نرجس ملک
بلاشبہ قدرت کی ہر تخلیق مظہرِ حُسن وجمال ہے۔ اُس کی صنّاعی و کاری گری، ہُنرمندی وہُنرکاری کا نہ کوئی مول ہے، نہ ثانی اور نہ ہی کوئی صنعتِ پروردگار کو مکمل طور پر سمجھنے کا دعوے دار ہو سکتا ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ اُس نے فطری شرم و حیا اور لاج، شرم کے اظہار میں جو حُسن و دل کشی رکھی ہے، اُس کا کوئی مقابل، ثانی، نعم البدل ہی نہیں۔
حُسن بھی حُسن ہے، ملبوسِ حیا ہے جب تک۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ ’’حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘(بخاری) اور ’’حیا اور ایمان دونوں ایسے ساتھی ہیں کہ جب اُن میں سے ایک اُٹھ جاتا ہے، تو دوسرا بھی اُٹھالیا جاتا ہے۔‘‘(مستدرک حاکم) پھر فرمایا ’’حیا ایمان کا جزو ہے اور ایمان جنّت میں لے جائے گا اور بے حیائی ظلم ہے اور ظلم جہنّم میں لے جائے گا۔‘‘ (ترمذی) اور یہ کہ ’’حیا نیکی ہی لاتی ہے۔‘‘(صحیح بخاری) اور پھر وہ حدیث، جس کے ایک جملے میں ایسی جامعیت و کاملیت ہے کہ اُس کے بعد پھر موضوعِ حیا پہ کہنے کو کچھ رہ ہی نہیں جاتا کہ ’’جب تُو حیا نہ کرے، تو پھر جو چاہے کر۔‘‘ (سنن ابودائود)
تو ذرا غور کریں کہ دین میں شرم وحیا کی کس قدر تاکید و تلقین کی گئی ہے۔ اور جب بات شرم و حیا کے اظہار کی ہوتی ہے، تو قلب و نگاہ کی حیا اپنی جگہ، مگر عملی اظہار کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ انسان کا ظاہری لباس، اُس کے باطنی خواص کا آئینہ دار ہو۔ مطلب حیادار شخص کی پوشاک سے بھی اُس کی شرم وحیا ظاہر ہونی چاہیے۔ اور ہماری آج کی بزم گویا ’’شرم و حیا میں حُسن ہے‘‘ ہی کی عملی تفسیر ہے۔ ایک روزہ دار کو مجسّم روزہ دار نظر آنا ہی چاہیے اور ہمارا یہ انتخاب یہ امر بحُسن و خُوبی انجام دے سکتا ہے۔کہنے کو تو کہتے ہیں کہ ’’خُوب صُورتی، صرف ایک خُوب صُورت چہرے کا نام نہیں، یہ ایک خُوب صُورت ذہن، خُوب صُورت دل اور خُوب صُورت رُوح کے مجموعے کانام ہے۔‘‘ یا یہ کہ ’’ خُوب صُورتی انسان کے اندر سے نکلتی اورآنکھوں سے جھلکتی ہے۔‘‘ یا پائولو کوئلہو کے بقول ’’ظاہری خُوب صُورتی درحقیقت باطنی خُوب صُورتی ہی کا عکس ہوتی ہے۔‘‘ یا خلیل جبران کے بقول ’’چہرے کی چمک خُوب صورتی نہیں، خُوب صورتی تو دل کی روشنی ہے۔‘‘ مگر شعر و سُخن میں حُسن و دل کشی کے بیان، حُسن و جمال کی قصیدہ گوئی کے لیے کبھی خال ہی کسی نے باطنی حُسن کو پیشِ نگاہ رکھا ہوگا۔یہ علیحدہ بات ہے کہ قدرت کی تو ہر تخلیق ہی خُوب صُورت ہے، خصوصاً وجودِ زن تو مجسّم حُسن و کمال ہی ہے۔