ہمارے یہاںکوئی کشمیری شاعر اپنی حین ِ حیات میں ہی اتنی مقبولیت حاصل نہ کرسکا جتنی پیر زادہ غلام احمد مہجورؔ نے حاصل کی تھی۔مہجور کی شاعری اتنی زبان زد عام ہوگئی کہ وہ کشمیر کے عہد ساز شاعر مانے گئے۔مہجور ؔکی شاعری جہاں فطری رومانوی ماحول اور کشمیری رعنائیوں کی عکاسی کرتی ہے ، وہیںاس میں انقلابی گیت اور وطن کی محبت کے نغمے بھی گونج اٹھتے ہیں۔ان کی شاعری جاگیردارانہ نظام کے خلاف ایک موثرآواز ہے اور یہ آزادی و انسانیت کا پیغام دیتی ہے۔ان کے گیتوں میں جوش ،ولولہ،اضطراب ،جنون اور نشاط ہے۔مہجورؔ نے اپنی شاعری میں کشمیری احساسات وجذبات کی بھر پور ترجمانی کی ہے، اسی لئے وہ قومی شاعر کی حیثیت سے تسلیم کئے گئے اور انہیں ’’شاعر کشمیر‘‘ کا خطاب ملا۔کشمیری زبان شعر و ادب میں غلام احمد مہجورؔ کی انفرادیت اورعظمت کا ڈنکا بجتا رہے گا۔ان کے اشعار اآج بھی پریشانی اور مایوسی میں ڈوبے انسان کو حوصلہ اور ہمت بخش دیتے ہیں۔انہوں نے یگانگت اور رواداری پر مبنی گیتوں کے ذریعے آپسی محبت و اخوت کا درس دیا ۔
نیائے تراوِو مائے تھاوِو پانہ وانی
پوز محبت باگراوِو پانہ وانی
ترجمہ :آپس میں لڑناجھگڑناچھوڑ دو ، میل ملاپ و محبت قائم رکھو
سچی محبت آپس میں بانٹ دو
مہجورؔ نے شاعری میں مروجہ لب و لہجہ کو اختیارکیا۔انسانیت ،مردانگی ، لطافت ،نزاکت ،نیاز مندی اور انکساری کے ساتھ ساتھ ولولہ انگیزی ،خود داری اور جوشیلے پن کو اپنے گیتوں میں اس طرح سمو دیا کہ ہر طرف ان کے نغمے گونج اٹھے ؎
ولوہا باغوانو نو بہارک شان پیدا کر
پھولن گْل گتھ کَرن بْلبل تِتھی سامان پیدا کر
ترجمہ :آ اے باغبان !باغ میں نئی بہار کی شان پیدا کر
کھِل اْٹھیں پھول کہ رقص کریں بلبل ایسے ہی سامان پیدا کر
مہجورؔکی ایک مشہور پیاری نظم ’’گریس کور‘‘(کسان کی بیٹی) ہے۔کھیتوں میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنے والی سیدھی سادی محنت کش کرداری کی صورت میں لڑکی کو خوبصورت انداز میں پیش کرکے کشمیری نظم میں شاعری کو نئی وسعت بخش دی ہے۔کشمیر کے قدرتی نظاروں،کوہساروں ،برف پوش پہاڑوں ،باغوں ،مرغزاروں اور اچھلتی کودتی ندیوں ،آبشاروں و چشموں کو نغموں میں ڈھا ل کر مہجور نے وطن عزیز کی خوبصورت انداز میں منظر کشی کی ہے۔خوش گفتار ،خوش پوس ،خوش مزاج اور خوش نویس مہجورؔ کے شعراہ و فغان کے ساتھ کانوں میں راس گھولتے ہیں اور تراوت بخشتے ہیں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیری شاعری کا موجودہ دور جو بیسوی صدی سے شروع ہوتا ہے،مہجورؔ کی شاعری سے ہی شروع ہوا۔اس شاعر بے بدل نے کشمیر ی شاعری کوآسان کشمیری کا ہم نوا بنایا اور دیگر شعراء سے ہٹ کر شعر وسخن کو حقائقِ حیات اور زندگی کی اصل صورت میں پیش کیا۔اس نے نظموں میں نہ صرف ترقی پسند خیالات کو پیش کیا بلکہ فطرت کی رعنائیوں اور جلوہ گریوں کی خوشنما عکاسی کی۔
1947کو شخصی حکومت سے نجات کے بعد سے لوگوں کو یہ اُمیدیں تھیں کہ ان کو راحت اور سہولتیں میسر ہوں گی مگر جب کہیں ناانصافیاں انہیں دیکھنے کو ملیں تو مہجورؔ نے طنزیہ شاعری سے دل کی بھڑاس نکالی۔وہ پہلے شاعر تھے جن کے گیت عام لوگ گنگاتے ،کھیت کھلیانوں ،شادی بیاہ اور اہم تقاریب پر ٹولیوں کی صورت میں ساز اورآواز کے ساتھ ان کے نغمے گونج اٹھتے۔ان کا کلام 1930ء سے پہلے شائع ہوتا رہا،گرامو فون پر ریکارڈ ہوتا رہا ،سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں چھپ گئیں کہ دوسرے کشمیری شاعر کا کلام اتنی بار اور اتنے ایڈیشنوں میں نہیں چھپا۔ہونہار محقق اور انقلابی شاعر عبدالاحد آزاد نے 1948ء سے پہلے لکھی کتاب ’’کشمیری زبان اور شاعری ‘‘ میں غلام احمد مہجورؔکی زندگی اور شاعری پر سب سے پہلے تفصیل سے روشنی ڈالی جو 1961ء میں منظر عام پر آگئی۔جامع شخصیت کے مالک مہجورؔ نے نہ صرف حساس وسنجیدہ شاعر تھے ،بلکہ مورخ ،قلم کار،صحافی اور خوش نویس بھی تھے۔اپنے زمانے کی اہم شخصیات سے اس کا قریبی تعلق رہا۔ڈاکٹر سر محمد اقبال سے وہ تاریخ ادبیات کشمیر کے متعلق خط و کتابت کرتے رہے۔رابند ناتھ ٹیگور کی فرمایش پر حبہ خاتون کی زندگی کے حالات اور گیت انہیں بھیجتے رہے۔پروفیسر مجیب کو’’ حبہ خاتون‘‘ ڈرامہ کے لئے مسودہ فراہم کرتے رہے ،محمد دین فوقؔ کو تاریخ اقوام کشمیر کتاب کے سلسلے میں معلومات فراہم کر تے رہے۔کشمیر کے معروف عوامی رہنمائوں کے ساتھ بھی ان کی قربت رہی جو ان کے فن اور شاعری سے بے حد متاثر تھے۔ہمعصر شعراء و ادباء کے ساتھ گہرے تعلقات ومراسم تھے۔فلم ایکٹر بلراج ساہنی اور دیویندرتیارتھی ان کے گرویدہ تھے۔مہجور ؔصاحب کو کشمیری مرتب کرنے اور مخطوطات جمع کرنے کا بھی بڑا شوق تھا۔ان کے قلمی نسخوں میں تاریخ کشمیر کا اردو ترجمہ بھی شامل ہے جو تواریخ سے ان کی گہری دلچسپی پر دلالت کر تی ہے۔غلام احمد مہجورؔنے اپنے آبائی پیشہ کی بجائے سرکاری ملازمت کو اس لئے اختیار کیا تاکہ مشقت وخدمت سے اپنا روزگار کما سکے۔پٹواری کے طور ملازمت کے دوران انہیں کئی بار معطل بھی ہوناپڑا اور لداخ کے دشوار گزار دور افتادہ علاقہ میں دو سال تبدیل بھی ہونا پڑا۔انہیں اس لئے ترقی نہیں دی گئی کیونکہ شخصی براج میں انہوں نے حق گوئی کی راہ اختیار کی۔آپ نے اپنے قلم کو بے نواؤں ،مزدوروں ،غریب کسانوں کیلئے وقف رکھا تھا۔کشمیر کے پہلے شاعر مہجور ؔہی ہیں جن کے حق میں ریاستی حکومت نے حسن خدمت کا وظیفہ منظور کیا اور وفات سے ایک روز قبل انہوں نے اس کی پہلی قسط وصول کی۔9اپریل 1952ء کو متری گام پلوامہ میں رحلت کے بعد 11؍اپریل کو خانقاہ معلی سرینگر میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔پھر سرکاری اعزاز کے ساتھ اتھواجن پانپورہ برلب سرینگر جموں شاہراہ پر سپرد خاک کیا گیا۔شاعر کشمیر مہجورؔ نام کی کشمیری اور اردو فیچر فلمیں بھی بنیں جو اگست 1970ء میں پہلی بار سرینگر اور سوپور کے سینما ہالوں میں پیش کی گئیں۔کشمیر کے اس عظیم شاعرکی مختلف شعری تخلیقات کی اردو ،ہندی ،بنگالی ،پنجابی اور انگریزی میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ان کے گیت آج بھی مقبول عام ہیں۔مہجور ؔکشمیر کے پہلے وہ شاعر ہیں جن کی شعر و ادب پر زیادہ تعداد میں دانشوروں ،ادبا ء ،شعراء ، محققوں اور نقادوں نے مضامین اور مقالات لکھے۔کئی اخبارات اور رسائل نے ان کے یاد گاری نمبر بھی نکالے۔اس شاعر وطن کی یہ عوامی مقبولیت کی دلیل ہے کہ ان کے نام پر مہجور ؔپل‘،مہجور ؔنگر،مہجور ؔمیموریل ہائر سکنڈری سکول پلوامہ اورکئی نجی تجارتی ادارے اور میڈیکل انسٹی چیوٹ صورہ میں مہجورؔ وارڈ قائم ہیں۔ان کے نام پر بھارت نے 2013ء میں ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔بے باک ونڈر ہوکر شاعری کرنے والے مہجورؔکو شاعر کشمیر کا خطاب دیا گیا کیونکہ انہوں نے کشمیریوں کے جذبات ،قومی شناخت اور وطن کی خوبصورتی کو شاندار طریقے میںزبان ِ شعر میں پیش کیا۔انہوں نے کشمیر زبان ،ادب ، شاعری اور تاریخ کی بے لوث خدمت انجام دی جوبڑا قومی سرمایہ ہے۔اللہ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دے(آمین)
نوٹ : مضمون نگار محکمہ اطلاعات کے سابق آفیسر اور’’ محفل ِبہار ادب‘‘ شاہورہ پلوامہ کے صدر ہیں۔کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور حال ہی میں ان کی تحریر کردہ ’گلشن کشمیر‘ منظر عام پر آچکی ہیں
پتہ:بیت الظہور،تملہ ہال شاہورہ پلوامہ
موبائل نمبر:9419086920
ای میل:[email protected]