سوپور،بانڈی پورہ اور بارہمولہ میںنوجوان ووٹروں کے تاثرات
بلال فرقانی
سرینگر//بارہمولہ اور سوپور میں پہلی بار رائے دہندگی کا استعمال کرنے والے نوجوانوں نے گھٹن سے خلاصی اور خیالات کے آزادانہ اظہار کیلئے ووٹ ڈالے۔پارلیمانی انتخابات کے5ویں مرحلے میں بارہمولہ،بانڈی پورہ اور سوپور حلقہ اسمبلی انتخابات میں ماضی کے مقابلے میں پیر کو انتخابی مراکز پر لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملی جبکہ لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنی رائے دہندگی کا اظہار کیا۔ شمالی کشمیر میں اگرچہ وادی کے دیگر خطوں کے برعکس ماضی میں بھی رائے دہندگی کی شرح بہتر رہی ہے تاہم پیر کو انتخابات میں پیر و جوانوں نے بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لیا۔پہلی باراپنی رائے دہندگی کا استعمال کرنے والے ووٹ ڈالنے کیلئے بے تاب نظر آرہے تھے اور ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوششوں میں لگے تھے۔نوجوانوں کا کہنا تھا کہ بدلائو اور بہتری کیلئے اپنا ووٹ ڈال رہے ہیں۔
بانڈی پورہ کے ہائر اسکینڈری اسکول میں واقع انتخابی مرکز پر ایک نوجوان خالد شعبان نے بتایا کہ ماضی میں انہوں نے بائیکاٹ بھی کیا،مگر اس بار وہ بدلائو کیلئے اپنی رائے دہند گی کا اظہار کرنے کیلئے باہر آئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بے روزگاری نے نوجوانوں کو ذہنی طور پر تذبذب کا شکار بنایا ہے اور اس کیفیت سے باہر نکلنے کیلئے بدلائو ضروری ہے۔نادی ہل انتخابی مرکز پر اسی طرح کے تاثرات پہلی بار ووٹ کا استعمال کرنے والے ثاقب نے بھی کیا۔ان کا کہنا تھا کہ تعلیم یافتہ نوجوانوںکوفکر روزگار ستا رہی ہے جبکہ مواقعوں کی کمی کی وجہ سے وہ اپنی اہلیت کو صیح سمت میں صرف کرنے سے رہ جاتے ہیں۔کینوسہ بانڈی پورہ کے معراج الدین نے بتایا کہ انہوں نے ماضی میں کافی نمائندوں پر اعتماد کیا تاہم وہ اس اعتماد پر کھرے نہیں اترے،اس لئے وہ بدلائو چاہتے ہیں تاکہ نوجوانوں کی آواز بھی پارلیمان میں گونجے۔لالڈ سوپور کے نیاز احمد بٹ نے کہا کہ وہ اپنے پہلے ووٹ کو صیح سمت میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خاندانی سیاست سے ان کا بھروسہ اٹھ چکا ہے،روایتی سیاست دانوں نے وعدوں کے سوا کچھ نہیں دیا،اس لئے انہیں اس مسیحا کی تلاش ہے جو لوگوں کو اس صورتحال سے باہر نکلنے میں رہبری کرے۔ ڈورو سپور کے انتخابی مرکز کے باہر ایک نوجوان خورشید(نام تبدیل)نے کہا کہ اگر چہ انہیں ماضی میں بھی ووٹنگ کا حق تھا،تاہم آج وہ پہلی بار رائے دہندگی کا حق استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گھٹن کے ماحول نے نوجوانوں کو ذہنی مرض میں مبتلا کیا ہے،نوجوان اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے کترا تے ہیں،اور اس صورتحال کا تدارک کرنے کیلئے ووٹ ایک جمہوری طریقہ ہے۔ان کا کہنا تھا تاہم امیدواروں نے ماضی میں انہیں مایوس کیا ہے،مگر ان پر بھروسہ کرنے کیلئے کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔پلہالن پٹن کے انتخابی مرکز پر بلال احمد گنائی نے کہا کہ ماضی میں انہوں نے کھبی بھی ووٹ نہیں دیا،جبکہ پیلٹ لگنے کی وجہ سے انکی اب تک3بار جراحی ہوچکی ہے۔گنائی نے کہا کہ تاہم انہوں نے اس بار تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ اپنے ووٹ کو ضائع نہیں ہونے دینگے،کیونکہ دیگر علاقے ترقی میں ان سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور پلہالن ابھی بھی شہر قدئم نظر آرہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تعمیر و ترقی صیح ہے تاہم نوجوانوں کو اپنی بات رکھنے کا موقعہ بھی دیا جانا چاہے۔