اسلام ایک آفاقی دین ہے ، اس کے آغوش میں رحمت ہی رحمت ہے۔اس دین پر چلنے والا رحمتوں اور برکتوں سے مالامال ہوجاتا ہے۔اس کی مثالیں تاریخ میں بھری پڑی ہیں ، ممکن ہے آج کے مسلمان ایمان وعمل کی کمزوری کی وجہ سے کہیں پر اللہ کی رحمت اور اس کی نصرت سے محروم ہو ں لیکن تاریخ کے ذرین اوراق ہماری فتح وظفر سے مزین ہیں۔ اسلام میں ہرایک مسلمان کی رعایت اور دلجوئی کا سامان موجود ہے۔ کوئی مالدار ہے اور کوئی غریب ہے تو ایسا نہیں کہ مالداری کی وجہ سے مالدار اللہ کے نزدیک بہت محبوب ہے اور غریب اپنی غربت کے سبب محبوب نہیں۔پروردگار کے نزدیک محبوب ہونے کا معیار دین وتقویٰ ہے۔ جس کے پاس دینداری ہوگی ، اللہ کا تقویٰ ہوگا وہ اللہ کا محبوب وپیارا بندہ ہوگاخواہ وہ غریب ہو یا دولتمند، یتیم ولاوارث ہو یا اونچے خاندان کا، معذور وبیمار ہو یا صحت مندوتوانا، اپاہج ہو یا صحیح وسالم۔ اس لئے اللہ نے ہمیں جس حال میں بھی رکھا ہے اس کا تقویٰ اختیار کریں اور بکثرت اعمال صالحہ انجام دیں۔ اللہ کا فرمان ہے : ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے ہیں ، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔ (الحجرات:13)
کچھ دیندارلوگ جب بیمار ہوجاتے ہیں تو غمگین ہوجاتے ہیں کہ اب نیکی کا موقع کم ہوگیا، بطور خاص نیک خواتین رمضان المبارک میں حیض ونفاس آجانے اور نمازوروزہ سے دور ہونے کے سبب بہت ہی مایوس ہوجاتی ہیں اور خود کو مردوں سے کمتراور دینداری کے اعتبار سے پست سمجھتی ہیں۔ ایسی خواتین کو مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔ اسلام نے سب کی منصفانہ رعایت کی ہے اور خواتین بحالت حیض ونفاس بھی رمضان المبارک میں بہت سے نیک اعمال انجام دے سکتی ہیں اور خوب خوب اجروثواب کماسکتی ہیں۔اس سے پہلے اس زمرے کی مسلم خواتین کوچند باتوں کی نصیحتیں کرنا چاہتاہوں۔ پہلی بات : مومن مرد وعورت کو کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے ،اللہ بڑے چھوٹے ، کالے گورے ، غریب ومالدار اور بیمار وتندرست میں کوئی فرق نہیں کرتا بلکہ اس کا فضل وکرم ہر قسم کے نیک بندوں پر عام ہے۔ دوسری بات : بیماری وصحت اور عورتوں کے مخصوص ایام ومختلف مراحل اللہ کی جانب سے ہیں ،وہ اپنے بندوں کے لئے وہی کرتا ہے جو اس کے حق میں مناسب ہوتا ہے۔ اگر آپ رمضان میں بیمار یا حیض ونفاس میں ہیں تو اس میں بھی اللہ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہے۔ آپ نے پہلے سے رمضان میں روزہ رکھنے اوراعمال خیر کرنے کی نیت کی تھی مگر عذر کی وجہ سے بعض خیر کے کام نہیں کرپارہے ہیں تو اللہ تعالیٰ نیت کا ثواب دے گا۔ نبی ؐ کا فرمان ہے : عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔( البخاری ) بندہ کسی نیکی کی نیت کرلے اور عذر کے سبب وہ نیکی نہ کرسکے تو اللہ اس کا ثواب دیتا ہے۔ تیسری بات : جو آدمی صحت میں جو عمل کرتا تھا بیماری کے سبب اگراس سے وہ عمل چھوٹ جائے تو اسے عمل کرنے کے برابر اجر ملے گا، یہ اللہ کا بندوں پر بڑا احسان ہے۔نبی ؐ کا فرمان ہے : ترجمہ: جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جنہیں اقامت یا صحت کے وقت یہ کیا کرتا تھا۔ (صحیح البخاری:2996)
اب یہاں مختصرا ًمعذور خواتین کے لئے ایسے نیک اعمال بیان کرتا ہوں جو وہ رمضان المبارک میں انجام دے سکتی ہیں اور اجر وثواب کماسکتی ہیں۔ معذور سے مراد بیمار، حیض والی، نفاس والی ، حمل والی (اگر روزہ نقصان پہنچائے اس کو یا اس کے بچے کو) ، دودھ پلانے والی (اگر روزہ نقصان پہنچائے اس کو یا اس کے بچے کو)اور عمررسیدہ (اس قدربوڑھی کہ انہیں روزہ رکھنے کی طاقت نہیں )عورتیں ہیں۔ (1) جن عورتوں کے لئے ضعف وبڑھاپے کے سبب روزہ رکھنا دشوار ہے و ہ ہرروزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانادیدے ،کھانے میں نصف صاع یعنی ڈیڑھ کلو اناج دینا ہے۔ روزہ کے علاوہ رمضان کے جتنے کارخیر ہیں ان تمام میں وہ حصہ لے سکتی ہیں ، ان کے لئے کچھ بھی منع نہیں ،سوائے اس کے جس کی طاقت نہیں رکھتی۔ (2) بیمار خواتین کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو وقتی طور پر بیمار ہوں اور روزہ رکھنے سے قاصر ہوں تو بیماری کے دنوں میں روز توڑ دیں گی اور بعد میں قضا کریں گی۔ دوسری وہ جو کسی ایسے دائمی مرض میں مبتلا ہوں جس میں روزہ رکھنا دشوار ہو توایسی خواتین ،عمررسیدہ خاتون کے زمرے میں ہیں۔ یہ ہرروزے کے بدلے روزانہ ایک مسکین کو نصف صاع(تقریبا ڈیڑھ کلو) گیہوں ، چاول یا کھائی جانے والی دوسری اشیاء دیدے۔بیمار خاتون حسب استطاعت نماز کے ساتھ جس عمل کی بھی طاقت رکھے ،اسے سرانجام دینے کی کو شش کرے۔ (3) حاملہ ومرضعہ کو روزہ سے نقصان لاحق ہونے کا خدشہ ہو تو روزہ چھوڑ سکتی لیکن اگر کسی قسم کے ضرر کا خطرہ نہ ہو تو انہیں روزہ رکھنا چاہئے۔ نماز تو فریضہ ہے یہ صرف حیض ونفاس میں ساقط ہے لیکن بیماری ، ضعیفی اور حمل ورضاعت میں کبھی بھی نماز نہیں چھوڑنی ہے۔ نماز کے ساتھ بقیہ سارے نیک کام انجام دے سکتی ہیں۔ (4) حیضاء اور نفساء : بحالت حیض ونفاس روزہ ونماز منع ہے۔ انقطاع دم کے بعد نماز کی قضا نہیں لیکن روزوں کی قضا لازم ہے۔ یہاں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ حیض والیوں کو لامحالہ رمضا ن میں بھی حیض آئے گا اورکتنی خاتون کو اس ماہ میں بچہ بھی پیدا ہوتا ہے تو حیض ونفاس کی حالت میں عورت کون کون سا نیک کام کرسکتی ہے تاکہ رمضان المبارک سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے اور سیلان دم کی لمبی مدت بغیر نیکی کے یوں ہی نہ گزررجائے۔ اس مسئلے کی وضاحت سے قبل یہ بتانا چاہتاہوں کہ عام طور سے خواتین میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ رمضان المبارک میں عورتوں کے لئے روزہ کے سوا کوئی عمل نہیں ہے اور جو حیض ونفاس سے ہو وہ تو اور بھی سمجھتی ہیں کہ ہمارے لئے کچھ بھی نہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔ رمضان المبارک میں خواتین کیا کیا عمل انجامدے سکتی ہیں ، یہاں چند ایسے اعمال ذکر کرنا چاہتاہوں جسے حیضاء ونفساء رمضان میں انجام دے سکتی ہیں اور فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
٭ قرآن کی تلاوت :اس میں اختلاف ہے کہ عورت حیض کی حالت میں قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے کہ نہیں ؟ البتہ بعض علماءکرام کہتے ہیں کہ مصحف کو بغیر چھوئے تلاوت کرے ۔ اسی طرح معلمہ اور متعلمہ بھی قرآن کی تلاوت بغیر مصحف کو چھوئے کرسکتی ہیں۔
٭ ذکر واذکار: صبح وشام کے اذکار ، سونے جاگنے کے اذکار، اور دیگر کسی قسم کے بھی اذکار عورت حیض ونفاس میں کرسکتی ہیں۔ اس لئے عورت کو چاہئے کہ اذکار کی مستند کتابوں سے کثرت سے اذکار حفظ کرلے جن سے رمضان وغیر رمضان ہمیشہ فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ بعض اذکار مختصر ہیں مگر اجر وثواب میں بہت ہی زیادہ ہیں۔
٭ دعا: یہ مومن کا ہتھیار ہے ، دعا سے بندوں کو ہرچیز مل سکتی ہے۔ بیماری سے شفا، فقر سے نجات، مشکل سے چھٹکارا، جنت سے قربت اور جہنم سے رستگاری سبھی ممکن ہے۔ بدر کے میدان میں نبیؐ نے دعا کی اس کے اثر سے تین سو تیرہ نہتے مسلمان ہزارکے مسلح کافروں پر غلبہ پاگئے۔ اس لئے رمضان میں سبھی مسلمانوں کو بشمول حیضاء ونفساء بطور خاص دعا کا اہتمام کرنا چاہئے اور دعا میں افضل اوقات کو تلاش کرنا چاہئے مثلا سجدہ میں ، اللہ کے نزول آسمان کے وقت(تہائی رات) ، اذان واقامت کے درمیان وغیرہ۔
٭ استغفار: نبیؐ دن میں سو سوباراستغفار کیا کرتے تھے ، بحالت حیض ونفاس استغفار کو کثرت سے لازم پکڑا جائے ، اس کا بڑا اجر ملتا ہے۔ اللہ تعالی بہت ساری چیزوں میں برکت دیتا ہے ، نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے حتیٰ کہ مالداری بھی نصیب کرتا ہے۔
٭ توبہ : توبہ یہ ہے کہ بندہ شرمندہ ہوکر رب سے اپنے کئے ہوئے گناہوں کی معافی طلب کرے۔ رمضان ایک سنہرا موقع ہے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں اپنے جرم کا رب العالمین کے سامنے اعتراف کرنا چاہئے اور آئندہ اس سے بچنے کا عزم کرنا چاہئے۔ اللہ تعالی توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ نبیؐ کا فرمان ہے : ہربنی آدم گناہ گار ہے اور سب سے اچھا گناہ گار وہ ہے جو توبہ کرنے والا ہے۔
٭ صدقہ وخیرات : اس ماہ مبارک میں حیضاء ونفسا ء اپنے مال سے غرباء ومساکین کو صدقہ دے سکتی ہیں ، اپنے پاس مال نہ ہو تو شوہر کی اجازت سے اس کے مال سے صدقہ دینے میں دونوں کو ثواب ملے گا۔
٭ دوسروں کو افطار کراکرروزہ داروں کے برابر ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے۔
٭ روزہ داروں کے لئے افطاری تیار کرنے اوران کے لئے سحری تیار کرنے سے بھی ان شاء اللہ ثواب ملے گا۔
٭ درس وتعلیم : اگرآپ کے پاس دینی تعلیم ہے تو خواتین کے لئے رمضان میں روزہ اور دینی احکام سے واقفیت کے لئے تعلیم کا انتظام کریں اور خواتین کو اسلام کی ضروری تعلیم سے آگاہ کریں ، قرآن و حدیث کا بھی درس دے سکتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے آپ کو اس عمل کا بہت اجر ملے گا۔اگر تعلیم یافتہ نہیں ہیں تو دوسروں کے علمی حلقے میں شامل ہوکر دین سے آگاہی حاصل کریں۔
٭ شب قدر سے استفادہ : اگر کوئی حیضا ء یا نفساء رمضان کا آخری عشرہ پائے تو اس رات شب بیداری کرے، خوب خوب دعا، ذکر، توبہ اوراستغفار کرے۔ اس رات کی مخصوص دعا بطور خاص پڑھے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ حیض ونفاس والی عورت کو بدنی عبادت میں نمازوروزہ منع ہے مگر قلبی اور لسانی اعمال مثلا ذکرواذکار، دعاواستغفار، صدقہ وخیرات، درس وتدریس، اوردینی کتابوں کا مطالعہ جیسے اعمال انجام دینا جائز ہیں۔ اسی طرح وہ اعمال جو طہارت وغیرطہارت دونوں میں انجام دینا جائز ہیں وہ بھی کرسکتی ہیں جیسے خدمت خلق ، حسن معاشرت، صلہ رحمی، نصیحت، احسان وسلوک ، نیکی پر تعاون ، برائی سے روکنے پر مدد وغیرہ۔