شہزادہ بسمل ؔ۔قلم قبیلے کا قد آور قائد قسط۔۲

ڈاکٹر جوہر قدوسی
’رقصِ بسمل‘کی چاراشاعتوں کی مجموعی تعدادِ اشاعت 22500بنتی ہے،جو اُردو افسانوی مجموعوں کے ضمن میں بے مثال ہے۔اس کے چوتھے ایڈیشن میں دس کہانیاں شامل ہیںاور صفحات کی تعداد 88ہے۔ 

جون2018ء میں ’رقصِ بسمل‘ کے ساتھ بسمل صاحب کاجو دوسرا افسانوی مجموعہ شائع ہوا،اُس کا عنوان’ خوشبو کی موت‘ہے۔یہ مجموعہ 128صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں کُل سترہ افسانے شامل ہیں۔کتاب کی تقریظ جناب ڈاکٹر نذیر مشتاق نے تحریر کی ہے۔بسمل صاحب کی افسانہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :’’جناب شہزادہ بسملؔ کا ہر افسانہ گویا سمندر ہے جو ہر سطر کے ساتھ پرت پرت کھلتا جاتا ہے اور اس کے اندر پوشیدہ لعل و گوہر کی چمک قاری کے ذہن و دل کی نظر کو خیرہ کرنے لگتی ہے۔….(وہ)اپنے افسانوں میں واقعات کی جس فنی مہارت اور پُراثر انداز میں منظر کشی کرتے ہیں ،اُس کا اندازہ افسانے پڑھنے کے بعد ہوتا ہے۔ جملوں کی ساخت اور استعاروں کا استعمال مصنف کو اتنا اچھا آتا ہے کہ افسانوں کا ہر جملہ قاری کے دل کے تاروں کو چھیڑ کر اُس کے جذبات و احساسات اوراُمنگوں کو خاموش ارتعاش پیدا کرتا ہے اور قاری خود کو افسانے کا کردار محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جناب شہزادہ بسملؔ کو قاری کی توجہ حاصل کرنے اور اُس کے دل میں دلچسپی، تجسس اور اشتیاق کو اُبھارنے کا فن آتا ہے۔ رومانیت، محبت میں ناکامی، حُسن، خوبصورتی، عشق و محبت، نفرت و حقارت، احساس جرم، ندامت، بے بسی و خود سپردگی، خوشی و مسرت، رنج و الم، حسرت و یاس، انسانی اوصاف و جذبات کا وہ کون سا رنگ ہے جو ان افسانوں میں جھلکتا ہوا نظر نہیں آتا۔ یوں تو سبھی افسانے مختصر ہیں لیکن کچھ افسانے زیادہ ہی مختصر ہیں مگر اُن کے اختصار میں کتنی طوالت اور وسعت ہے، وہ پڑھنے کے بعد ہی معلوم ہوجاتا ہے‘‘۔(’ خوشبو کی موت‘:ص13)۔اِس دوسرے افسانوی مجموعے کی اشاعت اور اِس میں شامل کہانیوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بسمل صاحب نے قرطاس و قلم کے دشت کی سیاحی میں بہت کچھ وہ حاصل کیا ہے،جو کسی اور کے بس کی بات نہیں۔

افسانوں کے ساتھ ساتھ بسمل صاحب کالم بھی خاصی تعداد میں لکھتے رہے،جو مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے،جن میں ہفت روزہ ’مسلم‘؛ روزنامہ’عقاب‘؛ہفت روزہ’احتساب‘ ؛روزنامہ ’آفتاب‘ و’آفاق‘؛روزنامہ’کشمیر عظمیٰ‘؛ماہنامہ’الحیاۃ‘وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی کالم نگاری کا آغاز سترہ سال کی عمر میں کیاتھا، جب اُن کا پہلا کالم مارچ 1961 ء میں’’ آنحضرتؐ سے پہلے عرب و عجم کے حالات ‘ کے زیرعنوان ’ نیا سنسار‘میں شائع ہوا ۔ کئی دہائیوں میں لکھے گئےاُن کے منتخب کالموں کا پہلا مجموعہ’’چلتے چلتے‘‘ سال 2019ء کے اواخر میں منظرعام پر آگیا،جو512صفحات پر مشتمل تھا اور جس کو ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔ 288صفحات پر مشتمل ’’چلتے چلتے‘‘ کی دوسری جلد2021ء کے اوائل میں شائع ہوئی اوراس سلسلے کی تیسری کڑی کے طور پر’چلتے چلتے ‘ کی تیسری جلد سال2022ء کے اوائل میں منظر عام پر آگئی ، جو280صفحات پر مشتمل ہے ۔اِس سےجموں و کشمیر کے اُردو دوست خطّے میں اُردو کالم نگاری کی ایک نئی تاریخ رقم ہورہی ہے۔نہ صرف اس لیے کہ ایک ہی مصنف کے قلم سے ایک ہی نام سےمسلسل تیسرا مجموعہ شائع کیا گیا ،بلکہ اس اعتبار سے بھی کہ پہلی بار زندگی کے ہفت رنگی تجربات ، ژرف نگاہ محسوسات اور باریک بین مشاہدات کے نتیجے میں ایک نہایت ہی دلکش اسلوب اور حسین پیرایے میں حیات آموز اور حیات آمیز کالم قارئین کو پڑھنے کے لیے مل رہے ہیں۔ میرے دعوے کی دلیل خود بخود سامنے آئے گی،جب آپ بسمل صاحب کے چنیدہ کالموں کا مطالعہ فرمائیں گے۔آپ ان کو پڑھ کرنہ صرف محظوظ ہوں گے،بلکہ مستفید ومستفیض بھی۔ اِس تیسری جلد اور اِس کے ساتھ دو ناولٹس کے مجموعے کی تقریبِ رنمائی منعقد ہوا چاہتی تھی کہ بسمل صاحب ایک عارضے میں مبتلا ہوئے،جو اُن کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔اُمید ہے کہ اپنی متنوّع خصوصیات اور بسمل صاحب کے منفرد اسلوب ِ بیان کی بناء پریہ دونوں کتابیں باذوق قارئین اور دقیقہ رس ناقدین کی نگاہِ التفات حاصل کرنے میں کامیاب ہو ں گے۔

اُردو کالم نویسی یا کالم نگاری وہ صنف ہے،جس نے بیسویں صدی میں کافی عروج حاصل کیا۔چنانچہ فی الوقت کالم نگاری کا دائرہ کار اور دائرہ عمل اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اس کی سماجی و سیاسی،تہذیبی و تمدنی،اخلاقی اور ہمہ گیر وسعت اور معنویت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے ۔کالم نگاری نہ ادب و شاعری ہے،نہ تقریر و خطابت کا نام ہے، اور نہ سیاست کا،بلکہ یہ حکایت و داستاں سرائی ہے ۔یہ بیک وقت صحافت و ادب بھی ہے اور شاعری بھی،کالم نگاری داستاں گوئی بھی ۔ یہاں تک کہ وہ تقریر و خطابت کی شعلہ سامانی کو اپنے دامن وسیع میں سمیٹے ہوئے ہے ۔کالم نگار کا قلم کبھی شعلے برساتا ہے اور کبھی شبنم ،تو کبھی معاشرے کے ناسور پر نشتر لگاتا ہے اور کبھی دلوں پر مرہم رکھتا ہے۔پاکستان کی اُردو صحافت میں اس صنف کواتنی پذیرائی حاصل ہوئی کہ وہاں روزانہ جو بیسیوں اخبارات شائع ہوتے ہیں ،اُن میں ہر اخبار میں اوسطاً دس بارہ تازہ تازہ کالم قارئین کی نذرکیے جاتے ہیں۔جہاں تک کشمیر کی اُردو صحافت کا تعلق ہے،یہاں کے بیشتراخبارات نے ایک منظم انداز میں کالم نگاری کو فروغ دینے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ گزشتہ دو عشروں میںلے دے کےروزنامہ’’کشمیر عظمیٰ‘‘ ہی وہ پہلا اخبار نظر آتا ہے،جس نے کسی قدر اہتمام کے ساتھ کالم نگاری کی اشاعت وترویج کے لیےادارتی سطح پر کوششیں کیں۔ چنانچہ بسمل صاحب کے بہت سے کالم اِسی اخبار کے صفحات میں اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔شاید اسی اخبار کی دیکھا دیکھی چند دیگر مقامی اُردو اخبارات نے بھی اس جانب توجہ دی اور اپنے صفحات کالم نگاروں کے لیے وقف کردیے۔جموں کےاُردو روزناموں نے،البتہ، کالم نگاری کو بہت فروغ دیا۔ 

بسمل صاحب کی کالم نگاری کی متعدد خصوصیات ہیں،جن پر الگ سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔اُن کی تحریروں کا مطالعہ کرکے پتہ چلتا ہے کہ زبان و بیان پر قدرت،موضوعات کے انتخاب کی ندرت،عنوانات کی جدت، اسلوبِ نگارش کی انفرادیت، پیش کش کا بانکپن اور نایاب اشعار کا جابجابرمحل استعمال– بسمل صاحب کی کالم نگاری کی چند نمایاں خصوصیات میں شامل ہے۔

سال2022ء کے اوائل میںبسمل صاحب نے ناول نگاری کی صنف میں اپنا اندراج بیک وقت دو ناولٹوں کی اشاعت سے کرایا۔اُن کے دو ناولٹس(’چندا کی چاندنی‘ اور ’پیاسی ندیا‘) پر مبنی کتاب’’سوزِ بسمل‘‘100صفحات پر مشتمل ہے اوراِسے کشمیر میں اُردو ناول نگاری کے باب میں ایک خوشگوار اضافہ قرار دیا جاسکتا ہے۔باذوق قارئین اور ادبی ناقدین کو چاہیے کہ وہ بسمل صاحب کی افسانہ نگاری،کالم نگاری اور ناول نگاری کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ فرمائیں اور ان پر الگ الگ سےاپنی انتقادی آراء تحریر فرمائیں،تاکہ مرحوم کی گونا گوں ادبی و علمی خدمات کو مناسب و موزون انداز میں اجاگر کیا جاسکے۔ 

حق تو یہ ہے کہ بسمل صاحب کے واقعاتِ حیات،اعلیٰ انسانی اوصاف،علمی و ادبی خدمات،اُن کی وضعداری،علم دوستی،سخن فہمی،زبان دانی،تنقیدی بصیرت، نکتہ سنجی،بے مثل لفظیات،نیز اُن کی وسیع المشربی،احباب نوازی،بزم آرائی،اور دوستداری پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے،اور آنے والے دِنوں میں یقیناً لکھا جائے گا۔غالباً اِس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بسمل صاحب کا حلقہ ٔ احباب و یاراں نہایت وسیع تھا۔اِس میں بزرگ اساتذۂ فن سے لیکراُن کے ہم عمروہم پیشہ ادباء وشعراءو تخلیق کار،اورشعروادب کے میدان میں’نوگرفتارانِ بلا‘یکساں طور پر سبھی شامل تھے۔اورآج اُن کی جدائی میں سب سوگوار ہیں ۔

بسمل صاحب بلاشبہ ایک کامیاب زندگی گزار کر گئے۔ انہوں نے علم و ادب کے چراغ جلانےمیں ساری عمر صرف کی۔وہ آخری وقت تک اپنے دستور و روایات پر قائم رہے،لیکن ضمیر کا سوداکبھی نہ کیا ۔

جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے،بسمل صاحب کی جھولی بھری پڑی ہے، اُن کے کالموں،انشائیوں، افسانوں اور فکاہیات کے کئی مجموعوں کے مسودوں سے،جو ہنوز منتظرِ اشاعت اور تشنۂ طباعت ہیں۔اُن کایہ ادبی سرمایہ دبستانِ کشمیر کے اُردو ادب کے لیے گنج ہائے گراں مایہ اور قابل قدراثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔اللہ کرے کہ ان نایاب موتیوںکی اشاعت و طباعت کا انتظام جلد از جلدہوجائے۔  

(رابطہ۔9906662404)