مورخ ضرورلکھے گاکہ جب عربستان کے اندرمندرکی بنیادرکھی جارہی تھی ، معاشی ترقی کی آڑمیں حجازکی مقدس سرزمین پہ فحاشی پھیلانے کے لئے نت نئے اعلانات ہورہے تھے ، اونٹ دوڑ میں سبقت لینے والوں میں بیش بہا انعامات تقسیم کئے جارہے تھے، بعض مسلمان دبئی اورشارجہ میں کرکٹ بخارمیں مبتلاتھے ، بالی وڈشائقین فحش رقاصہ سری دیوکی موت پرسوگوار تھے ، عین اسی موقع پر روسی لڑاکا طیارے شام کے علاقے الغوطہ پر پر تباہ کن اور وحشیانہ فضائی بمباری کرکے مکینوں سے کھچاکھچ عمارتوں کے پرخچے اڑا رہے تھے۔انسانی بستی پرمیزائل برس رہے تھے آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے اور چارسودھواں ،گردوغبار بلندہورہا تھااور اگلے ہی لمحے فلک بوس عمارتوں کی جگہ پر ملبے کے ڈھیر کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ان حملوں کا نشانہ سول آبادی، بچوں ، خواتین اوربلالحاظ عمروجنس الغوطہ کے شہری بن رہے تھے۔روسی جٹ طیارے مسلسل آگ اگل رہے ہیں اور الغوطہ میں قیامت کاسماں ہے۔ بچوں،خواتین ،بوڑھوں اورنوجوانوں کی لاشوں سے سرزمین شام کاالغوطہ اٹاپڑاہے ۔معصوم چیخوں سے زمین شق اور عرش ہل رہا ہے لیکن فرش پر موجود مسلمان ممالک پرمسلط بے حس حکمران مہربلب ۔انہیں کوئی فکر دامن گیرنہیںان یہود و نصاری کے غلاموں کواگر فکرلاحق ہے تووہ یہ کہ انکے آقاان سے کسی طرح راضی ہوں اوربس۔ یہ سطورلکھتے وقت قلم میری انگلیوں کو جواب دے رہاہے ۔لکھوں مگرکیالکھوں،بیان کروں مگرکیسے بیان کروں،ابتداکہاں سے کروں اپنوں کی مدہوشیوں ،بے ضمیریوںسے یاغیروں کی قہرمانیوں سے بچوں کی لاشیں اٹھانے کاکام بدستور جاری ہے۔واضح رہے کہ کئی عالمی رپورٹس کے مطابق دوسال قبل تک شام کے470,000 مرگ انبوہ ہوا۔ایک غیر سرکاری تنظیم (SYRIAN CWNTER FOR POLICY RESEARCH)سیریین سینٹر فار پالیسی ریسرچ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام میں2011سے 12فروری 2016 تک 470,000 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ 19لاکھ افراد زخمی ہوئے ہیں ۔رپورٹ کے مطابق ملک کی 45 فیصد آبادی کو جنگ شروع ہونے کے بعد اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا ہے جن میں 40 لاکھ سے زائد افراد ملک سے فرار ہو گئے ہیں جبکہ 64لاکھ افراد ملک کے اندر بے گھر ہوئے ہیں۔سیرییین سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے دمشق میں قائم مرکز کاکہناتھاکہ مارچ 2011 میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے12فروری 2016 تک 11.5 فیصد شامی آبادی ہلاک ہو گئی ہے۔شام کے اس غیرسرکاری ادارے کے جاری کردہ یہ اعداد و شمار پہلے برطانیہ کے اخبار گارڈین میں دیے گئے تھے۔جبکہ اقوام متحدہ نے اس سے قبل شامی شہریوں کے بے گھر ہونے والوں کی تعداد ایک کروڑ دو لاکھ بتائی تھی۔شام کی تباہ کن صورتحال کومختصرالفاظ میں بیان کرناہوتواس طرح کیاجاستاہے کہ’’ گذشتہ سات سالہ خونیں دور میں شام پورا برباد ہوچکا ہے۔جگہ جگہ لاشیں اٹی پڑی ہیںاورملت اسلامیہ شام کے بچے خون میں لت پت ہیں‘‘۔
ایک طرف شام کے عین پڑوس میں مسلمان حکمرانوں کاحال یہ ہے کہ وہ اپنے شاہی درباروں، بارہ دریوں، نشاط و سرور کی محفلوں ،شکار گاہوں،سونے چاندی کی طشتریوں، جواہرات جڑے پیمانوں، شاہی مشروبات کی بیش قیمت صراحیوں، گراں بہا فانوسوں، لگژری خواب گاہوں، محافظوں، باورچیوں، باغبانوں، چراغ جلانے والوں، مشروب برداروں،’’ لبرل اسلام ‘‘کی راہ ہموارکرنے والے نیم ملائوں،قصیدہ خوانوں، درباری مورخوں، مادر پدر آزاد شاعروں، رقاصائوں، طوائفوں، مغنیوں، سازندوں، مسخروں، بھانڈوں اورجلادوںکی فوج ظفرموج کے ساتھ اپنے پر شکوہ محلات، ہیبت ناک قلعہ جات اور خیرہ کن اورزرخاب خیموں کی عیاشیوںپرفکرمندہیں کہ وہ نہ چھن جائیں، یاللعجب ! دوسری طرف شامی مسلمان ایک آدم خور ڈکٹیٹر شپ کی قہرمانیوں کی زد میں ہیں ،جس کے تسلط سے ملت اسلامیہ شام قصہ ٔ پارینہ ہور ہے ہیں ،ظلم و بربریت کا علمبردار ایک سرکش حاکم ان کاتازہ خون پیتاجا رہاہے ۔ شام جہاں ملت اسلامیہ اگرچہ گزشتہ نصف صدی سے ظلم و جبر اور بدترین کمیونسٹ نظریات رکھنے والے کے زیرِ تسلط سسک سسک کر غلامی کی زندگی بسر کررہی تھی ، وہاں پہلے حافظ الاسد تیس سالہ صدارت پر قبضہ جمائے ہوئے شامیوں کا خون چوستا رہا اورآمریت مخالف قوتوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتا رہا۔ اس قاتل نے صرف 1982 میں حما شہر میں علماء اور نہتے شہریوں پر ٹینکوں کی مدد سے چالیس ہزار کے لگ بھگ افراد کو بیدردی کے ساتھ قتل کیا اور پورے شہر کو بمباری کے ذریعے پیوند ِخاک کردیا اور ہزاروں آمریت مخالف علماء دانشوروں اورصحافیوں کو پوری دنیا میں فلسطینیوں کی طرح اپنے گھروں سے بے گھراوراپنے آبائی وطن سے ہمیشہ کے لئے جِلا وطن کردیا ۔اس کی موت کے بعد شامیوں کو یہ خام خیالی اور توقع تھی کہ اس کا بیٹا بشارالاسدبزعم خود باپ سے مختلف ہوگا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق بشار الاسد کے اس آمرانہ اقتدار کے دوران بھی ملت اسلامیہ شام سکھ چین کا ایک لمحہ بھی نہیں گزار سکا اوروہی باپ والی آمرانہ طرزِ حکمرانی شامیوں کے مقدر میں پیوند لگاتی رہی ۔
تیونس سے بہارعرب کے نام سے 2011میں ایک موومنٹ چل پڑی جوشام کے آمریت کے محلات سے بھی جاٹکرائی۔ بہارعرب کے دوران ملت اسلامیہ شام کو ظالم حکمران خاندان اورمنحوس کمیونزم نظام جس کی ملت اسلامیہ دشمن پالیسیوں نے اہل ِ شام کی تمام تر انسانی حقوق آزادی اظہار رائے کو برسہا برس سے یرغمال بنایا ہوا تھا،سے نجات کی اُمیدپیداہوئی اوروہ اس کاتاج وتخت اڑانے پرکمربستہ ہوئے۔ زمینی جنگ میں پسپائی کے بعد شامی اسدآمریت نے فضائی حملے شروع کیے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں اور ستمبر 2015 ء سے جب روس ظالم اورسفاک بشاراوراس کی آمریت کوبچانے شام پہنچااوراس کی فضائیہ نے بمباری شروع کردی توشام تہ و بالاہوا۔ واضح رہے روس کی آمدسے قبل ایران ڈنکے کی چوٹ پربشارالاسد کوزمینی جنگ میں مددکوپہنچاتھا۔اس طرح ایرانی اورروسی مداخلت سے ظالم اورسفاک بشارکی آمریت کوللکانے والے شامی مسلمان ایک تثلیث کی زدمیں آگئے ۔یہ تثلیث حلب، موصل،حماص ،حماء،رقہ، اد لب اور شام کے ہر شہر ،ہرانسانی آبادی کوتہس نہس کرتی رہی اور کھل کرسرزمین شام میں موت کا وہ کھیل کھیل رہی ہے جس پر صر ف انسانی تاریخ شرمندہ ہے ۔آسمان سے برستے آگ کے میزائل، فضا میں گرجتے جنگی طیارے اور توپوں کی دل دہلا نے والی آوازیں ، مشین گنوں کی تڑ تڑاہٹ، مکانات سے اٹھتا ہوا سیاہ دھواں، جلی بھنی لاشیں، جسم انسانی کے اڑتے چیتھڑے، مسخ شدہ لاشیں، چیختی چلا تیں عورتیں، روتے گڑ گڑاتے بوڑھے،تڑپتے بلکتے معصوم بچے اور خوف زدہ نوجوان، ویران شہر، تباہ حال دیہات،آباد قبرستان ایک بھیانک ملک جہاں ہر طرف موت رقص کر رہی ہے۔ گھروں کومنہدم کر کے ویرانیوں کو بسا دیا گیاہے ۔سرزمین ِ شام پرمحشر کی سی دہشت و ہولناکی اور قیامت کی سی وحشت وسراسیمگی ہرسو پھیلی ہوئی ہے ، سسکتے بلکتے ،گودوں میں دم توڑتے معصوم بچے ، بچوں کی شہادت پر روتی چلاتی ،سینہ پیٹتی بے بس مائیں ،خواتین و بچوں کو کندھوں پراٹھائے لاچار شوہر،مجبورباپ اور بے کس بھائی فر یادکریں تو کس سے کریں ؟مددمانگیں تو کس سے مانگیں؟دکھ درد سنائیں تو کسے سنائیں ؎
کوئی ایسا اہل دل ہو کہ فسانۂ مصیبت
میں اسے سنا کے رئوں وہ مجھے سنا کے روئے
طرفہ تماشا یہ کہ اس خونریزی پرتمام عرب وعجم کے مسلمان ممالک خاموش ہیں ۔ تثلیث کی بربریت سے حلب، موصل اور اد لب کے بعداب الغوطہ جہنم زاربناہواہے شام کے دارالحکومت دمشق کے نواح میں دمشق سے محض دس اورقاتل انسانیت بشارالاسدکے محل سے صرف پانچ کلومیٹردوری پر واقع علاقہ الغوطہ پھل دار درختوں اور میٹھے پانی والا وہ ہرا بھرا علاقہ ہے جو دمشق کومشرق سے میلوں چوڑائی میں گھیرتا ہے،ماضی میںالغوطہ دنیا کی انتہائی زرخیز زمینوں میں اس کا شمار ہوتا تھااور زمانہ قدیم میں اسے دنیا کے عجائبات میں شمار کیا جاتا تھاپر بشارآمریت اور اس کے اتحادی روس کے لگاتار تباہ کن فضائی حملوں سے غوطہ میں ہرطرف لاشیں بکھری پڑی ہیں۔گلیاں خون اگل رہی ہیں۔روس اپنے نئے ہتھیاروں کوآزماتے ہوئے ملت اسلامیہ شام کی نسل کشی کررہا ہے۔وحشیانہ فضائی بمباریوں سے شامی مسلمان بلالحاظ عمروجنس کا نشانہ بن کر اسپتال ، اسکولوں، مسجدوں ،بازاروں اورگھروںمیں دم توڑ رہے ہیںیا مارے جارہے ہیں۔واضح رہے کہ 2011میں سب سے پہلے شام کے غوطہ سے یہ نعرہ بلندہواتھاکہ ’’الشعب یریداسقاط النظام‘‘کہ نظام بدلنے کے لئے اب نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے ۔
مارچ 2011 سے نومبر 2015 کے درمیان فزیشنز آف ہیومن رائٹس کے مطابق ملک میں 240 ہسپتالوں پر 336 حملے ہوئے جن کے نتیجے میں طبی عملے کے 697 ارکان مارے گئے۔شام میں ہسپتال کی تلاش انتہائی مشکل کام بن چکا ہے۔ 113 سرکاری ہسپتالوں میں سے 58 فیصد یا بند ہو چکے ہیں یا محدود پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔جبکہ باقی بچے ہسپتال اور ہیلتھ سینٹرز یاتوبندکردیئے گئے یا پھرمحدود پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔ 25 فیصد سکول تباہ ہو چکے ہیں یا وہاں پناہ گزین کیمپ یا فوجی کیمپ بن چکے ہیں۔ جو سکول باقی بچے بھی ہیں ان میں سے کئی کام نہیں کر رہے کیونکہ ملک میں اساتذہ میں سے ایک چوتھائی یعنی ساڑھے 52 ہزار نوکری چھوڑ چکے ہیں۔الغرض شام میںقیامت کاسماں ہے اورشامی مسلمانوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔الغوطہ میںتادم تحریر شہیدہونے والوں کی تعداد 600سے زائدتک پہنچ گئی ہے۔مرنے والوں میں بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔امریکہ کی لونڈی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے الغوطہ میں ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کو زمین پر جہنم سے تعبیر کیا ہے اور فوری طور پر انسانی بنیاد پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے 24فروری ہفتے کو ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حملے بند کر دیں، تاکہ انسانی ہمدردی کی کارروائیاں سرانجام دی جا سکیں۔تاہم روس نے اسے مستردکردیا۔ واضح رہے کہ الغوطہ کے مکین بشارالاسدکی فرعونیت کوتسلیم کرنے سے منکرہیں۔ شام میں خوراک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے عمل میں اضافہ ہو رہا ہے اور امدادی سامان یا تو چور بازار میں پہنچ جاتا ہے یا اس کا منزل حکومت کے منظور شدہ علاقے ہی بنتے ہیں۔ دمشق کے مضافات میں واقع مشرقی غوط جیسے محصور علاقوں میںجولوگ ابھی بچے ہوئے ہیں محصورہونے کی وجہ سے وہ بھوک سے مررہے ہیں۔
سوویت یونین کے سقوط کے بعد پیوٹن نے نہ صرف روس کی مسیحی حیثیت بحال کی بلکہ زار روس کی طرح وہ ایک مسیحی سیاسی حکمران کی طرح ابھرا اور کلیسا سے اپنا رشتہ مضبوط کیا حتی کہ مسیحیوئوں میں اسے ایک نجات دہندہ جیسی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ حلب کے آرچ بشپ Jean-Clment نے پیوٹن کو مسیحیوں کے لیے امید کی کرن قرار دیا۔اس کاکہناتھاکہ صرف پیوٹن ہی ایسا رہ گیاہے کہ جو اپنا مقصد حیات نہیں بھول سکا۔اس کاکہناتھاکہ ہم بھی یہ بھول سکیں گے کہ یہ وہی پیوٹن ہے کہ جس نے کچھ عرصہ قبل باقاعدہ عیسائیت قبول کی اور پبتسمہ کروایا۔خود پیوٹن کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی اسٹیٹ کی مسیحیت کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دے گا، اس سلسلے میں وہ خود کو ایک مقدس جنگ میں محسوس کرتا ہے ۔ یہاں آپ کو صدر بش کی نائن الیون کے بعد والی تقریر زیر نظر رہے جس میں بش نے صلیبی جنگ کا تذکرہ کیا تھا ، گوکہ بعد میں وہ اس کی تاویلیں اور وضاحتیں پیش کرتارہا۔ الغوطہ کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ لفظ مسیحی دنیا میں کئی بار استعمال ہوا ۔وہ صلیبی جنگیں ابھی نہ تو ختم ہوئی ہیں اور نہ ہی مکمل۔ وہ یقینا اسی سر زمین پر ختم ہوں گی جہاں سے شروع ہوئی تھیں اورجناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس دن مسلمان ہی ان جنگوں کو انجام تک پہنچائیں گے۔ صلیب سر نگوں ہوگا اور صلیبی ذلیل و خوار ہوں گے۔ حق و باطل کی اس کشمکش میں حق کی حتمی جیت اس دنیا کے اختتام سے پہلے ہوگی، اسی لئے اسے قرب قیامت یعنی دنیا کی انتہا کی علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیا گیا ہے۔
شام کے لئے خزاں ثابت ہو اور زندگی کی ساری بہاریں لٹ چکی ہیں، زرہ زرہ لہولہان ہے، ہرطرف خون کے دھبے ہی دیکھا ء پڑ تے ہیں، شام بدکردار ظالم وجابر درندہ بشار الاسد نے اپنے جنگی حلیفوں کے ساتھ ملک کر خود اپنے ہی شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے، حلب، موصل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، بشار الاسد کے ظالم نے موت کا وہ کھیل کھیلا کہ موت بھی شرمندہ ہے، جوان، بوڑھے، مرد عورت یہاں تک کہ معصوم بچوں کو بھی اس ظالم بشار بخشا، اسدی درندے جس سمت اور جس علاقے گزرے ،وہاں تباہی و بربادی اور بربریت کا داستان رقم کی ہے جس کے مقابلے میں فرعون وشداداورہٹلرکی داستان ظلم بھی معمولی دِکھتی ہے۔ ابھی حلب کا نوحہ بھی ختم نہیں ہو ا تھا کہ ادلب کے شیخون میں موت کی ننگا ناچ ہوا جس کے سامنے مسولینی کے مظالم بھی ہیچ پڑ گئے۔ اسد ی فوج اپنے حربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر زہریلی گیس بھی استعمال کر تا جارہاہے ، افسوس صد افسوس حقوق انسانی کے علمبرداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ان کی بات ہی ہم کیوں کریں جن کے دل میں ایمان نہیں اور جن کے دل اہل ایمان کی دشمنی سے اُبل رہے ہیں،اور جو کچھ ان کی زبان سے ظاہر ہورہا ہے وہ اس بغض و عداوت کہیں زیادہ ہے جو انہوں نے اپنے دل میں چھپا رکھا ہے، خود ہمارے عرب شاہوں کی طرف سے ایک حرفِ احتجاج بلند نہیں ہوا ، اُن سے امید بھی نہیں ہے، وہ اپنی عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، امارات حکومت اس مندر کی تعمیر سے اپنے آقاوں کو سیکولر ہونے کا پیغام دے رہی ہے، اس سے زیادہ بدترین بات کیا ہو سکتی ہے ہے کہ اسی جزیرہ العرب حکومت اپنی سر پرستی میں مندر بنوارہی ہے جسے اللہ کے رسول نے کفر وشرک کی آلودگی سے پاک کیا تھا، جب قوم بت شکنی چھوڑ کربت فروشی کو اپنا شیوہ بنالے تو اس کی ہلاکت یقینی ہے۔ شامی حکومت مشرق وسطیٰ میں رو س کی سب سے اہم اتحادی ہے ،اس کے انہدام سے نہ صرف شام پر اسدی مخالفین کا قبضہ ہو جانا طے تھابلکہ روس سمجھتاہے کہ یہ خطے میں نہ صرف روسی مفادات کے لیے نقصان دہ ہوگابلکہ اسے روس کے اندر بھی فوری اثرات مرتب ہوںگے کیونکہ روس میں قفقاز کے چار علاقوں داغستان ،چیچنیا ، انگشتیا اور کابردینو بلکاریا میں روسی جارحیت کے خلاف جاری مزاحمتی تحریکوں میں نئی جان آجاتی ۔پیوٹن ڈاکٹرائن کے تحت روس نے لہٰذایہ فیصلہ لیاکہ وہ خون تشنہ شامی آمریت کو تکنیکی، انٹیلی جنس اور فضائی مدد فراہم کر ے گا ۔ اس کے علاوہ روس نے بغداد میں عراق ، ایران اور شام کا مشترکہ آپریشن سنٹر بھی قائم کیا ہے۔اس ہلہ شیری سے پیوٹن کی شام میں مداخلت عالمی سیاست میں پھر سے کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کوآنکھیں دکھانے اور مغربی ممالک کی جانب ہاتھ بڑھانے کی کوشش ہے ۔پیوٹن اب اس پوزیشن میں آچکاہے کہ شام میں امریکہ کے پیدا کردہ مسائل سے نکلنے اور امن کی پیش کش کر رہا ہے لیکن اپنی شرائط پر۔ وہ چاہتا ہے کہ روس کو ایک برابر کی عالمی طاقت تسلیم کیا جائے۔بہرکیف واضح ہو کہ شام کی جنگ دراصل صلیبی جنگ کاباضا بطہ حصہ ہے ۔ اس کی مزید توضیح کے لئے اس امرکو سمجھنالازم ہوگاکہ مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں المیہ یہ ہے کہ ان میںپچاس لاکھ نصاریٰ رہتے بستے ہیں۔ ان کے دفاع میں مسیحی دنیا سرگرم عمل ہے مگر ہمیں اس کی بھی توفیق نہ ہوئی کہ ہم بھی شامی مسلمانوں کوبچانے میںیکسواور یکجاہوجائیں۔