شجاعت بخاری اب ہمارے درمیان موجود نہیں ۔ انہیں عید سے ایک روز پہلے گولیوں کی بوچھاڑ میں اپنے ود محافظین سمیت بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ مرحوم ایک معروف صحافی اور دانشور تھے اور بیک وقت چار اخبارات ۔۔۔رائزنگ کشمیر ، بلند کشمیر، سنگرمال ، ہفت روزہ پر چم۔۔۔ کے مالک ومدیر تھے ۔ا ن کا دفتر سرینگر کے لال چوک علاقہ میں پریس کالونی میں واقع ہے ۔ یہ سول لائنز ایریا کہلاتا ہے اور ہائی سیکورٹی زون کے زمرے میں شامل بتایا جاتا ہے ۔ مرحوم افطار کے لئے دفتر سے گھر کی طرف اپنے دو ایس پی اوز کے ہمراہ نکلے ،کار میں بیٹھے کہ نامعلوم مسلح افراد نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کی ۔ کئی گولیاں ان کے جسم میں پیوست ہو گئیں اور وہ بر سر موقع اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق ان کے دو مسلح محافظوں میں ایک موقع واردات پر ہی دم توڑ بیٹھا اور دوسرا ہسپتال منتقل کرتے ہوئے اپنی جان کھو بیٹھا۔ شجاعت صاحب کے جان بحق ہونے پر پوار کشمیر سوگوار ہے ۔ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر لوگ ان کی وفات کا سوگ منارہے ہیں ۔ بخار ی صاحب سے سرینگر میں اس وقت راقم کا ربط وتعلق رہا جب وہ جناب وید بھسین کے انگریزی اخبار’’ کشمیر ٹائمز‘‘ کے لئے کام کرتے تھے۔ اسی دوران وہ ’’دی ہندو‘‘ سے منسلک ہو گئے۔ ان دنوں ’’کشمیر ٹائمز ‘‘وادی میں آج کے مقابلے میںزیادہ سرکولیشن میں تھا۔’’کشمیر ٹائمز‘‘ جموں سے شائع ہوتا تھا۔ وادی میں یہ دوپہر کو پہنچتا تھا مگر قارئین اس کا انتظار کرتے تھے کیوں کہ ان ایام میں اس کی ادارتی پالیسی کشمیر کاز سے مکمل طور ہم آہنگ تھی۔ شجاعت بخاری اور اور ان کے دیگر رفقائے کار نے مل کر اس کا حلقہ ٔ قارئین وادی میںبڑھانے میں کافی اہم کردار ادا کیا ،بالکل اسی طرح جیسے کشمیر کے طول وعرض میں بی بی سی اردو سروس کو جناب یوسف جمیل نے اور وائس آف امریکہ مرزا نے کوعروج بخشا۔ شجاعت بخاری بہت محنت کش، نباض اور سنجیدہ صحافی تھے۔ میرے قیام سری نگر کے دنوں میںامیرا کدل کے ایک کلومیٹر کے اندراندر کئی میڈیا والے اپنا بسیرا ڈالے ہوئے تھے۔ ایک جانب اردوروزنامہ’’ الصفا ‘ تھاجس کا دفتر امیرا کدل سرائے بالا میں تھا، اس کے بالکل قریب ہفت روزہ’’ چٹان‘‘ کا دفترتھا ، چند ہی قدم چل کے امیراکدل پل کے ا یک سرے پر مصروف اخبار فروش عبد اللہ نیوز ایجنسی کی دوکان واقع تھی، اس کے ساتھ اے ایف پی کے لولی سنگھ اور مرحوم اظہار وانی کا ٹھکانہ تھا ۔ میں ان دنوں’الصفا‘‘سے منسلک تھا اور اسی مناسبت سے ان صحافیوں سے خوب گپ شپ رہتی۔بعد میں میرا دوسرا پڑائو روزنامہ ’’آفاق‘‘ اور’’ کشمیر ٹائمز‘‘ بنا جہاں شجاعت بخاری سے خصوصی طور ملنا جلنا رہتا تھا۔ اپنی گریجویشن کے دوران ہی صحافت کے ساتھ میری وابستگی بڑھ گئی تھی اور ذاتی مراسم کا دائرہ مرحوم خواجہ ثناء اللہ بٹ صاحب ( مدیرروز نامہ آفتاب )اور مرحوم صوفی غلام محمد( مدیر سری نگر ٹائمز ) تک بڑھ گیا ۔ ان بزرگوں کی صحبت میں صحافت کی ابجد سے راقم کی شناسائی ہوئی۔ ’’سر ینگر ٹائمز‘‘ کے بے مثال کارٹونسٹ جناب بشیر احمد بشیر کے کارٹونوں سے حالات کی عکاسی ہی نہیںہوتی بلکہ وہ سمندر کو کوزے میں بند کر نے کے فن میں یکتائے روزگار تھے ۔ ان دنوں’’ سرینگر ٹائمز‘‘ اور’’ آفتاب‘‘ کی کشمیر کی اردو صحافت میں وہی حیثیت تھی جو پاکستان میں ’’جنگ ‘‘اور’’ نوائے وقت‘‘ کو ہے۔۹۰ کی دہائی میں پھر اردو اور انگریزی صحافت کا جیسے کشمیر میں سیلاب آگیا۔ نئے نئے چہرے ، باصلاحیت وپیشہ ور اور نئے تجربات کے حامل اس قافلے میں جوق در جو ق میں شامل ہوئے۔ میدان میں نیا ٹیلنٹ سامنے آنے سے مسابقتی دوڑ بھی شروع ہوئی۔ قبل ازیںکشمیریونیورسٹی میں صحافت کا شعبہ قائم ہو چکاتھاجس سے فارغ شدہ ہنر مند صحافیوں کی کھیپ دھڑا دھڑ میڈیا اآوٹ لٹوں میں بڑی اُمنگوں اور آرزؤں کے ساتھ وارد ہوتی رہی لیکن قاعدہ ٔ کلیہ ہے کہ کسی کنفلکٹ زون میں کسی صحافی کا قلم اور کیمرہ صداقت شعاری کے ساتھ چلانا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہوتا ہے ۔ ناگفتہ بہ حالات میں اپنے پیشے کا فرض نبھاتے ہوئے میدان ِ صحافت کی ہر بڑی ہستی کو نہ صرف اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر چلنا پڑا بلکہ انہیں طرح طرح کی خصومتوں، تکلیفوں اور بے توقیریوں کا سامنا بھی کر نا پڑتا ہے تاکہ صحیح معنوں میں عوام کی دلی آرزؤں کی نمائندگی ہواور حالات کی تصویر کشی کا حق ادا ہو ۔ کشمیر کے اندھیاروں میںتاریخ کو خون کے آنسو روتی آنکھوں کے ساتھ پیشہ ٔ صحافت کا چراغ جلا نے والے’’الصفا ‘‘ کے مدیر محمد شعبان وکیل، فوٹو جرنلسٹ مشتاق علی اور اب شجاعت بخاری کو دنیائے ناپائیدار سے وداع کر نا پڑا ۔ ان کے علاوہ کتنے صحافیوں ، رپورٹروں، فوٹو جرنلسٹوں ، اخبار مالکان ، اخباری عملوں ، ہاکروں کو بشمول قلم کار، کالم نگار،دانش ور بے انتہا مصائب کا سا منا کر نا پڑا، اس کا کوئی شمار نہیں۔ اس سب کے باوجود حوصلہ افزاء حقیقت یہ ہے کہ تمام ہمت شکن حالات میں بھی صحافت نے مظلوم کشمیری عوام کی ترجمانی کر نے میں کسی بخل یا سمجھوتہ بازی سے کام نہ لیا بلکہ مدیروں سے لے کر رپورٹروں تک نے ستم کیشیوں کے باوصف حق بیانی میں کوئی کسر نہ رکھی، چاہے انہیں دھمکیاں ملیں، خوف زدہ کیا گیا، تکلیفیں دی گئیں ، پابندیاں لگائی گئیں، قلم اور کیمرے توڑے گئے، ہڈیاں پسلیاں ایک کی گئیں لیکن یہ سرپھرے صحافی حق اور سچ لکھنے اور دکھانے سے کبھی باز نہ آئے بلکہ انہوں نے اپنے خون سے صحافت کی عظمت اور قلم کی حرمت کو سر بلند کیا۔ شجاعت بخاری کا نام نامی اس صف میں نمایاں طور شامل ہے۔ کشمیری صحافی بہت مشکل حالات میں کام کر ر ہے ہیں،وہ ہر وقت اپنی زندگی ہاتھ میں لئے پھرتے ہیں لیکن شکر ہے وہ اپنے پیشے سے ایک غیر متزلزل کمٹمنٹ رکھتے ہیں ، نڈر اوربے باک ہیں، اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس شعبہ کا تقدس قائم رکھے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ کشمیری صحافی بھارتی میڈیا اور انٹرنیشنل میڈٖیا سے بھی وابستہ ہے مگر یہ سب انسانی حقوق کی پامالیوں کو نظر انداز کرنے کے روادار ہیں نہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نظر انداز کرنے پر تیار ہیں ۔ اقوام متحدہ کی کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ بھی انہی حق پسند صحافیوں کی صدائے بازگشت سناتی ہے ۔ اب اس میں شجاعت بخاری پاک خون سے شامل ہو گیا ہے ۔
مقتول شجاعت بخاری نے اپنی نگرانی میں بیک وقت انگریزی اردو اور کشمیری زبان میں صحافت کو بساط بھر فروغ دیا۔ انہوں نے کشمیری ادب اور ثقافت کے فروغ کے لئے بھی خدمات سر انجام دیں۔ کشمیر سے باہر بھارت، پاکستان اور دنیا بھر میں اپنا ایک حلقۂ اثر قائم کیا۔ اسلام آباد اور مظفر آباد کے دورے پر بارہا آئے تو ان کے ساتھ کئی دلچسپ یادگارملاقاتیں ہوئیں۔ ہر وقت انہیں کشمیریوں کی بے بسی اور مظلومیت پر فکر مند پایا۔ ان کی تحریریں اس کا زندہ ثبوت ہیں۔ ان میں وطن کی بھلائی کے لئے درد مندی اور خلوص کوٹ کوٹ کر بھرا ہو اتھا ۔ اسی وجہ سے وہ پاک بھارت بات چیت کی بحالی کے لئے بھی کافی سرگرم رہے۔ ٹریک ٹو سے ان کاجڑے رہنا اسی حقیقت پر دلالت کر تی ہے۔ ظاہر ہے ا س وسیلے سے وہ کشمیر کی آواز موثر انداز میں اُجاگر کرتے رہے۔ اس حوالے سے ان پر تنقیدیں بھی ہوئیں مگر کسی کی نیت اور دل کا حال کون جان سکتا ہے سوائے ایک خالق کائنات کے۔ کشمیر پر کئی کانفرنسیں ہوئیںجن کا شجاعت صاحب ذوق وشوق سے حصہ بنے رہے۔ معلوم نہیں آیا شجاعت صاحب پیشہ ورانہ رقابت کا نشانہ بنے یا کشمیر کاز میں ان کے رول پر کسی غیبی طاقت کو تحفظات تھے، جو بھی ہو ہم اس قتل ناحق کے بارے میں صرف قیاس کے طور مار ہی باندھ سکتے ہیں مگر ایک بات طے ہے کہ ان کا قتل کا صرف اور صرف کشمیر کازکے لئے نقصان دہ ہے۔ کشمیر ایک موثر آواز سے محروم ہو گیا ۔ ظاہر ہے بھارت اس قتل کا الزام بھی حسبِ معمول سرفروشوں پر ڈالتا ہے لیکن عسکری تنظیمیں اس دلدوز واردات کی کڑے الفاظ میں مذمت کر چکی ہیں ، بلکہ اس المیہ کے پس پردہ اصل مجرموں اور ملوثین کی نشاندہی کے لئے غیر جانبدار ا نہ انٹرنیشنل نکوائری کا بھی مطالبہ کر رہی ہیں۔ شجاعت بخاری کے قتل کے فوراًبعد مرکزی حکومت نے نام نہاد رمضان جنگ بندی کا اعلان واپس لیا اور کل یعنی ۱۸؍ جون سے بھارتی فوجی کا سرچ آوپریشن کے نام پر گاؤں گاؤںکریک ڈاؤن کر نا اور ہر کشمیری کی کنپٹی پر بندوق تانے رکھنے کا سلسلہ شدومد سے شروع کیا جاچکاہے ۔اس پر بھارت نواز اورسنگھ سے بے جوڑ سیاسی رشتہ رکھنے والی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے منصب سے اس وقت استعفیٰ دیا جب بی جے پی نے ان کی حمایت واپس لی ۔ پی ڈی پی ۔ بی جے پی حکومت کے دوران کالے قوانین کے تحت کشمیر کے معصوم عوام کا ہول سیل قتل عام ہی جاری نہ رہا بلکہ چشم فلک دیکھا کہ کس طرح آصفہ جیسی مظلومیت اور میجر گگوئی جیسی ننگ انسانیت کہانیاں اس ناپاک سیاسی گھٹ جوڑ کے سبب رقم ہوئیں۔ حد یہ کہ عید کے روز بھی لوگ فوجیکے ہاتھوں گولیوں کا نشانہ بنے ۔ شجاعت بخاری اس وحشیانہ کلچر کے خاتمے کی تمنا لئے کشمیر سے متعلق مختلف کانفرنسوں میں شریک شجاعت بخاری اس وحشیانہ کلچر کے خاتمے کی تمنا لئے کشمیر سے متعلق مختلف کانفرنسوں میں شریک ہوکر افسپا کی واپسی اوربھارتی فوج کے انخلاء کا مطالبہ دہراتے رہے۔ وہ کشمیر حل کا اعتدال پسندانہ موقف منوانے کے لئے اپنی جان جھوکم میں ڈالتے اور یہ دوٹوک موقف کوئی اور نہیں بلکہ شجاعت بخاری جیسے لوگ ہی پیش کر نے کی جرأت کر سکتے ہیں۔ غرض وہ کشمیر کا کیس انتہائی دلیری، حقیقت پسندی اور بے باکی سے پلیڈ کر تے رہے اور اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنا صحافیانہ اور دانش ورانہ کردار ادا کرتے رہے ۔افسوس کہ کشمیرکاز کے ازلی دشمن نے اس بے لوث ہستی کو قتل کر کے اہل کشمیر کو ایک موثر اور توانا آواز سے محروم کر دیااور اس قتل سے فی الحال بھارت کا ہی فائدہ ہوا مگر یاد رکھئے اس خون ناحق سے آئندہ ماہ وسال میں مزید شجاعت پیدا ہوتے رہیں گے جو اس فرزند کشمیر کی تاباںمشعل کو فروزاں رکھیں گے اور اس کے خوابوں کے کشمیر کی تعمیر کر کے ہی دم لیں گے۔