کسی سرکاری خود مختار ادارے کی ساکھ کو کیسے سبوتاژ کیا جاسکتا ہے،یہ کوئی وزیراعظم نریندر مودی سے سیکھے۔اگر اسی کو سیاست اور دیش بھگتی کہتے ہیں تو یہ انہی کو مبارک۔مرکزی تفتیشی ایجنسی جسے عرف عام میں سی بی آئی کہتے ہیں،میں ایسا کبھی نہیں ہوا جو اَب دیکھنے کو مل رہا ہے۔یہ بھی حُسن اتفاق ہے کہ مودی حکومت میں ایسی کئی چیزیں وقوع پذیر ہوئی ہیں جو پہلی بار دیکھنے کو ملی ہیں اور ان میںزیادہ تر منفی واقعات شامل ہیں۔ اس سے قبل سی بی آئی میں بھلے ہی ڈائریکٹروں اور آفیسروںپر انگلی اُٹھی ہو لیکن سی بی آئی کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ نمبر ۱؍ اور نمبر۲؍میں ٹھن گئی اور ایسا بھی ہوا کہ نمبر۱؍ کی ایما ء پر سی بی آئی کے دفتر ہی میں سی بی آئی کے ذریعے ’ریڈ‘ raidڈالی گئی اور نمبر۲؍کے ما تحت کام کرنے والے آفیسردیوندر کمار کی گرفتار کر کے اس آفیسر کو ہفتہ بھر کیلئے حراست میں رکھاگیا۔سی بی آئی کے اِس نمبر ۲؍کودہلی ہائی کورٹ سے قبل از گرفتاری ضمانت تک لینی پڑی ورنہ ممکن تھا کہ دیوندر کمار کی طرح وہ بھی حراستی تحویل میں ہوتا۔اِس سے بھی بڑھ کر ایک اور ڈرامہ رچا گیا اور وہ بھی رات کے ۲؍ بجے ۔ وزیر اعظم مودی نے سی وی سی(سینٹرل وِ جیلنس کمیشن) کے ان دونوں ڈائیریکٹروں یعنی نمبر ۱؍ اور نمبر۲؍ کو جبراًچھٹی پر بھیج دیا اور ایک نئے ڈائر یکٹر ناگیشور راؤ کو راتوں رات نامزد کر دیا۔اس نئے ڈائریکٹر نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر ُاسی لمحے(رات ہی کو) ۱۳؍آفیسروں کا ملک کے مختلف حصے میں ٹرانسفر کر دیا جن میں ایک آفیسرڈی ایس پی بَسّسی ہیں،انہیں پورٹ بلیئر تک بھیج دیا گیاجسے کالا پانی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ان میں سے بیشتر نمبر۱؍کے ساتھ کام کرنے والے آفیسرز ہیں۔اس کے علاوہ اِس نئے ڈائریکٹر نے سی بی آئی ہیڈ کوارٹرزکے دو منزلوں کو سِیل بھی کر دیاجو نمبر۱؍کے پاس تھے حالانکہ اِس نئے ڈائریکٹر کو کارگزار ڈائریکٹر ہی بنایا گیا ہے۔
سی بی آئی کے اندر اصولاًنمبر ۱؍ اور نمبر۲؍کی بات ہونی ہی نہیں چاہئے۔یہ ہمارے وزیراعظم کی وجہ سے ہوا ۔آلوک ورماجنوری ۲۰۱۷ء میں باضابطہ ڈائریکٹر بنائے گئے لیکن اپنا آدمی داخل کرنے کی خاطرمودی نے راکیش استھانہ کواکتوبر ۲۰۱۷ء ہی میں اسپیشل ڈائریکٹرکے طور پر بحال کر دیا۔ میڈیا نے استھانہ کو نمبر۲؍ کہنا شروع کر دیا۔اس رو سے سی بی آئی کے اندر دو مرکز ہو گئے اورتبھی سے یہ ٹکراؤ جاری ہے۔یہ استھانہ وہی ہیں جنہوں نے ’گودھرا ‘والے مقدمے میں مودی کو کلین چِٹ دی تھی جب وہ گجرات ایس آئی ٹی کی سربراہی کر رہے تھے۔انہیں انعام تو ملنا تھا سو ملا اور یہاں بھی انہوں نے اپنے آقا کی خاطر وہ سب کئے جن کا الزام اپوزیشن لگا رہا ہے۔حالانکہ ان کی بحالی کو پرشانت بھوشن نے اپنے این جی او کے ذریعے عدالت میں چیلنج بھی کیا تھا کہ ’اسٹرلنگ بائیو ٹیک‘ سے استھانہ نے رشوت لی تھی اور انہی کے روپوں سے اپنی بیٹی کی عالیشان شادی رچائی تھی۔ سرِ دست جو معاملہ سامنے آیا ہے وہ آلوک ورما(نمبر۱؍) نے یہ الزام لگایا ہے کہ گوشت کے ایک تاجر معین قریشی سے استھانہ نے۲؍کروڑ روپے رشوت لئے ہیں اور اس میں مذکورہ آفیسر دیوندر کمار نے معاون کا رول ادا کیا ہے ۔اسی کو بنیاد بنا کر ایف آئی آر درج ہوئی ہے لیکن پلٹ کر استھانہ نے بھی یہی الزام ورما پر عائد کیا ہے کہ دراصل رشوت کے یہ روپے ورما ہی نے لئے ہیں۔اس کے علاوہ بھی ’سی وی سی‘ سے ورما کے خلاف استھانہ نے چند دنوں پہلے شکایت درج کی ہے کہ کس طرح ورماخاص اشخاص کے مقدموں کو متاثر کرتے تھے۔ایک دوسرے پر الزام در الزام کا یہ سلسلہ دراز ہے۔اگر غور کیا جائے تو استھانہ کی بحالی کی وجہ ہی سے یہ سب دیکھنے کو مل رہا ہے لیکن ملک کے ایک خود مختار ادارے کی نوعیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ مودی اور شاہ ہر طرح کے حالات کو اپنے حق میں کر لینے کا ہنر جانتے ہیں۔واضح رہے کہ راکیش استھانہ ،امیت شاہ کے بھی نورِ نظر ہیں۔اس تثلیث نے گجرات میں بہت سارے انہونی انجام دئیے ہیں اور ملکی سطح پر بھی انجام دینا چاہتے تھے لیکن بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ سی بی آئی کو جو اَکھاڑہ استھانہ نے بنایا تھا وہ اب کھل کر سامنے آگیا ہے۔ممکن ہے کہ ورما بحال بھی ہو جائیں لیکن استھانہ اب مستقل چھٹی پر ہی رہیں گے کیونکہ ورما نے اپنی اِس بے بنیاد برخواستگی کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا جسے عدالت نے قبول بھی کر لیا اور فیصلہ بھی سنا دیا جس کی رو سے حکومتِ وقت کو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے،وہیں استھانہ کی عرضی کو یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ آپ ابھی تک کہاں تھے؟خیر ورما کے خلاف استھانہ کے ذریعے لگائے گئے الزامات کی تفتیش کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کیلئے صرف ۱۰؍دنوں کی مہلت سی وی سی کو دی گئی ہے اور وہ بھی ایک سبکدوش سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں اور اگلی سماعت کی تاریخ دیوالی کے فوراً بعد۱۲؍نومبر کو رکھی گئی ہے ۔یہ بھی بات چلی کہ سی وی سی کو سی بی آئی کے ڈائریکٹر کو ہٹانے کا اختیار ہے اور نہ ہی کسی اور کو ڈائریکٹر بحال کرنے کالیکن مودی اور مودی حکومت یہ سب کہاں سنتی یا مانتی ہے ۔ جنتا کوپتہ یہ بھی چلا کہ ہے کہ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کے مشورے سے یہ سب کچھ ہوا۔ہر واقعے کی صرف سخت مذمت کرنے والے وزیر یعنی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو شاید پتہ ہے بھی کہ نہیں کہ سی بی آئی کا محکمہ ان کی وزارت کے تحت آتا ہے؟اس پورے معاملے میں ان کا کہیں بھی اتہ پتہ نہیں ہے۔اسی طرح جب استھانہ کی بحالی عمل میں آئی تھی جس کی ہر طرف سے مخالفت ہوئی تھی تو انہی راج ناتھ سنگھ جی نے صحافیوں کو جواب دینے سے انکار کر دیا تھا کہ اس کے علاوہ کوئی اور سوال پوچھیں۔اُس وقت بھی انہیں اس بحالی کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا ۔اسی طرح کشمیر کی پی ڈی پی حکومت سے بی جے پی نے جب اپنی حمایت واپس لی تھی اور محبوبہ کی حکومت گر گئی تھی اُس وقت بھی راج ناتھ سنگھ کو اس کی اطلاع ٹی وی سے ملی تھی اور وہاں بھی اجیت ڈوبھال ہی پیش پیش تھے۔اس سے بھی بڑھ کر سرجیکل اسٹرائیک کے انجام کو پہنچنے کے بعد ہمارے وزیر داخلہ کو جانکاری حاصل ہوتی ہے اور یہاں بھی اجیت ڈوبھال ہی ’اسٹرائیکر‘ہیں۔تو پھر راج ناتھ سنگھ کس کام کے وزیر ہیں؟اب تو وہ استعفیٰ بھی دے سکتے ہیں کیونکہ اُن ہی کے بیان کہ’’این ڈی اے کے وزراء استعفیٰ تھوڑے ہی دیتے ہیں‘‘ کے بعد دو ایک استعفیٰ ہو گئے ہیں۔اگر وہ محب وطن ہیں توانہیں فوراً سے پیشتر استعفیٰ دے دینا چاہئے کیونکہ انہیں وزیر داخلہ کے طور پر کچھ بھی معلوم نہیں رہتااور اس سے ملک کی ساکھ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔
سی بی آئی کے اِس مخمصے(mess) میں اپوزیشن خاص طور پر کانگریس کو ’’رافیل سودے‘ ‘کی تفتیش کو سبوتاژ کرنے کی سازش نظر آرہی ہے۔کانگریس کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ آلوک ورما رافیل سودے کی عرضی میں ذاتی دلچسپی لے رہے تھے اور ممکن تھا کہ خود مودی کے خلاف ایف آئی آر درج ہو جاتاکیونکہ رافیل سودے میں صرف وہی پارٹی ہیں۔چونکہ استھانہ کی صورت اپنا آدمی اندر تھا، اس لئے تمام باتیں پہلے ہی معلوم ہو گئیں اور اس طرح آدھی رات کو سی بی آئی میں اتھل پتھل مچا دی گئی۔ہو سکتا ہے کہ کانگریس کے الزام میں سچائی ہو جو تفتیش کے بعد ہی پتہ چلے گا لیکن پتہ نہیں مودی حکومت رافیل سودے کی تفتیش سے کیوں بھاگ رہی ہے؟اگرچہ مودی حکومت کانگریس کی بدعنوانی بدعنوانی چلّاچلّاکر بر سر اقتدارآئی ہے لیکن یہی بدعنوانی کو بھوت اسے بھی ایک دن نگل لے گا۔کانگریس کے ساتھ دوسری اپوزیشن پارٹیاں بھی رافیل کے معاملے میں ایک ہوتی نظر آرہی ہیں،اس لئے ایسا لگتا ہے کہ کہیں رافیل ہی ۲۰۱۹ء کے الیکشن کا موضوع نہ بن جائے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا سارا کریڈٹ راہل گاندھی کو جائے گا۔وہ شروع ہی سے رافیل پر اپنا تیور یکساں کئے ہوئے ہیں اور کھلے عام مودی سرکارکو ’’چور‘‘ کہتے ہیں۔ایسا کسی دوسرے اپوزیشن لیڈر میں کہنے کی جرأ ت نہیں ہے۔سی بی آئی والے معاملے میں بھی وہ مودی کو گھیرے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس طرح مودی اپنے کئے کے نتائج سے بچ نہیں سکتے۔ملک کے اہم شہروں میں واقع سی بی آئی کے دفاتر کے باہر کانگریس کے مظاہرے اس بات کے مظہر ہیں کہ ملک میں بدلاؤ آنے والا ہے جس کی قیادت خود راہل گاندھی کر رہے ہیں ۔جس دفاعی سودے (بوفورس) نے ان کے والد راجیو گاندھی کو گدّی سے اُتروا دیا تھا، چند دہوں بعد ویسا ہی ایک دیگر دفاعی سودا(رافیل) کہیں ان پرمہربان نہ ہو جائے۔اسی کو کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے کو دہراتی ہے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883