شاعر مشرق

 اقبال ؔؔ بنیادی طورپرایک نظریے کے شاعر ہیں۔وہ صرف اردو حلقہ کے شاعر نہیں بلکہ مشرق ومغرب کا علمی ورثہ ہیں۔اقبال کی شاعری علمی منظرنامے کا ضروری جز بن چکے ہیں۔اردو غزل گوئی میں سوداؔ کی جامد لفاظی،غالبؔ کی زندہ ومتحرک شاعری کے آگے دم توڈ رہی تھی۔حالیؔمقدمہ لکھ کر شعروشاعری کا نیا رجحان پیش کر رہے تھے۔اقبالؔاسی دور کی پیداوارہیں   ؎
موتی سمجھ کے چن لیے شانِ کریمی نے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
اقبال
اقبالؔ نے جس طرح زندگی اورکائنات کوسمجھااسی طرح نہایت ہی پر خلوص اندازمیںپیش کیاہے۔انہوںنے الفاظ کی مددسے اپنی حسّیات ، تخیلات، ولولوں، امنگوں اوراپنے تجربات سے زندگی کوتعمیری صورت میںپیش کیاہے۔اپنے فن کے ذریعے زندگی کوفراوانی اورفروغ بخشاہے۔ان کی شاعری ایک لطیف نغمہ ہے۔ان کی شاعری کے خدوخال طرزحیات پرمبنی ہے۔ان کی شاعری زندگی کے اعلی مقاصدکے حصول کابہترین ذریعہ ہے۔وہ عمل کی تلقین کرتاہے اورقوموںکوبیدارکرتاہے۔
رشید احمدصدیقی ؔاقبال کی غزل گوئی کے متعلق کہتے ہیں’’اقبال کی غزل گوئی میں وہ باتیں نہیں ملتیں جواردوغزل میں بہت مقبول تھیں مثلََا رشک ورقابت،فراق و وصال ، جسم وجمال کاذکر،صنائع وبدائع اورزبان وبیان کی نمائش ،جن کے بغیرغزل نہیں سمجھی جاتی تھی اور جن کو ہمارے بیش تر شعراء اپنااوراپنے کلام کا بڑاامتیاز سمجھتے تھے۔اقبال نے اپنی غزلوں میںعام غزل گوشعراء کی طرح نہ زبان رکھی،نہ موضوع،نہ لہجہ بلکہ ایسی زبان اورموضوع ولہجہ اختیار کیاجن کاغزل سے کوئی ایسارشتہ نہ تھا۔اس کے باوجود ان کی غزلوں میں تاثیر،شیرینی،شائستگی،نزاکت نغمگی کے علاوہ جو اچھی غزل کے لوازم ہے،سب موجودہیں۔اقبالؔ کے غزلوںکے سامنے ہم بے ادب یا بے تکلف ہونے کی جرت نہیں کرسکتے۔‘‘(نگار۔۔۔’جدیدشاعری نمبرـ‘)
اقبال ؔنے ہم سے محسوس کرایا کہ عشق ومحبت دل کا ہی ماجرہ نہیں بلکہ ذہن کا بھی ہے۔نئی غزل گوئی کا یہی سنگِ بنیاد ہے۔اُن کے پیشروغالبؔ کے ہاں بھی دل وذہن کا ماجرہ ملتا ہے لیکن غالبؔ کو یہ سہولت حاصل تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کوکسی مخصوص مقصد یا نقطئہ نظر کا پابند نہیں رکھا تھا۔اقبالؔ نے غزل کو مقصدیت وخارجیت سے ہمکنار کیا۔’’بالِ جبریل‘‘ان کے کلام کا دوسرا مجموعہ ہے،یہ مجموعہ تفسیر،تشریح،ترتیب وتنظیم کے اعتبار سے ان کے غزلوں کا اعلیٰ نمونہ ہے   ؎
حوروفرشتہ ہیں اسیر میرے تخیّلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
گاہ میری نگاہِ تیز چیر گئی دل وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کردیا
میں ہی توایک رازتھا سینئہ کائنات میں
اس مجموعے میںاقبالؔ کی نگاہ مجازسے حقیقت تک جاپہنچتی ہے   ؎
کبھی اے حقیقت ِمنتظر نظرآلباسِ مجاز میں
کہ ہزاروںسجدے تڑپ رہے ہیںمیری جبین نیاز میں
اقبالؔ کی غزلوںاورنظموں میں ایسے اشعارکی کمی نہیں جومناجات کی و جدآفریںلَے،خوشبواوررنگ لئے ہوئے ہیں۔اقبالؔ کو دعائوں کے اثرانگیزہونے کانہ صرف پختہ یقین تھا بلکہ یہ پاکیزہ اورلطیف جزبات کوپیش کرنے کاایک موثرپیرایہ اظہاربھی تھا۔دعابنیادی طورپرروح کی وہ پکارہے جوسرشاری وسرمستی کانتیجہ ہے۔اقبالؔجب اسے فکروخیال کے مضراب سے چھیڑتے ہیںتوایک نغمئہ سرمدی کی صورت سامنے آتی ہے۔اسی جزب وتاثیرکے تحت اقبالؔ نے اپنے بعض افکارِعالیہ کودعاومناجات کارنگ وآہنگ عطاکیاہے۔اقبالؔنہ صرف اپنی بلکہ پوری نوع انسان کی ذہنی پراگندگی،انتشار اوربیچارگی میں اللہ ہی سے مددطلب کرتے ہیں   ؎
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدارکر
ہوش وخر دشکا رکر،قلب  و نظر شکارکر
عشق بھی ہو حجاب میں،حسن بھی ہوحجاب میں
یاتو خود آشکار ہو، یا مجھے آشکارکر
توہے محیط ِبے کراں،میںہوںذراسی آبجو
یامجھے ہمکنارکر،یامجھے بے کنارکر
  میںہوںصدف توتیرے ہاتھ میرے گہرکی آبرو
میںہوںخزف تو،تومجھے گوہرشاہوارکر
بظاہراس غزل میںحسن وعشق کی نازک تھرتھراہٹوںکااظہارہے۔جذبہ واحساس میںایک تموج ہے،تلاطم ہے۔ڈاکٹرعبدالمغنی اس غزل کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’حسن وعشق کے عمیق ترین احساسات اوربلندترین تخیلات سے یہ پوری غزل لبریزہے۔ایک والہانہ جذبہ شروع سے آخرتک تمام اشعارپرطاری ہے۔یقینََا یہ عشق کی آفاقیت ہے،جوحسن کی آفاقیت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے مطلوب ہے۔اس عشق کیلئے شاعرکاخلوص اس آہنگ نغمہ کی روانی وفراوانی سے نمایاںہے جو ایک سرمستی کی طرح غزل کی فضا پرچھایا ہوا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ شاعرکے جذبے سے پگھل کرالفاظ وتراکیب بھی وجدمیںرقص کناںہیں۔‘‘(اقبال کانظام فن۔ص۳۶۔۱۳۵)
پروفیسرمنصوراحمدمنصورؔکے بقول اس غزل میں اقبالؔ کا مناجاتی رنگ زیریںلہرکی طرح موجودہے۔یہی مناجاتی رنگ غزل کی فضا پرایک سرمستی کی طرح چھا جاتاہے۔یہ وجدآفرین لَے مناجات کے بطن سے پھوٹتی ہے۔گیسوئے تابدارکواوربھی تابدارکرنے کی یہ والہانہ آرزواورالتجا شاعرکے اس دردمنددل کی پکارہے جونوع انسان اوربندگان خداکواس دورظلمت میںعشق کے نوراوراس سے پیداہونے والے یقین واعتمادکی دولت سے مالامال دیکھنا چاہتا ہے۔بالخصوص امت مسلمہ جوعشق کے ناپیدہونے سے راکھ کاڈھیربن چکی ہے۔ہوش وخرداورقلب ونظرکے شکار ہونے کی راہ میں جورکاوٹیںہیں،ان سے شدیدبے بسی اوردرماندگی کااحساس ہوتا ہے،اس لئے شاعرانتہائی خشوع وخضوع کے ساتھ حریمِ ذات کی دہلیزپربے چارگی کااظہارکرتے ہوئے اسی سے طالبِ امدادہوتاہے   ؎
عشق بھی ہوحجاب میںحسن بھی ہوحجاب میں
یاتو خود آشکار ہو یا مجھے آشکارکر
اقبالؔکی دعائیںاورمناجات اجتماعی نوعیت کی ہیں،تاہم کہیںکہیںیہ شخصی،ذاتی اورانفرادی رنگ و آہنگ بھی رکھتی ہیں   ؎
اے بادبیانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی ودلسوزی سرمستی و رعنائی
میںبلبل نالاںہوںاک اجڑے گلستاںکا
تاثیرکاسائل ہوںمحتاج کوداتا دے
یعنی اقبالؔنے تعمیرانسانیت اوراحترام آدمیت کے جوخواب دیکھ لئے ہیں،ان میںحقیقت کارنگ بھرنے کے لئے وہ ربِ جلیل سے تاثیرکاطالب ہے۔ان کے دل میںتصورات اورتفکرات کاایک محشربرپاتھاجسے انہوںنے مختلف پیرا ئیوںمیںکہیںحرفِ تمنااورکہیںحرفِ آرزوکانام دیاہے ۔کشمیرکی غلامی،افلاس اورادبارکواقبالؔ بڑی شدت کے ساتھ محسوس کرتے رہے اوریہ شدتِ احساس کبھی احتجاج کی صورت اختیارکرتا ہے اورکبھی دعائیہ انداز میں نجات کی خواہش۔اقبالؔ کواس بات کابے حدقلق رہاکہ کشمیرپرچھائی ہوئی بدترین غلامی اورظلم واستبدادکی سیاہ رات میںکوئی ایسی دینی وسیاسی قیادت موجودنہیںجوایمانی نوراورحرارت سے روشنی پھیلاسکے اوردلوںمیںاضطراب پیداکرسکے   ؎
بیدارہوںدل جس کی فغاںسحری سے
اس قوم میںمدت سے وہ درویش ہے نایاب
کشمیرمیں قبرستان جیساسکوت دیکھ کراقبالؔ بارگاہِ ایزدی میںدست بدعاہیں  ؎
ازاںمے فشاںقطرہ برکشیری
کہ خاکسترش آفریندشرارے
اقبال کی شاعری میںوہ زندگی ہے جس کیلئے ہماری نئی نسل،پرانے غزل گوشعراء کے دیوان کوبے سودسمجھتی ہے۔اقبال نے تخیّل کی جولانیوں کے لیے ایسے ایسے میدان کھول دئے ہیں،اس سے قبل اردوشاعروںکی توجہ کبھی منعطف ہی نہیںہوئی تھی۔انہوںنے خیالی اورمصنوعی شاعری کونظروںسے گرادیا۔اردوشاعری کافرضی معشوق اپنی کمرکی طرح اب خودبھی عنقاء ہوتاجارہاہے۔مصنوعی عشق بازی اورجھوٹی معاملہ بندی اب ہماری شاعری کی جان نہیں رہی۔قصیدوں کی مبالغہ آمیزیاںاورمثنویوں کے فوق الفطری قصے غائب ہوتے جارہے ہیں۔اقبالؔنے لفظی چٹکلوں اوردورازکارمحاورہ بندیوںکی جگہ حقائق کی تلخیوںاورسیاسیات حاضرہ کے ناگفتہ بہ مسائل کواس خوبی سے شاعری میںمیںداخل کردیا کہ اردوشاعری کے موضوع ہی بدل گئے۔
اقبالؔپرایک بڑااعتراض کیاجاتاہے کہ انہوںنے لوازم غزل کی پابندی نہیںکی اورایسے نامانوس اورخشک مضامین باندھے جن کی ہماری شاعری متحمل نہیںہوسکتی،اس کے علاوہ زبان ومحاورہ کابھی خیال نہیںرکھا۔اس کاجواب خوداقبالؔنے اپنی مختلف نظموںمیںدیاہے  ؎
نہ زباںکوئی غزل کی،نہ زباںسے باخبرمیں
کوئی دلکشاصداہو،عجمی ہویاکہ تازی
مری نوامیںنہیںہے ادائے محبوبی
کہ بانگِ صورِ اصرافیل دل نوازنہیں
مری نوائے پریشاں کوشاعری نہ سمجھ
کہ مین ہوں محرم راز درونِ مے خانہ
اقبالؔاسلوب سے زیادہ مطالب ومعانی کے قائل ہیں۔وہ اسی لیے یہ تبلیغ کرتے ہیں کہ اگر خیال اچھاہے تو اس کاپیرایہ بیاںبھی خودبہ خوداچھاہی مل جائے گااوربغیرمشاطگی کے اس کے سننے اورسمجھنے والے بھی پیداہوجائیں گے   ؎
مری مشاطگی کی کیاضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خودبہ خودکرتی ہے لالہ کی حنابندی
میںشاخ تاک ہوںمیری غزل ہے میراثمر
مرے ثمرسے مئے لالہ فام پیدا کر
دوسرے شعراء کی طرح اقبال اپنے کلام کواپنے کلام کوجامِ مے بناکر گردش میں لانا نہیںچاہتے بلکہ وہ اہل محفل کو دعوتِ عمل دیتے ہیںکہ اس ثمرسے وہ خودمئے لالہ فام نکالیںاورجواس دعوت پرلبیک نہیں کہناچاہتے اورذوق خودی نہیںرکھتے ان سے تووہ مخاطب بھی نہیں ہیں   ؎
نظرنہیں،تومرے حلقئہ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیںمثالِ تیغِ اصیل
سیدمحی الدین قادری زورؔ کے بقول ابھی تک ہندوستان کی محفل ان کے کلام کوسمجھنے اوراس سے کماحقہُ محظوظ ہونے کے قابل نہیںہوئی۔ان کاتخیل دورنکل گیاہے اوران کے ساتھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں،اس کا خودان کوبھی احساس ہے    ؎
کارواںتھک کرفضاکے پیچ وخم میںرہ گیا
مہروماہ مشتری کوہم عناںسمجھاتھامیں 
شعراء توکیا اہلِ مدرسہ وخانقاہ بھی اس ذوق سے بے بہرہ نظر آتے ہیں اوراسی محرومی کی وجہ سے اب تک قوم کونقصان پہنچ رہاہے    ؎
کسے خبرکہ سفینے ڈبوچکی کتنے
فقیہ وصوفی وشاعرکی ناخوش اندیشی
ایک اورجگہ فرماتے ہیں   ؎
جلوتیانِ مدرسہ کُورنگاہ ومردہ ذوق
خلوتیانِ مے کدہ کم طلب وتہی کدو
میںکہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کاسراغ
میری تمام جستجوکھوئے ہوئوںکی آرزو
سینہ روشن ہو توہے سوزِسخن عین حیات
ہونہ روشن توسخن مرگ دوام اے ساقی
اقبالؔ کی تلخ نوائیوںنے نہ صرف نوجوانوںبلکہ سلیمؔ وسیمابؔ اورجوشؔ و ساغرؔجیسے پختہ مشق شاعروںکوبھی متاثرکردیا۔اقبالؔ کے اثرسے رفتہ رفتہ قدیم طرزکی شاعری متروک ہوتی گئی۔ایک زمانہ میںناسخؔ وآتشؔ کے اثرسے الفاظ ومحاورات اوراسالیب بیان متروک ہوگئے تھے اورآج اقبال کے اثرسے بہت سے فرسودہ خیالات لایعنی تکلفات اورغیرضروری لوازم شعر متروک ہوتے جارہےہیں اورجہاں تک مطالب ومعانی کاتعلق ہے ،اردوشاعری اقبالؔ کے کلام سے متاثررہے گی اوراردوداںطبقہ میںزندگی اورزندہ دلی قائم رکھنے کاباعث ہوگی۔
……………………………………..
رابطہ :ریسرچ اسکالرکشمیریونیورسٹی،سرینگر 
