سی ڈی ہسپتال کو ڈلگیٹ سے جی بی پنتھ ہسپتال عمارت سونہ وار میں منتقل کرنے میں کچھ چیلنجز کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں امراض اطفال ہسپتال کو جی بی پنتھ ہسپتال سے بمنہ منتقل کرنے کے بعد حکام نے سی ڈی ہسپتال کو مکمل طور پر جی بی پنتھ ہسپتال میں منتقل کرنے کا حکم دیا تھا تاہم ابھی تک جی بی پنتھ ہسپتال عمارت میں سی ڈی ہسپتال کے ذریعہ او پی ڈی، ایکسرے یونٹ، سی ٹی سکین اور ہنگامی خدمات کا صرف ایک حصہ شروع کیا گیا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ہسپتال کی مکمل منتقلی میں کئی چیلنجز سامنے آ رہے ہیں۔ متعلقہ حکام کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان چیلنجوں کو پورا کیا جائے اور مسائل کو حل کیا جائے تاکہ ہسپتال کی مکمل طور پر جی بی پنتھ عمارت میں منتقلی کے بعد مریضوں کی دیکھ بھال متاثر نہ ہو۔ ہسپتال کی منتقلی کا عمل جلد بازی میں مکمل نہیں ہونا چاہئے۔حکومت کو اس منتقلی سے قبل وہ تمام اقدامات کرنا ہونگے جو ضروری ہیںتاکہ جی بی پنتھ ہسپتال میں مریضوں کو وہی سہولیات ملیں جو ڈلگیٹ ہسپتال میں فراہم کی جارہی ہیں۔ لوگوں کی صحت سے متعلق ایسے عمل کیلئے مزید وقت کیلئے انتظار کرنے میںکوئی حرج نہیں۔ سی ڈی ہسپتال کو مکمل طور پر وہاں منتقل کرنے سے پہلے سونہ وارہسپتال میں تمام ضروری انفراسٹرکچر تیار کرنا ہوگا۔ امراض چھاتی میں مبتلا مریضوں کے علاج کیلئے سی ڈی ہسپتال بہت اہم ہے۔ اس سلسلے میں یہ طویل عرصے سے اہم کردار ادا کر رہا ہے اور ایسے مریضوں کیلئے معقول و مناسب علاج کا واحد بڑامرکز ہے۔
کورونا وباء کے دوران مریضوں کی جانچ، تنہائی اور علاج میں ہسپتال سب سے آگے تھا۔ یہ وبائی امراض کے بعد بھی سانس کی دیگر بیماریوں کی جانچ اور علاج کیلئے نوڈل پوائنٹ تھا۔ہسپتال کو جدید لیبارٹریوں اور آئسولیشن سہولیات پر فخر ہے۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ جی بی پنتھ ہسپتال کی عمارت میں سب سے بڑی خامی آکسیجن کی محدود صلاحیت ہے۔ سی ڈی ہسپتال ڈلگیٹ میں ہر بیڈ ہائی فلو آکسیجن سے لیس ہے کیونکہ وہاں 3500 لیٹر آکسیجن پیدا ہوتی ہے جبکہ آمدہ اطلاعات کے مطابق جی بی پنتھ ہسپتال میں صرف 500 لیٹر آکسیجن پیدا کر نے والا یونٹ نصب ہے اور جی بی پنتھ ہسپتال میں آکسیجن کی محدود گنجائش امراض تنفس سے دوچار مریضوں کے علاج و معالجہ میں بنیادی تشویش ہے کیونکہ ایسے مریضوں کو سب سے زیادہ آکسیجن کی ہی ضرورت پڑتی ہے۔جی بی پنتھ ہسپتال میں ایئر ہینڈلنگ یونٹ کئی دہائیوں سے ناکارہ ہے۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ امراض تنفس کے مریضوں کو ایسے وارڈ میں داخل کرنا محفوظ نہیں ہوگا جہاں وینٹی لیشن کا اچھا نظام نہیں ہے۔ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ جی بی پنتھ ہسپتال میں کوئی نیا ہسپتال منتقل کرنے سے قبل اس عمارت میںیک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور جی بی پنتھ ہسپتال میں آکسیجن کی گنجائش کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہسپتال کی مکمل منتقلی سے پہلے مریضوں کی ہموار دیکھ بھال اور علاج کو یقینی بنایا جاسکے۔ متعلقہ حکام کو طبی پیشہ ور افراد کے خدشات پر توجہ دینی چاہئے اور جہاں بھی ضرورت ہو، ان کی تجاویز کے مطابق عمل کرنا چاہئے تاکہ کل کو یہ فیصلہ الٹا نہ پڑے۔صحت عامہ سب سے مقدم ہے اور لوگوں کی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوناچاہئے۔اگر جی بی پنتھ ہسپتال میں واقعی مسائل ہیں تو اُن کو ایڈرس کئے بغیر وہاں سی ڈی ہسپتال کی منتقلی دانشمندی نہیں ہے بلکہ بہتر رہے گا کہ سی ڈی ہسپتال کو صرف مختصر مدت کے لئے وہاں عارضی طور مرحلہ وار بنیادوںپر منتقل کیاجائے جب تک نہ ورلڈ بنک کی مالی معائونت سے سی ڈی ہسپتال کی نئی عمارات درگجن ڈلگیٹ میں اپنے ہی مقام پر تعمیر نہ ہوں۔درگجن ڈلگیٹ کا علاقہ ایسے ہسپتال کیلئے انتہائی موزون ہے کیونکہ وہاں تازہ ہوا میسر ہے اور امراض تنفس کے مریضوں کیلئے تازہ ہوا کا ہونا ضروری ہے۔اسلئے امید کی جاسکتی ہے کہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ لینے کی بجائے تمام پہلوئوںکو دھیان میں رکھ کر فیصلہ لیاجائے تاکہ طبی نگہداشت متاثر نہ ہو۔