ظہور ِ اسلام سے پہلے عربوں کو اپنی زبان دانی پر بڑا ناز تھا اور صرف عربی زبان کو ہی زبان کا درجہ حاصل تھا۔وہ عربؔسے باہر کے لوگوں کو عجمی یعنی گونگا کہا کرتے تھے ،گویا صرف وہ بولنے والے تھے اور دنیا کے باقی لوگ بے زبان تھے۔غیر عرب اگرچہ باقی دنیا میں مروجہ بے شمار زبانیں بولتے تھے مگر چونکہ فصاحت ،بلاغت ،رنگین بیانی کو عرب ؔ ،عربی زبان تک ہی محدود کرلیتے تھے،اس لئے اُن کی نظر میں دیگر قومیں گونگی تھیں۔اہل ِزبان ہونے کے زعم ،بے جا فخروغرور اور زبان دانی پر ناز ہونے کی وجہ سے ہی قرآن شریف اُن کی اپنی ہی زبان میں نازل ہوا تاکہ وہ اچھی طرح سے جان لیں کہ اُن کے کلام ،شعروسخن اور جادو بیانی سے بڑھ کر بھی کوئی کلام اسی زبان میں ہوسکتا ہے ۔رشدوہدایت کا یہ صحیفہ نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک معجزہ قرار پایا جب کہ عربوں کے لئے ایک تازیانہ ثابت ہوا ۔وہ قرآن شریف کی فصاحت اور بلاغت سن کر بوکھلا اُٹھے اور حیرانگی سے اُن کی اپنی زبانیں گنگ ہوگئیں کہ جس زبان پر اُنہیں اتنا فخر و غرور تھا، اُسی زبان میں کیا ایسا اور اتنا معرکتہ لآرا ء اورعظیم کلام بھی ہوسکتا ہے ؟
اس بات کی ایک چھوٹی سی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ ایک بدو لڑکی کی شادی ہوگئی ،یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ بدو صحرائوں میں بنجاروں کی طرح زندگی گزارنے والے عربوں کو کہتے ہیں۔یہ ایک متمدن شہری لڑکی کی مثال نہیں ہے ۔شادی کی رات کو اُس کے دولہے نے اُس سے کہا :اُقتِلَ سراجَ یعنی چراغ کو قتل کردو بمعنی بُجھادو مگر یہ محاورہ قدرے پرانا تھا اور عربی زبان میں اُس وقت مستعمل نہیں تھا ۔یہ سننا تھا کہ لڑکی نے خیمے کا پردہ اٹھایا اور چیختی چلّاتی باہر کو بھاگی اور قبیلے والوں کے سامنے دہائی دینے لگی کہ ’’ہائے میں لٹ گئی ،برباد ہوگئی ،میری شادی ایک عجمی سے کردی گئی ہے ‘‘۔
اُس زمانے میں بڑے بڑے سخن ور اور شعراء تھے جن کی ملک گیر شہرت تھی اور اُن میں لُبید ؔ نامی شاعر کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ کوئی نئی چیز کہتا تو اُسے چمڑے کے ٹکڑوں پر لکھ کر خانہ کعبہ کی دیواروں کے ساتھ ٹانک دیا جاتا تھا اور لو گ ایک دوسرے کے کندھوں پر چڑھ کر وہ تازہ کلام پڑھنے میں سبقت لینے کی کوشش کیا کرتے تھے۔یہی نامی گرامی شاعر ایک روز گھوڑے پر سوار کہیں جارہا تھا، اُس کے ساتھ کچھ اور بھی ہم جلیس ہنستے مسکراتے خوش گپیوں میں مصروف چلے جارہے تھے ،اتنے میں دور سے ایک میٹھی اور پُر اثر آواز ہوا کے نازنین پروں پر سوا ہوکر آئی اور شاعر کی سماعت سے ٹکرائی———-وَالعصراِنَ الانسانَ لفی خُسر ۔۔۔آواز شاعر کے کانوں میں گونجنے لگی ۔اُ س کا برا حال ہوگیا اور اسی یقینی اور بے یقینی کی تذبذب ِحالت میں اُس نے گھوڑے سے اُتر کر زمین پر سجدہ کیا ۔ساتھیوں نے اُس کا مذاق اُڑایا اور تمسخر سے پوچھا :لبید ! کیا تم بھی کافر ہوگئے ،تم بھی اُس جادوگر(نعوذباللہ)کی باتوں میں آگئے؟لبید نے ہاتھ اٹھاکر زور زور سے سر اور ہاتھ نفی میں ہلایا اور رقت آمیز لہجے میں بولا :’’واللہ نہ میں کافر ہوگیا ہوں اور نہ اپنے دین سے پھر گیا ہوں،میں نے سجدہ کلام کی عظمت کو کیا ۔چونکہ میں خود اہل زبان اور شاعر ہوں ،اس لئے یہ میں ہی سمجھ سکتا ہوں کہ میں نے کتنا عظیم اور پاکیزہ کلام سنا ۔ یہ کلام کیا تھا ،کتنا پُر شکوہ اور اعلیٰ تھا، دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی کلام ہو ہی نہیں سکتا ۔تم ناداں اور جاہل ہو ،تم اس کو کیا سمجھو گے ۔‘‘
قرآن کریم بنی نوع انسان کے لئے اللہ رب العزت کی جانب سے ایک عظیم تحفہ ،ایک نعمت ہے اور ایک دستور العمل ہے ۔یہ ہر انسان اور ہر دور کے لئے ،ہر تہذیب و تمدن اور ہر وقت و زمانہ کے لئے ایک لائحہ عمل ہے۔یہ زندہ خدا کی،زندہ لوگوں کے لئے زندگی سے معمور ایک لازوال نعمت اور تحفہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایات و سندات کے ساتھ بنی نوع انسان کو سونپا ہے ۔(حرمت کی خاطر متن کو قصداً حذف کیا گیا ہے )یہ کتاب بغیر کسی شک کے پاک و صاف ہے۔رب العالمین کی جانب سے جو عالمین کا والی ہے ،خدا سے ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے ۔ایمانداروں کے لئے خوش خبری اور رشدو ہدایت ہے۔نیکو کاروں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے ۔یہ نازل شدہ کتاب پاک و صاف اور برحق ہے ۔اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف رہبری کرنے والی ہے ۔
رواں مہینہ باعظمت ،با برکت اور با رحمت ہونے کے علاوہ شہر َرمضان ہی نہیں بلکہ شہرالقرآن بھی ہے ۔اس لئے مود بانہ التماس یہی ہے کہ اس مہینے میں خاص طور سے قرآن کو اپنایئے ۔قرآن پڑھئے اور قرآن پڑھایئے بلکہ اوروں کو بھی سکھایئے،ا س کو پھیلایئے ،اس کو فروغ دیجئے۔قرآن کے لئے خرچ کیجئے ، اس کے نسخے اپنی حلال کمائی سے خرید کر دوسروں میں تقسیم کیجئے ۔قرآن کی روشنی سے اپنے گھروں کو منور کردیجئے ۔سینما یا ٹی وی سے اُٹھاکر اپنے بچوں کو اس مہینے میں قرآن سے متعارف کرایئے ۔جو بچے پہلے سے ہی اس کو اپنائے ہوئے ہیں ،اُن کی حوصلہ افزائی کیجئے ۔ اُن کو اس کے عوض اسی مہینے میں خصوصی تحفہ و تحائف دے کر اُن کو خوش کریئے ۔اُن کو قرآن کی افادیت و عظمت سے روشناس کرایئے۔۔۔۔
یقین مانئے کہ ہم نے قرآن کو چھوڑا تو قرآن والے نے ہم کو چھوڑدیا ہے ۔موجودہ وقتوں میں دنیا میں کونسا خطہ ٔ ارض ہے، جہاں مسلمان بے حال و بے بس ،مجبور و مقہور اور پریشان حال نہیں ہیں ۔دربدر ،بے گھر ،دوسرے غیر مسلم ممالک میں مہاجروں کی زندگی گزار رہے ہیں ۔اپنے ملکوں میں اپنے وطنوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جارہے ہیں اور دورانِ سفر مہاجرت کچھ سمندروں ،کچھ جنگلی جانوروں اور کچھ حشرات الارض کی نذر ہورہے ہیں ۔کیا آپ نے کبھی ٹیلی ویژن یا سوشل میڈیا پر فلسطینی اور شامی ؔچھوٹے معصوم اور کمسن بچوں ک حالت ِ زار دیکھی ہے جو کیمیائی بموں کے شکار بنائے گئے تھے ؟ کیا آپ نے کبھی روہنگیا برمی مسلمانوںپر ہوتا ہوا قہر و جبر ،تشدد اور زندہ انسانوں کی کھال اُترتے دیکھی ہے ؟کیا آپ نے تاریخ انسانیت کی سب سے بڑی بے رحمی ،سفاکی ،بربریت اور عقوبتیں ہوتے دیکھی ہیں ؟ منگول نژاد چنگیز اور ہلاکو نے بھی بغداد کو روندھ ڈالا مگر وہ اپنی غلطی کی سزا فقط ایک علاقے یا ایک ملک تک محدود تھی ۔آج ساری دنیا مسلمان کے خون کی پیاسی ہے اور اُس کے ساتھ بے انتہا نفرت کرتی ہے۔کیوں ؟ کیونکہ ہم رُسوا ہوئے ،تباہ ہوئے تارک قرآن ہوکر ۔اس لئے یہ تحفۂ حیات ،لایحہ ٔ عمل اور رشدوہدایت کی راہ نما کتاب دینے والے کو پھر سے پانے کی سعی کریئے ۔قرآن سے ہی ہماری بقا ہے،قرآن سے ہی ہماری زندگی ہے ،دین ہے اور دنیا ہے ۔
وما علینا الالبلاغ
………………………
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995