سید اسرار نازکی۔ لولاب
وادی کشمیر جہاں اپنے دلکش نظاروں اور روح افزاء آب و ہوا کی وجہ سے دنیا بھر میں جنّت جیسا رُتبہ رکھتی ہے وہیں ثقافتی ، ادبی اور روحانی لحاظ سے بھی اسے ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔کشمیر کو ــ ’ریش واؔر‘ یعنی ریشیوں کا گلشن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں بہت سارے صوفی بزرگ پیدا ہوئے ہیں اور یہ بزرگوں ، ریشیوں اور منیوں کا مسکن رہا ہے۔دین اسلام کی آغوش میں آتے ہی یہاں وقتاً فوقتاً تصوّف ، روحانیت ، علوم معنوی اور ادب کے آسمان پر درخشاں ستارے نمایاں ہوتے رہے۔جن میں کئی سارے صُوفی بزرگ ، عالم دین اور روحانی پیشوا ء شامل ہیں ۔ اس کہکشاں سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ پایہ بزرگ ہیں، حضرت شیخ الاسلام مولانا شیخ اکمل الدین بدخشی ؒ ۔ آپ ؒ سلطان خواجہ یسوی ؒ کی اولاد میں سے ہیں اور آپ کے دادا ملک محمد خان تاشقند سے آکر بدخشاں میں قیام پزیر تھے اور اُسی نسبت سے آپ کو بدخشی بھی کہا جاتا ہے۔بادشاہ اکبر کے زمانے میںمرزا اکمل الدین ؒ کے دادا حضرت ملک محمد خان ہندوستان آئے اور شاہی دربار میں ملازمت اختیار کی۔بادشاہ اکبر اُنکی صلاحیتوں سے کافی متاثر تھے اور اُنہیں کشمیر کا صوبیدار بنا دیا اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے وہ کشمیر آکر رہنے لگے۔مرزا محمد خان کے فرزند مرزا عادل خان بادشاہ شاہ جہاں کے خاص مصاحب تھے اور شاہ جہاں نے آپ کو امیر اُلا کا رتبہ عطا کیا ۔ آپ محلات شاہی میں ہی قیام کرتے تھے۔ شاہ جہاں کے دورِ حکومت میں آپ بھی کشمیر تشریف لائے اور یہیں سکونت اختیار کی۔ ۱۶۴۴ ء مطابق ۱۰۵۶ ھ کو حضرت مرزا عادل کو اﷲ تعالیٰ نے ایک فرزند عطا کیا اور شاہی دربار کے ساتھ قریبی تعلقات ہونے کی وجہ سے بادشاہ شاہجہاں نے خود ہی نوزاید کا نام کامل خان رکھا اور اسکی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ آپ ؒ کی ولادت سے کچھ ہی عرصہ پہلے آپ کے جد مادری ’’کامل خان‘‘ کا انتقال ہوا تھا جسکی وجہ سے اُنکی والدہ محترمہ کو بہت دکھ پہنچا تھا۔ اسکی تلافی کے لئے شاہ جہاں نے آپ ؒ کا نام کامل خان رکھ دیا۔ آپ ؒ نے ابتدائی تعلیم اُس وقت کے اعلیٰ مرتبہ بزرگ اور عالم الدین فتح قلو ؒ صاحب سے حاصل کی جنہوں نے آپ ؒ کو قرآن و حدیث کا درس دیااور اصول تفسیر ، علم فقہ وغیرہ جیسی کتابیں پڑھائی۔
شاہی خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے آپ ؒ کو تمام شاہی عیش و آرام میّسر تھا۔ آپ ؒ شاہ جہاں کے بیٹے دارا شکو اور اورنگ زیب کے ہم درس تھے ۔ آپ ؒ کے والد آپ کی کم عمری میں ہی وفات پا گئے ۔ محض بارہ سال کی عمر میں آپ ؒ خواجہ حبیب اﷲگانی( عطار ؒ ) کی خدمت میں چلے گئے ۔ چونکہ شاہی خاندان سے تعلق ہونے اور تمام عیش و آرام میّسر ہونے کے باوجود آپ نے فقر و قناعت کا گوشہ اختیار کر لیا اور تیرہ 13))سال کی عمر سے ہی اپنے مرشد کی دل و جان سے خدمت کرتے رہے اور بزرگیت کے مرتبے پر پہنچ گئے۔ پچیس سال کی عمر میں خواجہ حبیب اﷲ عطار ؒ کے خلیفہ بن گئے اور آپ ؒ ارشاد کے مسنند پر بیٹھ گئے اور بر گزیدہ مریدین ترتیب کئے۔ آپ ؒ کے قلب حق سے معارف و معانی کے چشمے پھوٹنے لگے۔ آپ ؒ نے حضرت فرید الدین کی پیروی میں ’’بحر العرفان‘‘ تصنیف کی جو اَسی(۸۰) ابیات پر مشتمل ہے اور اسے چار جلدوں میں مرّتب کیا جا چکا ہے۔اسکے علاوہ مرزا کامل ؒ نے علم و فضل کی اشاعت میں رسالہ ’’ فخرالاسرار ‘‘ اور ’’ جواہرالاسرار ‘‘ تحریر کئے۔آپ ؒ ایک عمدہ اور معروف خطاط بھی تھے ۔ آپ ؒ نے کچھ عرصہ تک مولانا روم ؒ کی مثنوی کی کتابت کی اور اس کام سے روزی بھی کماتے رہے۔حضرت مرزا کامل ؒ سے محفل میں کسی نے ایک بار پوچھا کہ آپ کی نسبت حضرت رسالت پناہؐ تک کتنے واسطوں سے پہنچتی ہے تو آپ نے چاہا کہ پوچھنے والے سے بزرگوں کا سلسلہ بیان کریں کہ اچانک آپؒ پر حضرت خواجہ کی روح جلوہ گر ہوئی اور فرمایا ’’ اس کو نظم میں جواب کیوں نہیں دیتے ؟ آپ کی طبیعت خوش ہوئی اور آپ نے شعر گوئی کے انداز میں بولنا شروع کیا۔آپ ؒ نے کہا کہ اﷲ کا شکر ہے کہ میرا نصب بہترین ہے ۔ اس ویران منزل پر بھی کتنا آباد ہوں میں ۔ پھر اسی حالت میں دو سواسی (۲۸۰)ابیات کہے۔یہ فصاحت و بلاغت کے علاوہ معرفت و عرفان کے لحاظ سے بھی ایک مکمل قصیدہ ہے۔
مختصر یہ کہ حضرت شیخ مرزا کامل بدخشی ؒ ایک ولی کامل تھے ۔آپؒ آخری ایام میں جسمانی طور بہت کمزور ہو گئے اور بیمار ی میں مبتلا ہوئے ۔ بیماری کی شدّت میں بھی صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا ۔آپ ؒ سال ۱۱۳۱ھ میں ۲۹ ماہ ذی الحجہ مطابق 1718ء کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے اور شہر سرینگر کے حول علاقہ میں سپرد خاک کئے گئے۔ یہ جگہ آجکل مرزا کامل ؒ کے نام سے مشہور ہے ۔ یہاں ہر سال ماہ ذی الحجہ کی ۲۹ اور ۳۰ تاریخ کو سالانہ عرس مبارک عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ہر سال اس پُر وقار تقریب پر ذائرین کا ایک جم غفیر موجود ہوتا ہے۔
( رابطہ ۔ 7889714415)