سرینگر جموں شاہراہ ریاست کی معیشی ترقی کےلئے بنیاد کے پتھر کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ بیرون ریاست سے کشمیر اور لداخ ڈویژن کو آنےو الی ساری سپلائی، جس پر موجودہ دور کی تجارتی معیشت ٹکی ہوئی ہے، اس شاہراہ کے بند یا کھلے ہونے سے منسلک ہے۔ یہی حال وادی سے بیرون ریاست ہونے والی فروٹ کی تجارت کا بھی ہے۔ ایسے میں جب یہ شاہراہ آئے روز بند ہوتی رہتی ہے تو نہ صرف تجارت کے آہنگ میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے بلکہ اشیاء کی قیمتوں میں بے اعتدالی کا عنصر غالب ہو جاتا ہے، جو بالآخر عام صارفین پر اثر انداز ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وادیٔ کشمیر میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کبھی اعتدال پر نہیں رہتیں۔ کیونکہ جب بیرون ریاست سے آنے والی مال بردار گاڑیوں کو ایک دن کے سفر میں تین تین دن لگ جائیں تو وہ کاروباریوں سے اضافی کرایہ وصول کرتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ کاروباری حلقے یہ اضافی کرایہ اپنے منافع میں سے تو نہیں دے سکتے لہٰذا وہ قیمتوں میں اضافہ کرنے سے گریز نہیں کرتے اور پھر ناجائز منافع خوروں کا ٹولہ، جو ایسے حالات کو ٹوہ میں ہوتا ہے ، صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھا کر صارفین کو دو دو ہاتھوں لوٹنے میں کوئی کسر اُٹھائے نہیں رکھتا۔ ورنہ حالیہ ایام میں قصابوں، مرغ فروشوں اور سبزی والوں کو من مرضی کے نرخ مقرر کرنے کا حوصلہ نہ ہوتا ۔ ایسی صورتحال میں افسوس کا مقام یہ ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے مارکیٹ چیکنگ کی مہموں کے باوجود اس میں کمی آنے کی بجائے شدت دیکھنے کو ملتی ہے۔ چونکہ اب کوئی ایسا دن دیکھنے تو نہیں ملتا جب یہ شاہراہ بار بار بند نہ ہوتی ہے اور بحال ہونے پر بھی اس پر روزانہ گھنٹوں بدترین ٹریفک جام پیش نہ آتے ہوں۔ اگر چہ شاہراہ کو جموں سے ادھمپور تک چہار گلیارہ بنا نےکا کام مکمل ہوا ہے اور اب اس سے آگے بانہال تک کا کام جاری ہے اور لوگ یہ امید کر رہے تھے کہ اس عمل سے شاہراہ پر سفر کا عمل نہ صرف آسان ہوگا بلکہ وقت میں بھی خاطر خواہ بچت ہوگی لیکن فی الوقت صورتحال اس سے اُلٹ ہے اور بعض اوقات طویل ترٹریفک جاموں کی وجہ سے آٹھ گھنٹے کا یہ سفر بارہ سے پندرہ گھنٹوںتک کھینچ جاتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ٹریفک جاموں کی بدترین صورتحال کی وجہ سے رام بن بانہال سیکٹر میں بعض اوقات 10 سے15گھنٹوں تک جام دیکھنے کو ملےہیں، جس سے مسافروں اور تاجروںکے معمولات اور منصوبے درہم برہم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سرینگر سے جموں جانے والے یا وہاں سے واپس آنے والے مسافر کئی وجوہات کی بنا پہ ان مشکلات کے خوگر ہو چکے ہیں، لیکن بانہال اور رام بن کے درمیان روزانہ سفر کرنے والے ملازمین، تاجروں اور طلاب کے معمولات بُری طرح متاثرہونے کی وجہ سے انہیں روزانہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازمین کے وقت پر اپنی ڈیوٹی پہ نہ پہنچنے کی وجہ سے سرکاری دفاتر خاص کر صحت عامہ کے مراکز میں دور دراز علاقوں میں آئے ہوئے مریضوں کو سخت مشکلات اور تکالیف اُٹھانا پڑتی ہیں جبکہ طلبہ کے تعلیمی معمولات بھی متاثر ہوجاتے ہیں، جو بالآخر انکے کیرئیر پر منفی اثرات کا باعث بن جاتے ہیں اور وہ امتحانات میں خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اسکے علاوہ تاجروں کا ایساطبقہ جسے روزانہ سفر کرنے کی ضرورت پڑتی ہےمالی نقصانات سے دو چار ہو رہاہے لیکن جس عنوان سے ٹریفک کی آمد ور فت میں خلل ایک معمول بنتا جا رہا ہے اُ س سے ایسا لگ رہا ہے کہ انتظامیہ اسے معمول کی صورتحال تصور کرنے لگی ہے اور اسکا ازالہ کرنے کےلئے بلندبانگ دعاوی کے باوجود زمینی سطح پر کوئی کاروائی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ شاہراہ پر جام ہونے کی ایک بڑی وجہ شاہراہ پر جاری تعمیراتی کاموں کے بہ سبب ایک درجن سے زائد مقامات پر سڑک تنگ ہوگئی ہے، جبکہ تعمیراتی سرگرمیوں کے نتیجہ میں جابجا ملبے کے ڈھیر جمع ہو جانے کے ناطے بھی شاہراہ کئی مقامات پر سکڑ کر رہ گئی ہے اور ان مقامات پر دو طرفہ ٹریفک کی آمد ورفت سے گاڑیوں کی رفتار سست ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ جام کی صورت پید اکرتی ہے۔ فی الوقت شاہراہ پر کیلا موڑ، سیری، چند ر کورٹ اور پنتھال کے مقامات پر ٹنل تعمیر کرنے کا کام جاری ہے، جوجب تیار ہونگے تو مسافت میں خاطر خواہ کمی آئیگی لیکن فی الوقت ان مقامات پر بھی جام لگنےکے بہ سبب مسافروں کے لئے گھنٹوں اپنی گاڑیوں کے اندر بیٹھ کر کسمساتے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہراہ پہ سرینگر سے جموں تک جگہ جگہ ٹریفک پولیس کا عملہ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کےلئے تعینات ہے، لیکن یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اُنکی زیادہ ترتوجہ معمول کی کاروائی میں جرمانے وصول کرنے پر مرکوز رہتی ہے جبکہ انکی نظروںکے سامنے جام لگ جاتے ہیں، جو گھنٹوں تک جاری رہنے کی وجہ سے ہزاروں گھنٹوں کے ایام کار کی تضیع کے بہ سبب کروڑوں روپے کا نقصان کا سبب بن جاتے ہیں۔ماضی میں یہ شاہراہ چند مخصوص مواقع کو چھوڑ کر چھوٹے بڑے ٹریفک کےلئے دو طرفہ کھلی رہتی تھی لیکن رواں برس یہ ریکاڈ قائم ہوا ہے کہ بڑی مال بردار گاڑیوں کو صرف یکطرفہ طور پر چلنے کی اجازت دی گئی ہے، جس کی وجہ سے شاہراہ پر میلوں تک ان ٹرکوں کی قطاریں کھڑی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ شاہراہ پر ایسی گاڑیاں، جو مختلف وجوہات کی بنا پرخراب ہو جاتی ہیں یا حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں، کو ہٹا کر شاہراہ پر ممکنہ رکاوٹ سے بچنے کےلئے میکانزم بھی انتہائی کمزور ہے۔ اب جبکہ برسات کا موسم شروع ہوچکا ہے اور ان ایام میں اکثر راستہ بند ہو جانے کی وجہ سے وادیٔ کشمیر میں ضروری سپلائز متاثر ہوجاتی ہے، لہٰذا اسکے رکھ رکھائو پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔وگرنہ ناجائز منافع خوروں کا طبقہ لوگوں کی کھال ادھیڑنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریگا۔ فی الوقت ریاست میں صدارتی راج نافذ ہے اور گورنرانتظامیہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ سیاسی دخل اندازیوں سے ماوریٰ ہو کر انتظامی جذبے کے تحت صورتحال کا بھر پور جائزہ لیکر عام لوگوں کے درد کا مداوا تلاش کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریگی۔