تاریخی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ صدیوں کے بعد ہی کسی مظلوم و مقہور اور بے جہت قوم میں کوئی ایسا شخص ضرور جنم لیتا ہے جو اپنی قوم کے درد و کرب کو محسوس کرکے اس کے زخموں پرمرہم لگانے اور ظلمت کدہ سے نکالنے کی تدبیریںنکال کر اسے روشنی کی طرف لے آتا ہے تاکہ اُن کی بقاء ممکن ہو سکے ۔انہی قدآور شخصیا ت میں شاعر مشرق سر محمد اقبال ؒ کا نام بھی سنہر ی حروف میں درج ہے۔ کہتے ہیں کہ ملک کشمیر میں اسلام کا نور پھیلنے کے بعد علامہ اقبال کے جدامجد شیخ العالم نور الدینؒ کے ایک خلیفہ بابا نصیر الدینؒ کے حلقۂ احباب میں شامل ہوئے اور وہ اپنے زہد و تقویٰ میں لولی حاؔجی کے نام سے مشہور ہوئے۔اُنہی کی اخلاف میں سے شیخ جمال نامی شخصیت پیدا ہوئے جسے علامہ اقبال کا دادا مانا جاتا ہے۔شیخ جمال کی پُشت سے شیخ نور محمد کا جنم ہوا جن کا خانوادہ گردش ِزمانہ سے کشمیر سے ہجرت کر کے سیا لکوٹ میں آباد ہو ا۔انہی کے یہاں۱۸۵۷ء میں وقوع پذیر غدر کے سولہ سال بعدشیخ و برہمن کی رمز آشنائیوں سے بہر ور بر صغیرکی مایہ ناز شخصیت شاعر،اسکالر اور مفکرعلامہ اقبال ؒ کا جنم۹؍ نومبر ۱۸۷۳ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔ علامہ اقبال ؒکو اس بات پر فخر تھا کہ اُن کے جدو اَجدادکشمیر کی مایہ نازسر زمین سے تعلق رکھتے تھے ،وہ ہمیشہ اس بات پر بھی ناز کرتے تھے کہ وہ برہمن قبیلہ کے ’’سپرو‘‘خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور یہ گھرانہ پڑھا لکھا ،ذہین اور علم و ادب کا دلدادہ ماناجاتا تھا۔علامہ نے اپنے آبائی وطن یعنی سر زمین کشمیر کی دل پذیری اور دلکشی کی تصویر انتہائی سوز و گداز کے ساتھ ان اشعار میں پیش کی ہے ؎
کشمیر کا چمن جو مجھے دلپذیر ہے
اسی باغ جانفزاء کا یہ بلبل اسیر ہے
ورثے میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائیداد
جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے
کشمیر کی تاریخ کے مختلف ادوار میں ایسے کئی نام نظروں کے سامنے آتے ہیں جنہوں نے کشمیری قوم و ملت کی فلاح و بھلا ئی،عزت و وقار اور آزادی و ترقی کے لئے ایک بڑا حصہ ادا کیاہے ۔ ان تاریخ ساز شخصیات میں دنیائے شعر و ادب اور فکرو فلسفہ کے امام اورمعروف شاعر ومفکر مشرق علامہ اقبال ؒ ہیںجنہوں نے اپنے وجود کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک خوبصورت تکون ترتیب دیا ہے ۔فرماتے ہیں کہ میرا جسم خیابانِ کشمیر کا ایک پھول ہے ،اس جسم میں اہم ترین عضو’ دِل ‘ کا تعلق حجاز یعنی رسولِ مقبول ؐ کی سرزمین کے ساتھ وابستہ ہے اور جہاں تک زبان کا سوال ہے وہ ایران کے اہم علمی شیرازے کے ساتھ پیوستہ ہے ۔
تنم گلے ز خیابان جنت ِ کشمیر
دل از حریم حجاز و نواز شیراز ست
علامہ اقبالؒ۱۹۳۷ء کے آس پاس کشمیر تشریف لائے ، یہ وہ دور تھا جب یہاں مسلم کانفرنس کی قیادت میں شخصی راج کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوچکی تھی ۔اس دوران علامہ اقبال ؒ وادیٔ لولاب میں بھی قایم پذیررہے۔’’پیام مشرق‘‘ کی نظم ’’ساقی نامہ‘ ‘اقبال ؒ نے نشاط باغ میں لکھی ہے ۔فنی محاسن کے اعتبار سے اس شاہکار نظم میں شہرہ آفاق باغات شالیمار و نشاط کے گردو پیش کی نہایت ہی کامیاب عکاسی کی گئی ہے۔ نظم جون۱۹۲۱ء میں لکھی جاچکی ہے اور اس کے آخری پانچ اشعار میں اقبال ؒ نے کشمیریوں کی زبوں حالی ،امراء کے ہاتھوں ان کا استحصال اور پھر ان میں تغیر و انقلاب ،آرزو کا اظہار ملتا ہے ۔اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ کشمیری خود تو کٹے پھٹے کپڑوں کو زیب تن کئے ہوئے ہیں اور ان کا مالک وآقا ریشم کی قبا پہنے ہوئے ہے ؎
بریشم قبا خواجہ از محنت ِاو
نصیبش جامہ تار تارے
چنانچہ اقبال ؒ ایک قلندر خدامست سے کم ثابت نہ ہوئے۔۱۹۲۴ء میں ریشم کے ایک کارخانے سے ہی ڈوگرہ راج کے خلاف بغاوت کی تحریک شروع ہوئی اور بالآخر کافی ظلم و بربریت اور تشدد ومار ھاڑکے بعد ڈوگرہ حکمرانوں کو ۴۷ء میں ریاست کے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا کیونکہ بقول علامہ ؎
ازان سے گشان قطرہ بر کشمیری
کہ خاکسترش آفرییندہ شرارے
کشمیریوں کی زبوں حالی، پریشانی، غلامی اور اس قوم کو پچھتر لاکھ نانک شاہی روپے میں فروخت کرنے پر اظہار رنج و غم کرتے ہوئے اقبالؒ بادصبا سے کہتے ہیں کہ اگر تیرا گزر مجلس اقوام جنیوا (لیگ آف نیشنز ) سے ہوجائے تو ہم کشمیریوں کی طرف سے وہاں ایک درخواست پہنچا ناکہ یہاں کے دیہاتی اس کے کھیت کھلیان زرعی خیابان بیچ ڈالے گئے، ایک قوم بہت ہی سستے داموں فروخت کردی گئی ؎
بادِصبا اگر جنیوا گزر کنی
حرفے زمانہ مجلس اقوام بارگرے
دہقان و کشت وجوئے و خیابان فروختند
قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند
بادصبا سے کشمیریوں کا مسئلہ لیگ آف نیشنز میں پہنچانے کی بات اٹھارہ سال بعد صحیح ثابت ہوگئی ،جب مسئلہ کشمیر کو یونائٹیڈ نیشنز میں اٹھایا گیا اور آج بھی وہ کشمیر قرار دادیں وہاں پر محفوظ ہیں جن پر ابھی تک عمل درآمد ہونا باقی ہے۔ڈاکٹر اقبالؒ عقابی نظر رکھتے تھے، انہوں نے کشمیر کے سیاسی حالات اور مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی شاعرانہ زبا ن اشارہ و کنایہ میں ایک بشارت دی ہے اور پیش گوئی بھی کی ہے مستقبل میںحالات کا نقشہ ان کے مادر ِ وطن میں کیا ہوگا ، کیونکہ حقیقی شاعر کا وجدان مستقبل کے حالات سے باذن اللہ کچھ کچھ بصیرت کی وجہ سے پیش بینی کرتا ہے ۔اقبال کے عظیم آفاقی کلام میں درجنوں ایسے اشارے ملتے ہیں جو ان کی مومنانہ فراست کی عکاسی کرتے ہیں ۔اقبالؒ کے عہد میں کشمیر کی جو سیاسی ،معاشی اور سماجی صورت حال تھی، اس پر حکیم الامت ؒ جلوت و خلوت میں فکر مند اور مضطرب رہتے تھے ،ان کے نزدیک ترین دوستوں کے بیانات اور تحر یرات وروایات پڑھ کر اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ علامہ اقبالؒ کے رگ و ریشے میں کشمیریوں کی محبتموجزن تھی، وہ اس خطہ کی جہالت و افلاس اور اس وقت کے شخصی راج کے مظالم کا خاتمہ چاہتے تھے ۔ایک موقع پر ان کے احباب کی محفل میں کسی نے کشمیریوں کی افلاس کا ذکر کیا تو اقبال ؒ بولے:غریبی اور جہالت ،قوت ِایمان و حریت کی راہ میں نہ کبھی سدراہ ہوسکے ہیں اور نہ ہوں گے، ہم تو اُمی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہیں، مسلمانوں کے لئے غریبی اور جہالت کی آڑ لینااس کی روحانی کمزوری کی پکی دلیل ہے۔ کشمیریوں کے مفادات کے تحفظ اور یہاں ڈوگرہ مہاراجی نظام کے ظلم و تشدد سے عام لوگوں کو نجات دلانے کی خاطر لاہور میں ’’کشمیر کمیٹی‘‘ کا قیام اسی بات کا غماز ہے جس کے آپ روح رواں تھے۔ اس زمانے میں کشمیر سے دور مختلف علاقوں میں کشمیر کے مسائل و مصائب کے بارے میں اقبالؒ نے اکابرین کے نام جو فکر انگیز خطوط تحریر کئے ہیں، اُن سے بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر کشمیر کے معاملات سے جذباتی ا ور فکری طور جڑے ہوئے تھے ۔اقبال ؒ نے شہرہ آفاق ارض کشمیر مینو نظر کو اپنے لافانی اور روحانی کیفیتوں سے آراستہ کلام میں جو مقام دیا ہے، اس سے خطے کی خوبصورتی ،تر دماغی ،فن کاری اور یہاں کے لوگوں کی جرأت و ہمت کو داد تحسین ملا ہے۔ اس مضمون کو اقبالؒ کے ان اشعار سے اختتام پذیر کرتا ہوں جو کشمیر کے اس عظیم محسن نے فارسی میں کشمیریوں کی حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے موزوں کئے ہیں۔ان فارسی اشعار کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے :
کشمیری ایک ذہین ،ہوش منداور حسین قوم ہے ، دنیا میں اس کا ہنر معجزہ سے کم نہیں ہے ،اس کا پیالہ اس کے اپنے لہو سے بھرا ہوا ہے ،میری بانسری کی کریہ و زاری کا موضوع یہی قوم ہے ۔کشمیری جب اپنی خودی سے محروم ہوا تب سے وہ اپنے ہی وطن میں اجنبی بن کے رہ گیا ہے ۔پھر یہ نہ سمجھنا کہ یہ قوم ہمیشہ ایسی ہی تھی، غلام بن کر اغیار کے آگے ماتھا رگڑتی تھی ،کسی زمانے میں یہ قوم صف شکن اور فاتح ، غالب، جانباز اور بڑی دلیر تھی۔شاعر مشرق نے قلبی جذبات ترانہ ٔ ملی میں اپنے اشعار میں اظہار کرتے ہوئے کہا :
چین و عرب ہمارا برصغیر ہمار ا
مسلم ہیں ہم وطن سے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آسان نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباںہیں وہ پاسباںہمارا
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلا ل کا ہے قومی نشاں ہمارا
مغرب کی وادیوں میںگونجی اذاں ہماری
تھمنا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحان ہمارا
اے گلستان ِاُندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا
اے موج دجلہ تو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا
اے ارض پاک تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوب تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
سالار کارواں ہے میر حجاز ؐ اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا
اقبالؔ کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جاوہ پیما پھر کارواں ہمارا