’’ چلتے چلتے‘‘ اس سفر نامے کا دسواں باب ہے۔اس میں رخصت ہوانے والے دن کی مصروفیات کا تذکرہ بالتفصیل درج ہوا ہے۔ ان کی علمی اور ادبی شخصیت کی کشش نے کشمیر کی معروف ادبی ہستیوں کواس آخری دن بھی ان کے ساتھ رہنے پر آمادہ کردیا تھا۔ اس دن یہاں پر اُردو کے نمائندہ تخلیق کاروںجن میں رفیق راز ، ہمدم کاشمیری، شفق سوپوری، رخسانہ جبین، شفیقہ پروین، شبنم عشائی ، سیدہ نکہت فاروق نظروغیرہ اہم ہیں ،نے پھر ایک بار شعری نشست منظم کی اور مہمان شاعرہ کی نظموں کو سنا۔اس ضمن میں سفرنامہ نگار نے جو تفصیل بیان کی ہے اُس سے کشمیر کی عالمگیر شہرت یافتہ مہمان نوازی کی تائید ہوتی ہے :
’’اس پُر تکلف دعوت میں ہمارے دوستوں نے اپنا کلام مختصر طور پر سنایا۔ ہم نے مہمان ہونے کا پورا فائیدہ اٹھا یااور اپنے نئے مجموعے سے کئی نظمیں سنائیں ۔ آج تقریباً تمام دوستوں نے باربار یقین دلایا کہ آئندہ ہم کشمیر آئے تو ہمیں ہوٹل میں نہیں ٹھہرنا ہے بلکہ ان کے گھر میں ٹھہرنا ہے ۔ بہت خلوص کے ساتھ شبنم عشائی ، رخسانہ جبین، شفیقہ پروین اور شفق سوپوری نے قائل کیا کہ ہمارے ٹھہرنے سے انہیں کوئی دقّت نہیں ہوگی ۔ ہم نے کچھ گروپ فوٹو کھینچے اور رخصت لی ۔ برسوں بعد ہمیں اپنے جی اٹھنے کا احساس ہوا۔ ‘‘
شہناز نبی ہی نہیں وادیٔ کشمیر کا ہرمہمان اہالیانِ کشمیر کی ہمدردی ، ملنساری اور مہمان نوازی کا معترف ہو کر رہ کر ہی روحانی سکون پاتا ہے ۔ یہاں کی مہمان نوازی شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ہزاروں دانشوروں، قلم کاروں ، شاعروں اور دوسرے فن کاروں نے جستہ جستہ جہاں کشمیر کی خوبصورتی اور رعنائی و رنگینی کا تذکرہ کیا ہے وہیں اہل کشمیر کی فراخ دلی اور منکسرالمزاجی کے گیت بھی گائے ہیں۔اس باب میں پُر شکوہ لہجے میں موصوفہ نے سرینگر طیران گاہ پرزیادہ سامان کے لیے مزید رقم ادا کرنے بات کی۔ اس سے دو باتیں مترشح ہوتی ہیں :اول یہ کہ موصوفہ نے کشمیرسے تحائف حاصل کئے ہیں ؛دوم کشمیری بازاروں میں مقامی دست کاری کی پُر کشش اشیا ء کی خریداری نہایت ذوق وشوق سے کی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کو طیران گاہ پر مقررہ وزن کے علاوہ سامان رکھنے کی پاداش میں ’’نہ صرف الگ سے پیسے بھرنے پڑیں گے بلکہ بہت زیادہ بھرنے پڑیں گے ‘‘ جیسا فقرہ متعلقہ کاونٹر بانو سے سننا پڑا۔ اگر موصوفہ یہ بھی لکھتیںکہ انہیں مزید کتنی رقم ادا کرنی پڑی تو اول تو وہ ہماری زیادہ سے زیادہ ہمدردی کی مستحق ٹھہرتی اور دوم یہ کہ ہوائی مسافروں کو اندازہ بھی ہوتا کہ بھاری سامان ساتھ رکھنے کے کیا کیا ’’فائدے‘‘ ہیں !
’’بعد از کشمیر‘‘ اس سفر نامہ ’’ کشمیر جنت نظیر ‘‘ کا آخری باب ہے ۔جس میں مصنفہ نے کشمیر کے نمائندہ تہذیبی اور ثقافتی نشانات کو موضوع بنایا ہے۔ رہن سہن ، پہناوے، دسترخوان، آدابِ نشست و برخواست ، شادی بیاہ کی رسومات کا مناسب طور پر جائزہ پیش کیا ہے ۔ اس ضمن میں شہرئہ آفاق ’’وازوان‘‘کی مختلف ضیافتوں کا مزہ لے لے کر ذکر کیا ہے مثلاً سیخ کباب، رِستہ ، تبک ماز، میتھِ ماز، گوشتابہ ، روغن جوش، آب گوشت ، یخنی ، قورمہ ، دانیول قورمہ وغیرہ ۔ اس سیاحت کے بعد بھی ان کے دل میں یہ حسرت ہے کہ کئی مقامات کی سیاحت باقی رہی، فلاں جگہ نہ جا سکے ۔ لکھتی ہیں :
’’کولکتہ آنے کے بعد جہاں ایک طرف ہم کشمیر کی خوب صورت یادوں میں اُلجھے ہیں، وہاں دوسری طرف اس حساب میں بھی لگے ہیں کہ ہم سے کیا چھوٹ گیا۔ ہم نے کیا کیا نہ دیکھا۔ کیا دوسری بار جانا ہوگا ؟ اور اگر جانا ہوگا تو کیا اتنے دنوں کے لیے جانا ہوگا؟ پھر جن دس دنوں کو ہم بہت زیادہ سمجھ رہے تھے وہ تو مختصر ہی ثابت ہوئے ۔ مثلاً ہم نے کشمیر میں برف کی ویسی چادر نہ دیکھی جیسی سنتے آئے تھے ۔ ہم نے سون مرگ (سونہ مرگ) اور کھلن مرگ تو دیکھا(دیکھے) ہی نہیں ۔ ہم یوس مرگ جانے سے رہ گئے ۔ ہم نے گنڈولہ نہیں گھوما ۔ بابامخدوم کی درگاہ پہ نہیں گئے ۔ ابھی تو جھیلم (جہلم) ،چناب ،ستلج، راوی، سندھ سے جی بھر کے باتیں نہ کیں ۔ لداخ تو چھوٹ ہی گیا ۔ ابھی پیر پنجال(پنچال) سے بے مہر جھرنوں کی شکایتیں نہ کیں ۔ سنو دودھ گنگا، تم پیر پنجال جاتی ہو نا ؟ لودومرگ سے ٹا ٹا کوٹی جاتے ہوئے پیرپنجال سے ضرور کہنا کہ وہ اس طرف کچھ ایسے بادی بھیج دے جو سچ مچ برستے ہوں اور بارش کی بوندوں میں بھگودیتے ہوں تپتی زمینیں ، چٹختے کھیت ، جلتے ہوئے جنگل ، پیاسے آبنائے ۔ ابھی تو ہم ولار(ولر)، نگین ، پانگونگ اور نہ جانے کتنی جھیلوں میں آبی پودوں (پرندوں)کو ہنستے دیکھنا چاہتے تھے ۔ اسکول جاتے بچوں سے ان کی پوئٹری سننا چاہتے تھے ۔کتابوں کی دوکانوں ، گیت سنگیت کی محفلوں ، میلوں ٹھیلوں کا لطف لینا تھا دست کاروں سے ملنا اور ان کے وسائل اور مسائل سے واقف ہونا تھا۔اور ابھی تو وہ پنچھی بھی نہ آئے جو اپنے وطن سے کوسوں میل، میلوں میل کی دوری طے کرکے یہاں کی سوندھی مٹیوں کا لمس پانے اور یہاں کی جھیلوں میں پنکھ بگھونے آتے ہیں ۔ ابھی چناروں نے شعلے کہاں پہنے ۔ ابھی سیب کہاں سرخ ہوئے ۔ کتنا کچھ چھوٹ رہا ہے ۔‘‘
اس قدرے طویل اقتباس میں مصنفہ نے اگرچہ ظاہری طور پر وادیٔ کشمیر کے مختلف سیاحتی مقامات پر نہ جاسکنے کی حسرت کا اظہار کیا ہے تاکہ ان کو جمالیاتی دلبستگی کے مواقع میسرآتے اور طبیعت کو مسرور اور مسحور کرنے والے مناظر بہم پہنچتے لیکن بین السطور میں موصوفہ کشمیر یوں کی ہمدرد بن کر ان کے دردو کرب میں شریک ہونا چاہتی ہیں۔ دس دن کے دورئہ کشمیر نے ان کے حافظے پر جو نشانات ثبت کیے ہیں وہ طرح طرح سے ان کی تحریروں میں نمایاں ہونے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس باب میں’’قصہ آزادیٔ ہند اور راجواڑوں کا ‘‘کے عنوان کے تحت ایک ذیلی باب قائم کیا گیا ہے جس میں برصغیر کی تقسیم سے لے کر تاایں دم خون خرابہ اور لوٹ مار کو موضوع بنایا گیا ہے اور مختلف اور مستند کتب کی روشنی میں کشمیر کی سیاسی اُتھل پتھل اور کشمیریوں کی بے سر و سامانی کو اقوامِ متحدہ کی ناکامی اور مقامی انتظامیہ کی چیرہ دستیوں کی اصل وجہ قرار دیا گیا ہے۔ڈوگرہ مطلق العنانیت ، مہاراجہ ہرہ سنگھ کا پنڈت جواہر لعل نہرو سے عارضی الحاق ، آئینِ ہندکی دفعہ ۳۷۰ ، تقسیم ِہند کے تناطر میں کشمیر، جوناگڑھ اور حیدرآباد کے مثائل کی تثلیث جیسے نکات کو ایک بار پھر موصوفہ نے منضبط طور پر پیش کرکے اپنی کشمیر فہمی کا ثبوت پیش کیا ہے۔
اس سفرنامہ میں جہاں اڑتالیس رنگین تصاویر کی موجودگی قارئین کو وادیٔ کشمیر کی سیاحت کی ترغیب دینے کے لیے کافی ہیں، وہیں سفرنامہ لکھنے والی محترمہ کی مصروفیات اور ترجیحات کی بھی ترجمانی کرتی ہیں۔ میرے دوست ڈاکٹر شاہ فیصل اور جناب محمد اقبال لون (اقبال افروز ، معرفت کلچرل اکادمی،سرینگر)کی کرم فرمائیوں کا موصوفہ نے جگہ جگہ شکریہ ادا کیا ہے جن کی وجہ سے ان کا یہ سفر خوشگوار ثابت ہوا۔
وادیٔ کشمیر فردوس بر روئے زمین پر کی حیثیت سے سارے عالم میں مشہور و مقبول ہے اور اسی رُو سے دنیا کے طول و عرض سے سیاح اس کی جانب رُخ کرتے ہیں۔ یہاں کے مرغزاروں اور آبشاروں سے لطف اندوز ہو تے ہیں اور کوہساروں وسبزہ زاروں کے خیرہ کرنے والے نظاروں سے محظوظ ہوتے ہیں ۔ اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ بیرونی سیاح وادیٔ کشمیر کی سیاحت سے لطف اندوزی کے دوران یہاں کے رِستے ناسوروں کے چشم کُشا حالات کا رونا تو روتے ہیں اور عارضی طور پر ہمارے ہمدرداور غم گُسار ہونے کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہاں سے رخصت ہونے کے بعد جب وہ اپنے اپنے علاقوں میں کشمیر کا ذکر کرتے ہیں تو طرح طرح کے ناقابلِ قبول بیانات سننے کو ملتے ہیں ، اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہو تی ہے کہ وہ سیاح اپنے اپنے مسلم دشمن معاشروں میں غیر جانب داری اور ایمان داری کے ساتھ کشمیر کا ذکر نہیں کرپاتے ہیں کیوں کہ وہاں کا حاوی بیانیہ جانبدار ہی ہوتا ہے ، اور یہ سیاح بہ حیثیتِ مجموعی اپنے معاشرتی بیانیہ سے خود کو الگ کرنے میں جھجھک سی محسوس کرتے ہیں۔ اِ س پُر آشوب صورتِ حال میں پروفیسر شہناز نبی سیاح کے طور پر ایک استثنائی مثال ہے جنہوں نے نہ صرف کشمیر کی سیاحت کے دوران جستہ جستہ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ واپس اپنے شہرکلکتہ پہنچنے کے صرف دوماہ بعد زمینی حقائق ، تاریخی استناد ، انسانی جذبات و احساسات اور فنی ہنرمندی کی بنیادپر ایک شانداراور ناقابلِ فراموش ’’سفر نامۂ کشمیر جنت نظیر ‘‘ لکھ کر اہلیانِ کشمیر پر واقعی ایک احسان کیا ہے۔ اس غیر معمولی حقیقت پسندی اور اُنسیت کے اظہار کے لیے اہالیانِ کشمیر شہناز نبی کے بہ صمیمِ قلب سپاس گزار ہیں۔ یہ وادی اِن جیسے حقیقت پسندقلم کاروں اور صاحبِ دل سیاحوںکو دعوتِ سیاحت مصطفیٰ زیدی کے ان اشعار کے ساتھ پیش کرتی ہے ؎
کوئی ہم نفس نہیں ہے ،کوئی راز داں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اپنا سو وہ مہرباں نہیں ہے
مرے روح کی حقیقت میرے آنسوؤں سے پوچھو
میرا مجلسی تبسّم میرا ترجماں نہیں ہے
ان ہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
(ختم شد)
رابطہ :ڈاکٹر الطاف انجم، نظامت فاصلاتی تعلیم ، کشمیر یونیورسٹی ، حضرت بل ۔190006
موبائل : 7006425827