عظمیٰ نیوز سروس
سری نگر//وادی کشمیر کے شہرہ آفاق سیاحتی مقامات کے ساتھ ساتھ تاریخی حیثیت کے حامل مغل باغات اور جھیل ڈل میں بھی پہلگام حملے کے پانچ ماہ بیت جانے کے بعد بھی سناٹا چھایا ہوا ہے اور ملکی و غیر ملکی سیاح کیا مقامی سیاح بھی بہت کم نظر آتے ہیں۔ سری نگر میں واقع مشہور مغل باغات نشاط اور شالیمار میں روزانہ ہزاروں سیاحوں کا تانتا بندھتا تھا۔ نشاط باغ کے گیٹ پر موجود ٹکٹ کاؤنٹر پر ہر روز اتنی بھیڑ ہوتی تھی کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔ مگر آج وہاں صرف اکا دکا مقامی سیاح ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ٹکٹ کاؤنٹر پر تعینات ایک سینئر عہدیدار نے بتایا: ‘پہلگام حملے سے پہلے روزانہ دس سے بارہ ہزار سیاح باغات کا رخ کرتے تھے ، لیکن اب یہ تعداد گھٹ کر صرف دو فیصد رہ گئی ہے ۔ ہفتے اور اتوار کو مقامی لوگ ہی کبھی کبھار باغات کی سیر کو آتے ہیں، لیکن غیر مقامی سیاح تقریباً غائب ہو چکے ہیں’۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ فوری اقدامات اٹھا کر غیر ملکی اور ملکی سیاحوں کا اعتماد بحال کرے ، ورنہ سیاحت پر منحصر ہزاروں خاندان فاقہ کشی کا شکار ہو جائیں گے ۔ شہرہ آفاق اور دلکش جھیل ڈل، جو کشمیر کی پہچان سمجھی جاتی ہے ، بھی سنساں نظر آ رہا ہے ۔ پانی پر تیرتے شاندار شکارے ، جو ہمیشہ سیاحوں سے بھرے رہتے تھے ، آج کنارے پر خالی کھڑے ہیں۔ غلام نبی نامی ایک شکارا والے نے افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا:’پہلگام حملے سے پہلے اتنا رش ہوتا تھا کہ ہمیں آرام کا وقت بھی نہیں ملتا تھا۔ اب دن بھر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ نشاط باغ کے مین گیٹ کے نزدیک ٹوپیاں اور دیگر ہینڈی کرافٹ مصنوعات فروخت کرنے والے محمد اقبال بٹ نے بتایا کہ ‘ہم صبح سے شام تک دکان پر بیٹھے رہتے ہیں مگر کچھ بھی نہیں بکتا۔ اب ہم اپنے بچوں کی اسکول فیس بھی ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔’ یہی صورتحال سری نگر کے دیگر صحت افزا مقامات، بشمول شالیمار باغ، چشمہ شاہی اور دیگر مقامات کی ہیں۔ جہاں کبھی ہوٹل، ریستوران اور ہاؤس بوٹس بکنگ سے بھرے رہتے تھے ، آج وہاں سنّاٹا چھایا ہوا ہے ۔ سیاحتی شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ایک واقعہ نے پورے انڈسٹری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ ہوٹل مالکان کے مطابق ان کی بکنگ تقریباً منسوخ ہو چکی ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیوروں کے پاس سواری نہیں، گائیڈ حضرات بے روزگار ہو گئے ہیں اور ہاؤس بوٹ مالکان اپنی کشتیوں کو خالی کھڑا دیکھ کر مایوس ہیں۔یہ صورتحال نہ صرف وادی کے سیاحتی شعبے بلکہ مجموعی معیشت کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے ۔ کشمیر کے باسی آج بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ امن و سکون قائم ہو اور دوبارہ وہ دن لوٹ آئیں جب دنیا بھر سے سیاح وادی کی حسین فضاؤں کا رخ کرتے تھے ۔