۔ 5؍دسمبر کو نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ کا یوم پیدائش تھااور نیشنل کانفرنس نے اعلان کیا تھا کہ اس روز ایک شایان شان تقریب کا انعقاد کیاجائے گا لیکن اپنے وقت کے اس قومی ہیرو کے مزار پر فاتحہ خوانی اورگلباری کرنے کیلئے نیشنل کانفرنس کے لیڈروں اور کارکنوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا ۔اس تقریب سے لاتعلق َعوام کی توجہ قاضی گنڈ میں لشکر طیبہ کے عسکریت پسندوں کے جاں بحق ہونے پر مرکوز تھی اورکولگام میں ان کی یاد میں مظاہرے ہورہے تھے ۔نوجوانوں کی ٹولیاں پتھر ہاتھوں میں لئے بندوقوں ، پیلٹ گنوں اور آنسو گیس کے گولوں کا سامنا کررہی تھیں ۔جب نسیم باغ میںشیخ محمد عبداللہ کے مزار پر فاتحہ خوانی ہورہی تھی کولگام میں ایک شہری کی ران میں گولی پیوست ہوچکی تھی اور اسے ہسپتال منتقل کیا جارہا تھا اور اس کے جواب میں نوجوان اور زیادہ شدت کے ساتھ فورسز پر پتھر برسارہے تھے۔
ایک عمر رسیدہ شخص جو اپنے مکان کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھ رہا تھاکی یاداشت کے پردے پر ایک ساتھ بے شمار منظر یکے بعد دیگرے آرہے تھے ۔ اس کے باپ نے مرتے وقت اسے نصیحت کی تھی کہ شیخ صاحب اگر خون مانگے تواپنی جان اُن کی نذر کردینا۔اُس نے شیخ صاحب کی تصویر اس کمرے میں لگا رکھی تھی جہاں مہمان بیٹھاکرتے تھے ۔ وہ اپنے باپ کی طرح بڑی عقیدت سے اس تصویر کو ہر دوسرے تیسرے دن صاف کرتا تھا لیکن جب تصویر کی اونچائی تک پہونچنے کی قوت اس میں باقی نہیں رہی تو اس کا بیٹا یہ کام کرنے لگا لیکن ایک روز اس نے یہ معمول ترک کردیا ۔غبار آلود تصویرا یک دن اس کے پوتے نے اُتار کرکہیں پر پھینک دی ۔اس کے بعد اس گھرمیں جہاںکبھی شیخ صاحب کی مدح سرائی کے لئے محفلیں سجتی تھیں،وہاںشیخ کا نام زبان پر لانا ممنوع ٹھہرا۔ وہ بزرگ شیخ صاحب کے جنازے میں بھی شامل تھا اور اس نے اپنی آنکھوں سے لوگوں کے اُس ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو دیکھا تھا جس میں شامل ہر فرد رورہا تھا ،سینہ کوبی کررہا تھااور درد و غم سے چیخ رہا تھا ،چلا رہا تھا ۔عورتیں اپنے گھروں کی کھڑکیوں سے کود جانے کی کوشش کررہی تھیں۔
یہ مناظر بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے آرہے تھے اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ شیخ صاحب نے مرنے کے بعد ایسا کون سا جرم کیا کہ ہمارے بچے شیخ صاحب کے نام سے بھڑک جاتے ہیں ۔لیکن آج کے نوجوانوں کے جوش اور جذبے کو دیکھ کر اسے وہ دن بھی یاد آرہے تھے جب وہ ایک بچہ ہی تھا اور جلوس میں شامل ہونے کیلئے سرینگر پہنچ جاتا تھا اور نعرے لگاتا تھا ۔ ’’ یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے‘‘۔
کیا آج بھی اس ملک کا فیصلہ نہیں ہوا ہے ؟میرے بیٹے نے ایک روز کہا تھا فیصلہ ہوگیا شیخ صاحب نے اندرا گاندھی کے ساتھ ایکارڈ کرلیا۔پھر کیا ہوا ۔ یہی سوچتے سوچتے اس کے شب و روز بیت جاتے ہیں ۔ اس کی آنکھوں کی روشنی ماند پڑگئی ہے ،لیکن وہ آج بھی دیکھ سکتا ہے اور وہ ہر روز اپنی کھڑکی سے جنازے گزرتے ہوئے دیکھتا ہے ۔وہ ہزاروں لوگوں کے جلوس دیکھتا ہے ۔ گولیوں اور دھماکوں کی آوازیں سنتا ہے ۔ فورسز کو گھر کے اندر داخل ہوتے اورتلاشیاں لیتے ہوئے دیکھتا ہے ۔ نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق بھی دیکھتا ہے اور پتھر بھی اور وہ بار بار ماضی کوٹٹولتا ہے لیکن ہر بار شیخ صاحب ہی اس کی یادوں کا مرکز ہوتا ہے ۔
کشمیر کی تقدیر کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ اس کی تاریخ میں تضادات کا اتنا ملبہ جمع ہوا ہے کہ اس کی اصل صورت ہی غائب ہوگئی ہے ۔وقت کی ہرنئی رو ہماری سوچ ، ہمارے عقائد ، ہمارے نظریات ، ہماری تہذیب اور ہمارے جذبات بدل کر رکھ دیتی ہے ۔اس سے بڑا سانحہ اور کوئی ہوہی نہیں سکتا ہے کہ ہمارے دانشور ، ہمارے مفکر ، ہمارے علماء اور سب سے بڑھ کر ہمارے مؤرخ بھی ہر رو میں پیش پیش ہوتے ہیں۔جو مقبول عام ہوتا ہے وہ اسی کے ترجمان ہوتے ہیں ، اسی کی وکالت کرتے ہیں اوراسی کو حق ثابت کرنے کی کوشش میں اپنی قوتیں اور صلاحیتیں صرف کردیتے ہیں ۔حقائق کو کھنگالنے اور تاریخ کو اس کی اصلیت کے ساتھ آئندہ نسلوں کیلئے مشعل راہ بنانے کی کوشش سرے سے ہی مفقود ہے۔
کل شیخ محمد عبداللہ ہمارا قومی ہیرو تھا آج وہ غدار ہے ۔ وہ ہیرو کیوں تھا اور غدار کیوں ہے اس کی کوئی سیاسی ، علمی اورتاریخی تحقیق نہیں ہوئی ہے ۔ ہر عقیدہ اور سوچ سڑکوں پر ہی ابھر آئی ہے اور ہر فیصلہ سڑکوں پر ہوا ہے ۔ یہی وہ رحجان ہے جس نے ماضی میں بھی قوموں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے اور حال میں بھی ۔دنیا میں نئے نئے انقلاب آتے رہتے ہیں ، نئی نئی سوچیں ابھرتی رہتی ہیں ، نئے نئے روئیے پیدا ہوتے ہیں جو قوموں کی تاریخیں اور تقدیریں بدل دیتے ہیں لیکن جن قوموں کی فکر ی بنیادیں پختہ تر ہوتی ہیں موسموں کے بدلتے جھونکے اُن کا کچھ بھی نہیں بگاڑتے ہیں ۔وہ اپنے ارتقاء کے سفر پر گامزن رہتے ہیں ۔
شیخ محمد عبداللہ ہماری قومی مزاحمت کی علامت بن کر اُبھرے تھے ۔ حق یہ ہے کہ جب انہوں نے لالچوک میں مہاراجہ کے سپاہی کو ایک کشمیری کی عزت اچھالتے دیکھ کر اسے تھپڑ مارنے کی جرات کی تھی تو اس نے ہمارا وہ قومی شعور زندہ کردیا تھا جو صدیوں کی غلامی نے ہمارے اندر بے جان بنا کر رکھدیا تھا ۔اس کے بعد ہمارے اسلاف نے قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کی جس کے ساتھ ہمارا واسطہ ختم ہوچکا ہے ۔ آج بھی ہم قربانیاں دے رہے ہیں اور بے پناہ قربانیاں دے رہے ہیں لیکن اس میں ہماری فکری بنیادوں سے زیادہ ہوا کے اُن جھونکوں کا عمل دخل ہے جو عالمی تبدیلیاں پیدا کررہے ہیں۔شیخ صاحب کی سوچ غلط ہوسکتی ہے ۔ شیخ صاحب کے نظریات غلط ہوسکتے ہیں ان کے افعال غلط ہوسکتے ہیں لیکن اس کا فیصلہ وہ بچہ تو نہیں کرسکتا جو اپنی تاریخ سے نابلد ہے اور جس کی سوچ بھی پختہ نہیں ہے ۔نہ وہ لوگ کرسکتے ہیں جو کسی مخصوص نظرئیے یا سوچ میں قید ہیں ۔اس کا فیصلہ مؤرخ کرسکتا تھا لیکن اس کشمیر نے جس کے پاس پانچ ہزار سال کی تاریخ کا اثاثہ ہے جو برصغیر میں کسی قوم کے پاس نہیں تاریخ کے حقائق دریافت کرنے کا عمل چھوڑ دیا ہے ۔ آج خود شیخ صاحب جو ہماری آدھی صدی کی تاریخ کے مرکزی کردار رہے ہیں محض ایک معمہ بن کر رہ گئے ہیں۔آج کا نوجوان اسے قومی غدار قرار دے رہا ہے ۔ ہندوستان کے ساتھ الحاق کی اعلانیہ حمایت کرنے والا اور دوقومی نظرئیے کی مخالفت کرنے والاشیخ صاحب 20سال ہندوستان کی جیلوں میں رہا اور آج بھی ہندوستان میں اسے پسندیدہ شخصیت نہیں سمجھا جاتا ہے۔
22 سا ل تک رائے شماری کی تحریک چلانے والے شیخ صاحب کو پاکستان نے بھی کبھی پسندیدہ نگاہ سے نہیں دیکھا ۔آخر وہ کیا تھا ؟اس کی کوئی معتبر دلیل کہیں موجود نہیں ۔اس نے زرعی اصلاحات کا وہ تاریخ ساز فیصلہ کیا جس نے کشمیر کے اُس کاشت کار کو زمین کا مالک بنادیاجو مفلسی کی چکی میں پستے پستے ٹوٹ چکا تھا ۔ اس نے ’’ نیا کشمیر ‘‘ کا وہ آئین تیار کرایا جو اپنے وقت کا ترقی پسند منشور تھا ۔اس نے ہمیشہ ہوا کے رخ کیخلاف فیصلے کئے ۔اس نے اُس وقت مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا جب پورا برصغیر فرقہ واریت کی وحشت میں مبتلا تھا ۔ اس نے اپنی ہی نیشنل کانفرنس کی مخالفت کے باوجود لالچوک میں ایک تانگے پر چڑھ کر ’’ کشمیر چھوڑ دو ‘‘ کا نعرہ دیا ۔اس نے دوقومی نظرئیے کو اس وقت مسترد کردیا جب برصغیر کے مسلمانوں کا یہ مقبول نظریہ تھا اور کشمیر نے اس کا ساتھ دیا ۔ اس نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی حمایت کرکے ہندوستان کے سیکولر کردا ر کو مکمل کردیا ۔اس نے شیا ما پرشاد مکرجی کو لکھن پور میں کشمیر میں بغیر پرمٹ داخل ہونے پر روک دیا۔اس نے کشمیرکے لوگوں سے کہا کہ ہم آلو کھائیں گے مگر سبسڈی پر چاول ہندوستان سے حاصل نہیں کریں گے ۔ اور اس نے اندرا گاندھی کے ساتھ سمجھوتہ کرکے بغیر کسی حصول کے اپنی ساری جدوجہد کو لپیٹ لیا ۔شیخ عبداللہ نے ایسا کیوں کیا ؟ عوام نے اس کے اس فیصلے کو قبول کیسے کیا ؟کیا ان سب باتوں کی تحقیق ضروری نہیں ؟صرف اسے اقتدار پرست یامطلق العنان قرار دیکر یہ مقصد پورا نہیں ہوسکتا ۔اور جب تک ان کا سیاسی کردار ایک معمہ ہے ،ہم بدستور تضادات کا شکار رہیں گے ۔
یہ تضادات ہمیں ہر دور میں بدلتے رہیں گے ۔ ہماری جدوجہد کی شکلیں بدلتے رہیں گے اور ہماری قومی فکر کو متحد نہیں ہونے دیں گے ۔اگر مرحوم عبداللہ نے غلطیاں کی ہیں تو ان غلطیوں کے ذمہ دار ہمارے اسلاف بھی ہیں جنہوں نے اس کا ساتھ دیا ۔اور اگروہ کشمیری قومیت کا علمبردار تھا تو ہمارے اسلاف کا یہ ورثہ ہے ۔کیا وہ راسخ العقیدہ مسلمان نہیں تھا ۔اس نے تو زندگی میں کبھی نماز نہیں چھوڑی ۔ جب پاکستان کے لیاقت باغ میں لوگوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے خطاب کررہا تھا تو اذان کی آواز بلند ہوئی ۔ اذان سنتے ہی اس نے تقریر بند کردی اور مجمع سے کہا ۔’’ نماز کا وقت ہوگیا ہے ۔ آپ کونماز معاف ہوسکتی ہے مجھے نہیں ہے میں نماز پڑھ رہا ہوں ۔ اس جملے نے انہیں پاکستان میں بھی مقبول بنادیا ۔ وہ اپنی ہر تقریر کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کرتا تھا اور جب اس کی آواز فضاء میں گونجتی تھی لوگ آبدیدہ ہوجاتے تھے ،اس کے بعد وہ اقبال کے اشعار پڑھتا تھا ، اس کی آواز میں جادو تھا۔اس نے شراب کو کبھی نہیں چھوا لیکن شراب بندی کی حمایت اس نے کبھی نہیں کی ۔اس پورے کردار کو سمجھنے کیلئے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے جو ہم سے نہیں ہورہا ہے ۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘سرینگر