ہر معاشرے کی تشکیل مردو وزن کے درمیان شادی کے ذریعے ہوتی ہےاوریقیناً مرد و زن کے ازدواجی رشتے میں بندھنے سے ہی نسل ِانسانی کی افزائش ہوتی ہےجو معاشرے کی شکل اختیار کرتی ہےاور جب معاشرہ وجود میں آتا ہے تو اس میں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں اوربُرائیاں بھی۔لیکن اگر دور ِحاضر میں ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیںتو ہر معاملے میں ہمیں اچھائیوں کی بہ نسبت بُرائیوں کا ہی مرکز بنا ہوا نظر آتا ہے۔خصوصاً موجودہ دور کی اس ہوش رُبا مہنگائی میں ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے معاملات میں جو طرزِ عمل اختیار کیا گیا ہے ،وہ ہمارے ہی معاشرےکی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ظاہر ہے نسل ِ انسانی کی افزائش معاشرے کی بالغ لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان نکاح اور شادی کے ذریعے ہی ہوتی ہے، جسے ایک مقدس رشتہ بھی کہا جاتا ہے،لیکن اس مقدس رشتےکو نبھانے اورآگے بڑھانےکے لئے ہم نے اپنے غلط طریقۂ کار،منفی سوچ ،لالچ ،اَنّاپرستی،دِکھاوے ،اسراف اور کئی دیگر بے جا رسومات ِ بد سے اتنا مشکل اور پیچیدہ بناڈالا ہے کہ آج ہمارےمعاشرے کے ہزاروں بالغ لڑکے اور لڑکیاںبغیر شادی کے زندگی گزاررہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ بات عام تھی کہ لڑکے والوں کی طرف سے جتنے باراتی لڑکی والوں کے یہاں پہنچتے ہیں تو ان کے کھانے پینے کا انتظام لڑکی والےہی کرتے تھے،جبکہ دیگر معاملات میں باہمی اخوت،رواداری ، ہمدردی اور دینداری کے جذبے کے تحت انجام دیئے جاتےتھے،جس کے نتیجے میں شادی بیاہ کی تقریبات کاسلسلہ آسانی کے ساتھ جاری رہتا تھا اوران رشتوں کا تقدس خوش اسلوبی کے ساتھ اختتام تک برقرار رہتا تھا ۔ لیکن آج اگرچہ بیشتر شادی بیاہ کی تقریبات میں باراتیوں کی تعداد محدود رہتی ہے ،تاہم دوسرے تمام معاملات،جس میں جہیز کا لین دین سر فہرست ہوتا ہے،آسمان کی اونچائی تک پہنچائے گئے ہیں۔گویا بُرائیوں اور خرابیوں کو اتنا فروغ دیا گیا ہے کہ عام اور متوسط طبقوں سے وابستہ لوگ اپنے بالغ بچوں کی شادیوں کے لئے ان تمام معاملات کو پورا نہیں کرپاتے ہیںاور نتیجتاً بہت سارے لڑکے اور لڑکیاں ازدواجی رشتے میں بندھ ہی نہیں پاتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی اور جدت سے ہم نے مادیت کی دنیا میں بہت کچھ تو پا لیا ہے لیکن بدقسمتی سے پُرخلوص رشتے،محبتیں،ہمدردی ،اخوت ، رواداری،یہاں تک کہ دینداری کے جذبے کو بڑی حد تک کھو دیا ہے۔اب معاشرے میں یہی ہورہا ہے کہ جو جتنا مالدار ہے ،و ہ اُتناہی زیادہ جہیز کا مطالبہ کررہا ہے ۔ جس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ہمارے معاشرہ میں گھٹن، تنگ نظری اور دین سے دوری کا اثر بہت حد تک گھر کرچکا ہےاورمعاشرتی بگاڑ کا اثر ہمارے رویوں پر بڑے پیمانے پر پڑ چکا ہے،جبکہ معاشی اونچ نیچ، معاشرتی تفاوت، جھنجلاہٹ، حسد، بغض، کینہ اور غصہ ہمہ وقت فروغ پذیر ہیں۔ انہی معاشرتی بیماریوں نے ہمارے رہن سہن، ہماری روز مرہ زندگی اور ہمارے رویوں کو اس قدر متاثر کردیا ہے کہ ہم نے شاید مثبت سوچنا ہی چھوڑ دیا ہےاور ہماری منفی سوچ سے ہمارا معاشرہ روز افزوں پست اور خست ہوتا چلا جارہا ہے۔ اگرچہ ہر طرف سے یہ آواز ضرور سُنائی دیتی ہے کہ آخر لڑکوں اور لڑکیوںکے والدین ان کی شادی میں تاخیر کیوں کرتے ہیں؟تو ظاہر ہے یا تو وہ معاشرے میں رائج ہوچکی غیر ضروری رسموں کو ادا نہ کرنے وجہ ہوتی ہےیاپھر ابھی ان کے پاس ان غیر ضروری رسموں کو ادا کرنے کی قوت نہیں ہوتی ہے یا یہ کہ ابھی کسی کا بیٹا اور کسی کی بیٹی کہیںسیٹل نہیں ہوئی ہوتی ہے۔ جب اتنی وجوہات سامنے ہوں تو ظاہر سی بات ہے، لڑکے اور لڑکیوں کی عمر یںبڑھتی ہی جائے گی اور شادیوں کی عمریں پار کرتی جائیں گی۔ حالانکہ جوانی کی عمر میں نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوتا ہےاور اتنے سارے تجربات، جانکاری اور معلومات ہونے کے باوجود بھی اپنے بچوں کی شادی میں تاخیر کرنا بہر صورت نقصان دہ ہے ۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں مفاسد اور فتنوں کے دروازے کھل جانے کا احتمال رہتاہے بلکہ افزائش ِنسل انسانی کا سلسلہ بھی رُک جاتا ہے ۔اس صورت حال میں کیسے قابو پایا جاسکے،اس پر ہم سب کو سنجیدگی کے ساتھ غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔