مشتاقؔ فریدی، ڈوڈہ
امت مسلمہ پر اللہ تعالیٰ نے ماہِ صیام کی صورت میں جو انعام فرمایا ہے اسکے کیا کہنے۔ اسی ماہِ مبارک میں لیلہ القدر کا نزول گویا رب کریم نے امت مسلمہ پر اپنی رحمتوں کے تمام دروازے خصوصی طور کھول دئے ہیں۔اب امت مسلمہ کی صواب دید پر منحصر ہے کہ کون خوش نصیب اس دریائے رحمت و برکت سے فیضیاب ہوتا ہے۔ کون توبہ و استغفار سے گناہوں کی کثافت سے دُھل جاتا ہے کون معصیت سے ہمیشہ کےلئے تائب ہو جاتا ہے۔ رب رحیم وکریم کا اعلان عام ہے کہ میری رحمتوں سے نا اُمید نہ ہو۔
شبِ قدر کی فضیلتوں، اس میں رحمتوں برکتوں کے نزول پر اہل علم و قلم نے شرح و سبط کے لکھا ہے ، لکھتے رہیں گے۔علمائے کرام،واعظین حضرات، ایمہ عظام منصبی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اظہار خیال فرماتے رہتے ہیں۔یہ بات تو اظہر من الستحق ہے کہ شب قدر غروبِ آفتاب سے ہی اپنی آب و تاب کے ساتھ شروع ہوتی ہے اور آغاز ِفجر تک اپنے خلو میں رحمتیں، برکتیں ارض و سما میں بکھیرتی رہتی ہے۔مگر رسم و روایات یہ ہیں کہ شب قدر کی عظیم رات کو نمازِ عشاء رات ۹یا دس بجے کے بعد پڑھی جاتی ہے، پھر نماز عشاء کے بعد شب ِبیداری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ گویا ہم نے 27 کی رات کو ہی شب قدر کو مختص کر رکھا ہے جبکہ قرآن پاک میں آیت ایض میں ماہِ صیام کی آخری طاق راتوں میں اس کی تلاش کا واضح حکم ہے۔یہ صرف تن آسانی کا تقاضا ہے ورنہ طاق راتوں میں ہی مسلسل اسے تلاش کرنا حکم الٰہی ہے۔تمام رات میں کونسا لمحہ قبولیت کا ہے، رب کریم ہی جانتے ہیں مگر روح اسلام سے نا بلد کچھ واعظین اس رات میں اپنے تلمی تجربہ کا اظہار کرنے کےلئے محراب میں کھڑا ہوتے ہیں اور شب قدر کی فضلیت بیان کرنا شروع کرتے ہیں، کیا معلوم یہی قبولیت ِ دعا کے لمحات ہوں؟ حالانکہ عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ شبِ قدر،شبِ برأت ،شب ِمعراج کی فضلیت اُن ایام مقدسہ سے قبل جمعۃ المبارک میں بیان کی جائے تاکہ عوام میں ان شب ہائے مقدمہ کا اہتمام کریں۔ عبادت کرنے کا ذوق و شوق پیدا ہو جائے اور شبِ بیداری کرنے والوں میں یقین کی کیفیت پیدا ہو جائے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ کئی عالم ِدین شبِ قدر کی شب ایک مسجد میں ہی نہیں بلکہ مختلف مساجد میں گھومتے پھرتے ہیں اور بن بلائے مہمان کی طرح محراب میں کود پڑتے ہیں اورخطاب کرنا شروع کرتے ہیں۔شومئی قسمت سے وہ ریا کاری کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں ، مائیکیںآن کرکے اس شب کی فضیلت کو مجروح کردیتے ہیں اور ناحق کئی لوگوں کو ذہنی عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں۔ جن علاقوں کی بستیوں میںغیر مسلم لوگ رہتے ہیں، اُن کی نیندیں حرام کرتے ہیں۔ اب دل پرہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجئے کہ ہم اس ہنگامہ آرائی سے اسلام کی شبیہہ کو کیا چار چاند لگاتے ہیں۔دعا ہے کہ ہمارے واعظین و مبلغین ریا کاری سے محفوظ وا مان رہیں۔ آمین
( رابطہ959695904 🙂