سبزار رشید بانڈے
ہم سب کو معلوم ہوگاکہ سال کے بارہ مہینے ہیں اور ہر مہینہ کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہے۔ جس کی بنا پر اللہ تعالی نے بعض مہینوں کو دوسرے مہینوں سے ممتاز کیا ہے۔ رواں مہینہ شوال کا ہے ،جو ہجر ی سال کا دسواں مہینہ ہے ، اس مہینے کے خصوصیات اور فضائل ہیں۔ ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کی پہلی تاریخ یعنی یکم شوال کو مسلمانوں کی دو شرعی عیدوں میں پہلی عید یعنی عید الفطر کا دن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ نماز شکرانہ وہی ادا کرتاہے، جس نے نعمت کی قدر کی ہو۔ خاص طورسے رمضان المبارک کی بر کتوں کو سمیٹا ہو۔عید کا دن اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اظہار کا اچھا موقع ہوتا ہے۔لیکن کسی مسلمان کا دِل ہرگز دُکھانا نہیں ہے۔ عمدہ لباس پہننا ،عمدہ غذائیں کھانا ،خوشیاں بانٹنا عید کے دن کی زینت میں سے ہیں،اس کا اظہار ہونا چاہیےمگرساتھ ہی اپنے ان مسلمان بھائیوں اور پڑوسیوں کا خیال بھی ہونا چاہیے۔تاکہ وہ بھی آپ کی خوشیوں میں برابر کے شریک ہو سکیں۔آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی نعمتوں کے اظہار کے متعلق فر مایا:ترجمہ: ’’اللہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘دوسری بڑی خصوصیت جو ماہِ شوال المکرم کی ہے، وہ ہے روزے۔ جن کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاص طور پر ان روزوں کے رکھنے کی ترغیب دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واالہ وسلم نے اپنی اُمت کو بشارت دی ہے کہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے والا اس قدر اجر وثواب کا حقدار ہوتا ہے، گویا اُس نے پورا سال روزہ رکھا۔ اللہ تعالیٰ کے کریمانہ قانون کے مطابق ایک نیکی کا ثواب کم سے کم دس گنا ملتا ہے۔
شوال کے چھ روزوں کی بہت فضیلت آئی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے شوال کے چھ روزے رکھیں، جس میں فضلِ عظیم اور بہت بڑا اجرو ثواب ہے،کیونکہ جو شخص بھی رمضا ن المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال المکرم میں بھی چھ روزے رکھتا ہے تو اس کے لیے پورے سال کے روزے کا اجر وثواب لکھا جاتا ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وواالہ وسلم نے فر مایا:تر جمہ:’’جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تویہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کو ماہِ شوال کے چھ ایام میں پیدا فرمایا، تو جس نے شوال کے چھ روزے رکھے تو اللہ تعالی اپنی مخلوق میں سے ہر ایک کے بدلے اسے ایک حسنہ عطا فرمائے گا اور اس سے اُس کے گناہ مٹا دے گا اور اس کے درجات کو بلند فرمائے گا‘‘۔
واضح رہے کہ شوال کے چھ روزے رمضا ن ا لمبا رک کے روزوں کے ساتھ مشروط ہیں ،یعنی رمضان کے ساتھ زوال کے بھی چھ روزے رکھے جائیں تب پورے زمانے کا ثواب ملے گا۔ ایسا نہیں کہ رمضان کے روزے نہیں رکھے اور شوال کے چھ روزے رکھ لئے تو پورے زمانے کا ثواب ملے گا؟بلکہ رمضان کے بھی روزے رکھے پھر شوال کے رکھے،تب یہ سعادت حاصل ہوگی۔ایک دوسری حدیث پاک میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہےکہ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واالہ وسلم کو یہ فر ماتے سنا: جس نے رمضان المبارک کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔‘‘
پہلی حدیث میں شوال کے چھ روزے رکھنے کو پور ے زمانے کے روزے اور دوسری حدیث میں پورے سال کے روزےرکھنے کے مانند قرار دیا گیا ہے۔ایک نیکی کا کم ازکم اجر دس گنادیا جاتاہے۔ مسلمان جب رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھتا ہے ،توایک مہینے کے روزے دس مہینوں کے برابر بن جاتے ہیں۔اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہو جا تے ہیں،گو یا رمضان اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے پورے سال کے روزوں کے برابر ہو جاتا ہے۔
مذکورہ حدیث سے واضح طور پر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس نے پورے سال کے روزوں کا ثواب پا لیا۔نیز اگر مسلمان کی زندگی کا یہی معمول بن جائے کہ وہ ر مضان المبارک کے ساتھ ساتھ شوال کے روزوں کو بھی مستقل رکھتا رہے تویہ ایسے ہی ہے ،جیسے اس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گزاری ہو۔ لہٰذاہمیں ایسی فضیلت حاصل کرنے کی کوشش کر نی چاہیے۔
شوال کے چھے روزے جائز اور مستحب ہیں، فرض و واجب نہیں۔ ان نفلی روزوں کو رکھیں تو اجرو ثواب حاصل ہو گا، لیکن اگر کوئی نہ رکھے توبُرا بھی نہیں سمجھنا چاہیے۔ایک مسلمان کا ہر عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ واالہ وسلم کی تعلیمات اور ہدایات کے مطابق ہو نا چاہیے۔
‘’’رحمت حق ــ بہانہ می جو ید‘‘اللہ رب العزت اپنے بندوں پر بہت مہر بان ہے۔اللہ تعالیٰ کی رحمت تو بندوں کو بخشنے کا بہانہ ڈھونڈتی ہے۔بندہ نفلی عبادات بجا لاتا ہے،بظاہر چھوٹی چھوٹی نیکیاں اللہ کی پسند آتی ہیں اور بندے کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ نیکیاں کرتے رہیں۔
اللہ عزوجل نے انسانوں کو عبادت کے لیے پیدا فرمایااور اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ واالہ وسلم نے عبادت کے طریقے بتا ئے۔ فرائض و واجبات تو ہر حال میں ادا کر نا ہے،نہ کر نے پر سخت عذاب کی وعید ہیں۔ اس کے علا وہ نفلی عبادات اورذکر الٰہی سے اللہ کا قرب حاصل ہوتاہے،ذکر واذکار سے غم دور ہوتے ہیں، پریشا نیاں ختم ہوتی ہیں۔ان انعامات کے بعد اللہ کی محبت اور اس کی ہیبت دل میں جا گزیں ہوتی ہے،دل کو تاز گی اور سکون ملتا ہے،دل کا زنگ اُتر جا تا ہے ۔اللہ کی عبادت سے ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:تر جمہ: ’’وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں، سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔‘‘اللہ کے ذکر سے دلوں کوطبعی سکون و قرارحاصل ہوتا ہے۔ کثرت سے اللہ کی عبادت کر نے والوں ،والیوں کے لیے ربّ کائنات نے بخشش کے ساتھ اجر ِعظیم تیار کر رکھا ہے۔ار شاد باری تعالیٰ ہے۔تر جمہ: ’’تو جب نماز سے فارغ ہو تو دعا میں محنت کرو،اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کرو۔روزہ تزکیہ نفس کا بہترین ذریعہ ہے، اس سے انسان کو اللہ عزوجل کی بے شمار رحمتیں ،نعمتیں نصیب ہو تی ہیں۔ شوال کے چھ روزوں کی فضیلت بہت زیادہ ہے ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد چھ دن شوال میں رکھے تو گنا ہوں سے ایسا نکل گیا، جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے‘‘۔
لہٰذاہمیں چاہیے کہ یہ فضیلت والے روزے رکھا کریں۔خاص طور سے ماہِ شوال المکرم کے چھ روزوں کو رکھنے کی کوشش کریں۔ یقیناًاللہ عزوجل رحمتیں نازل فر مائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات کر نے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین
( ماندوجن شوپیان کشمیر)