ڈاکٹر محمد زاہد اقبال
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، بے شک!یہ مہینہ تم پر آیا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے، جو شخص اس رات سے محروم رہا ، وہ ہر خیر سے محروم رہا اور اس کی خیر سے کوئی شخص محروم نہیں رہے گا ، سوائے بدقسمت اور حرمان نصیب کے ۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ لیلۃ القدر ‘‘ کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب لیلۃ القدر آتی ہے تو جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور ہر بندہ جو کھڑا یا بیٹھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کررہا ہو( اس میں تلاوت، تسبیح وتہلیل اور نوافل سب شامل ہیں،غرض کسی مسنون طریقے سے ذکر وعبادت میں مشغول ہو) اس کے لیے وہ دعائے رحمت فرماتے ہیں۔( بیہقی،شعب الایمان، مشکوٰۃ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا ،یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ فرمائیے کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ یہ رات ’’ لیلۃ القدر ‘‘ ہے، تومیں کیا پڑھاکروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، یہ دعا پڑھا کرو:۔ترجمہ :۔’’اے ، اللہ آپ بہت ہی معاف کرنے والے ہیں ،معافی کو پسند فرماتے ہیں، پس مجھے معاف فرما دیجئے۔‘‘(ترمذی،ابن ماجہ،مشکوٰۃ)
شب برأت کو ظاہر کرنے اور شب قدر کو پوشیدہ رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت ہے کہ شب قدر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول،بخشش اور دوزخ سے نجات حاصل ہونے کی رات ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے مخفی رکھا ہے تاکہ لوگ ایک رات پر ہی بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔اگر ’’ لیلۃ القدر‘‘ کو لغوی معنی کے لحاظ اسے دیکھاجائے تو ہررات لیلۃ القدر اور قابل قدر ہے ،کیونکہ ہرروز نعمت ہے اور ہررات دولت ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ہر رات نصف شب کے بعد اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر تجلی فرماکر بندوں کی جانب متوجہ ہوتا اور ان کی دعاؤں کو قبول فرماتاہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، بے شک، ہم نے قرآن پاک کو شب قدر میں اتارا۔ یعنی قرآن شریف کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اس رات میں نازل کیاگیا ۔ یہ ہی ایک بات اس رات کی فضیلت کے لیے کافی ہے کہ قرآن مقدس جیسی عظمت والی کتاب اس میں نازل ہوئی ، چہ جائیکہ اس میں اور بھی بہت سی برکات وفضائل شامل ہوگئے ہوں۔آگے ارشاد ربانی ہے۔ آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ شب قدر کیا ہے ؟یعنی اس رات کی بڑائی اور فضیلت کا آپ کو علم بھی ہے کہ کتنی خوبیاں اور کس قدر فضائل اس میں ہیں اس کے بعد چند فضائل کا ذکر فرماتے ہیں شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، یعنی ہزار مہینے تک عبادت کرنے کا جس قدر ثواب ہے، اس سے زیادہ شب قدر میں عبادت کرنے کا ثواب ہےاور اس زیادتی کا علم بھی نہیں کہ کتنی زیادہ ہے۔اس رات میں فرشتے اترتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ شب قدر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ اترتے ہیں اور جس شخص کوذکر وغیرہ میں مشغول دیکھتے ہیں، اس کے لیےرحمت ومغفرت کی دعا کرتے ، اوراپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر زمین کی طرف اترتے ہیں۔
’’مظاہرحق میں ہے کہ اسی رات میں ملائکہ کی تخلیق ہوئی اور اسی رات حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا آغاز ہوا، اسی رات جنت میں درخت لگائے گئے اور دعا وغیرہ کا قبول ہونا تو بکثرت روایات میں آیا ہے ۔ایک روایت میں ہے کہ اسی رات حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر اُٹھائے گئے اور اسی رات بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی۔
یہ جو فرمایا گیا ہے کہ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہزار مہینوں تک عبادت کرنے کا جتنا ثواب ہے، اس سے زیادہ شب قدر کی عبادت کاثواب ہے اور کتنا زیادہ ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، جسے اللہ تعالیٰ زیادہ فرمائے اس کی نوازش وکرم فرمائی کا کیا ٹھکانا۔ دنیا ہی کا دستور ہے کہ بڑے لوگ تھوڑی بہت بڑائی کو کوئی بڑائی نہیں سمجھا کرتے ، جس کی نظر اونچی ہوتی ہے، وہ بہت اونچی چیز ہی کو اونچا مانتا ہے۔
علما نے لکھا ہے کہ جس شخص نے شب قدر میں عشا ءاور نماز فجر جماعت سے ادا کرلی، اس نے بھی اس رات کا ثواب پالیا ، اور جو شخص جتنا زیادہ نیکی کرے گا ، زیادہ ثواب کا حق دار قرار پائے گا۔’’ صحیح مسلم ‘‘ میں حضرت عثمان غنی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے عشا ءکی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرلی تو اس نےآدھی رات کے قیام کا ثواب پالیا، اور جس نے صبح (فجر)کی نماز بھی جماعت سے ادا کرلی تو پوری رات جاگنے ،عبادت کرنے کا ثواب حاصل کرلیا (معارف القرآن)’’ قدر‘‘ کے معنی عظمت وشرف کے ہیں اور اس رات کو ’’ لیلۃ القدر ‘‘ کہنے کی وجہ اس رات کی عظمت وشرف ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اس رات کو لیلۃ القدر( شب قدر) اس وجہ سے کہاگیا کہ جس آدمی کی اس سے پہلے اپنی بے عملی کے سبب کوئی قدر وقیمت نہ تھی ، اس رات میں توبہ واستغفار اور عبادات کے ذریعے وہ بھی صاحب قدر وشرف بن جاتا ہے۔خوش نصیب ہے وہ شخص جسے اس رات کی عبادت نصیب ہوجائے کہ جو شخص اس ایک رات کو عبادت میں گزار دے، اس نے گویا تراسی سال چار ماہ سے زیادہ مدت کو عبادت میں گزاردیا، اس اضافے کا بھی حال معلوم نہیں کہ ہزار مہینے کتنے ماہ سے افضل ہیں( عربوں کے یہاں اس زمانے میں ہزار سے آگے گنتی نہ تھی)
اللہ جل شانہ ، کا حقیقتاً بہت ہی بڑا انعام ہے کہ قدر دانوں کے لیے یہ ایک بے بہا نعمت عطافرمائی۔بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ نبی کریمﷺ نے گزشتہ امتوں کی عمروں کو دیکھا کہ ان کی عمریں بہت تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی عمریں بہت تھوڑی ہیں، اگر وہ نیک اعمال میں ان کی برابری کرنا چاہیں تو ناممکن تھا،اس سے اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو افسوس ہوا، اس کی تلافی میں یہ رات مرحمت ہوئی کہ اگر کسی خوش نصیب کویہ راتیں بھی نصیب ہوجائیں اوروہ انہیں عبادت میں گزار دے تو گویا اس نے ہزاروں سال سے بھی زیادہ کامل وقت اللہ کی عبادت میں گزار دیا ۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی اسرائیل کے چار حضرات کا ذکر فرمایاکہ یہ سب اسّی اسّی برس تک اللہ کی عبادت میں مشغول رہے ، اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کی، اس پر صحابہ کرام ؓکو حیرت ہوئی ،پھر حضرت جبرائیل ؑ حاضرخدمت ہوئے اور سورۃ القدر نازل ہوئی ، اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں۔اس سورت کے نازل ہونے کا سبب جو کچھ بھی ہوا ہو ، لیکن امت محمدیہ کے لیے یہ اللہ جل شانہ کا بہت ہی بڑا انعام ہے، یہ رات اللہ تعالیٰ کا عظیم عطیہ ہے، اس میں عمل بھی اسی کی توفیق سے میسر ہوتا ہے۔( فضائل رمضان ومظاہرحق)
’’ شب قدر‘‘ کے بارے میں قطعی خبر اس لیے نہیں دی گئی کہ کوئی شخص اس رات پر ہی بھروسہ نہ کرلے اور ایسانہ کہے کہ میں نے اس رات میں جوعمل کرلیا ، وہ ہزار مہینے سے بہتر ہے چناں چہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا ، مجھے یہ درجہ عطا ہوا ، میں جنت میں جاؤں گا ،ایسا خیال اسے سست نہ بنادے، وہ اللہ سے غافل نہ ہوجائے ،ایسا کرنے سے دنیاوی امیدیں اس پر غلبہ پالیں گی اور جواُسے ہلاک کردیں گی، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اُن کی عمر کے بارے میں بھی بے خبر رکھا ، اگر ہر شخص کو اپنی عمر کا پتہ ہوجاتا تو وہ کہتا کہ ابھی تو مرنے میں بہت وقت باقی ہے، اس وقت دنیاوی لطف اٹھالیں ، موت کا وقت قریب آئے گا تو توبہ کرلیں گے ، خدا کی عبادت کرلیں گے اور نیکو کاربن جائیں گے۔عمر سے اس لیے بے خبر رکھاگیا کہ انسان ہر وقت ڈرتا رہے اور نیک کام کرے، ہمیشہ توبہ کرے اور جو شخص ایسا کرے گا، اُسے دنیا کی لذتیں حاصل ہوں گی اور آخرت میں وہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا ۔
بہرحال ہر شخص کو اپنی ہمت اور وسعت کے موافق تمام سال اس کی تلاش میں کوشش کرنی چاہیے ، نہ ہوسکے تو رمضان بھر،یہ جستجو بھی نہ ہوسکے تو عشرۂ اخیرہ کی طاق راتوں کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور اگر خدانخواستہ یہ بھی نہ ہوسکے تو 27ویں شب کو تو بہرحال غنیمت سمجھنا ہی چاہیے ، اگر تائید ایزدی شامل حال ہے اور کسی خوش نصیب کو یہ میسر ہوجائے تو پھر تمام دنیا کی نعمتیں اور راحتیں اس کے مقابلےمیں ہیچ ہیں۔