض صحابہ کرامؓ تو اس سے نفرت کرنے لگے۔ حضرت عمرؓ تو اللہ سے یہ دعا کرتے رہے کہ ’’اے خدا بیان شافی و کافی اتار‘‘ غرض کہ شراب کی حرمت کے سلسلہ میں ابتدائی طور پر مذکورہ دو حکم آچکے گویا کہ جزوی نشہ بندی عائد کردی گئی اور صحابہ کرامؓ بھی اس کے پابند ہوگئے لیکن غیر اوقات نماز میں یہ بہر حال پی جاتی رہی۔ اس سلسلہ کی مزید تفصیلات سورہ النساء آیت نمبر43 میں ملاحظہ فرمائیں۔
مکمل نشہ بندی اور دو واقعات:۔جیسا کہ ہم اوپر تحریر کرچکے کہ شراب خور لوگ خود بھی اور سوسائٹی کیلئے وبال جان بن جاتے ہیں جس سے معاشرے میں ایک طرح کا تناو پیدا ہوجاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پرامن حالات بدامنی میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور یہ واقعات ہماری نظروں کے سامنے ہوتے ہیں،ہورہے ہیں اور اخبارات میں ہمیں یہ پڑھنے کو بھی ملتا ہے کہ فلاں شخص نے حالت نشہ میں اپنی بیوی کو چھرا گھونپ دیا ہے کبھی یہ بھی آتا ہے کہ شراب پینے کیلئے رقم نہ دینے پر فلاںشخص نے فلاں عورت یا فلاں مرد کو قتل کرڈالا اور کبھی یہ بھی افسوسناک خبریں پڑھنے کو ملتی ہیںکہ ایک شخص نے نشہ کی حالت میں اپنی شیر خوار بچی کو پٹخ کر مار ڈالا وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کے دو واقعات شراب کے قطعی طور پر حرام ہونے سے قبل مدینہ میں وقوع پذیر ہوچکے تھے جس کی بنا پر اور جس کی وجہ سے تمام برائیوں کی ماں (اْم الخبائث) ’’شراب ‘‘ پر مکمل پابندی لگادی گئی یعنی شراب کے قطعی طور پر حرام ہونے کا حکم ربانی آگیا۔
پہلا واقعہ انصار اور قریش میں تْو تْو میں میں
حضرت سعدؓ سے مروی ہے کہ شراب کے بارے میں چار آیتیں اتریں۔ پھر وہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری نے ہماری دعوت کی ہم نے وہاں خوب شراب پی یہ شراب کے حرام ہونے سے پہلے کاذکر ہے۔ جب ہم خوب نشہ میںہوگئے تو آپس میں فخر کرنے لگے۔ انصار کہتے تھے کہ ہم افضل ہیں اور قریش کہتے تھے کہ ہم افصل ہیں۔ چنانچہ ایک انصاری نے اونٹ کی ایک بڑی ہڈی لے کر سعد کی ناک پر دے مارا چنانچہ سعد کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی اس بنا پر شراب کی حرمت نازل ہوئی جس کو مسلم نے بیان کیا ہے۔(ابن کثیر)
دوسرا واقعہ انصار کے مابین دست درازیاں
ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ شراب کی حرمت کی یہ وجہ ہوئی کہ انصار کے دو قبیلوں نے خوب شراب پی، جب مست ہوگئے تو ایک دوسرے پر دست درازیاں کرنے لگے اور جب نشہ اتر گیا تو کسی کے چہرے پر زخم آیا ہوا تھا تو کسی کے سر پر چوٹ آئی ہوئی تھی کسی کی داڑھی نچی ہوئی تھی، کوئی کہتا تھا کہ میرے فلاں ساتھی نے مجھے یہ زخم پہنچایا ہے چنانچہ ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے حالانکہ پہلے آپس میں بڑی محبت تھی کینہ نہیں تھا۔ کہتے تھے کہ اگر یہ میرا ہمدرد ہوتا تو کبھی مجھے زخمی نہ کرتا ، چنانچہ دشمنی بڑھ گئی اب اللہ تعالیٰ نے شراب کی حرمت نازل فرمادی۔
شراب کے احکام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان
جب شراب ہمیشہ کیلئے حرام کردی گئی تو لوگ اسے ایک دم چھوڑ چکے مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی۔ مٹکے توڑ ڈالے گئے۔ پیالے پھوڑ ڈالے گئے۔
بعضوں نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ’’ہم یہودیوں کو تحفہ کیوں نہ دیں‘‘؟ پ نے فرمایا کہ ’’جس نے یہ چیز حرام کی ہے اس نے اسے تحفہ دینے سے بھی منع کردیا ہے‘‘
بعض لوگوںنے پوچھا ہم شراب کو سر کے میں کیوں نہ تبدیل کریں؟آپؐ نے اس سے بھی منع فرمایا اور حکم دیا کہ ’’نہیں، اسے بہادو‘‘
شراب دوا نہیں بیماری ہے!:۔ایک صاحب نے باصرار دریافت کیا کہ دوا کے طور پر استعمال کی تو اجازت ہے ؟ فرمایا’’نہیں، وہ دوا نہیںہے بلکہ بیماری ہے‘‘
اگر لوگ نہ مانیں تو جنگ کرو:۔ایک اور صاحب نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم ایک ایسے علاقے کے رہنے والے ہیں جو نہایت سرد ہے اور ہمیں محنت بھی بہت کرنی پڑتی ہے۔ ہم لوگ شراب سے تکان اور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا جو چیز تم پیتے ہو وہ نشہ کرتا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں۔ فرمایا تو اس سے پر ہیز کرو۔ انہوں نے عرض کیا مگر ہمارے علاقے کے لوگ تو نہیں مانیں گے فرمایا ’’اگر وہ نہ مانیں تو جنگ کرو‘‘
مولانا مودودی تحریر فرماتے ہیںکہ :۔شریعت کی رو سے یہ بات حکومت اسلامی کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ شراب کی بندش کے اس حکم کو بزور قوت نافذ کرے۔حضرت عمرؓ کے زمانے میں بنی ثقیف کے ایک شخص ’’روکشید‘‘ نامی کی دوکان اس بنا پر جلوادی گئی کہ وہ خفیہ طور پر شراب بیچتا تھا۔ایک دوسرے موقع پر ایک پورا گائوں حضرت عمرؓ کے حکم سے اس قصور پر جلا ڈالا گیا کہ وہاں خفیہ طریقہ سے شراب کی کشید اور فروخت کا کاروبار ہورہا تھا۔ (حوالہ تفہیم القرآن، جلد اول ،ص 506 تا503)
حاصل کلام :۔آیات مبارکہ کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ اہل ایمان ،شراب جوا اور غیر اللہ کے مراکز ( جو مشرکین اپنے ہاتھوں سے بنالیے ہیں) اور فال نکالے کے پانسے کے تیر ان تمام چیزوں سے بجتے رہیں۔ کیونکہ یہ سب کے سب گندے و پلید کام ہیں اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ اس کے ذریعہ تم کو یاد الٰہی سے غافل اور اعمال فرض سے دور کردے اور تمہارے درمیان نفرت، عداوت اور دشمنی کو وجود میں لائے۔
مختصر یہ کہ شراب اور جوے سے مسلمانوں کو اجتناب کرنا لازمی ہے کیونکہ یہ چیزیں توحید باری تعالیٰ سے لوگوں کو ہٹا دیتے ہیں جو ایمان و اسلام کی بنیاد ہے۔ در حقیقت یہ تعلیم قرآن دیتا ہے حدیث نبویؐ میں بھی یہی ہے خلفاء راشدین کا طریقہ بھی یہی ہے اولیاء کرام کا بھی یہی طریقہ رہا ہے اور راسخ الاعتقاد علمائے کرام و مسلمانوں کا بھی یہی عمل ہے۔
فون نمبر۔ 9849099228
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)