ویشو دیوی میڈیکل کالج میں مسلم طلبا کے داخلے پربھاجپاکے اعتراض پر بخاری اور لون برہم
عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر// اپنی پارٹی کے سربراہ سید محمد الطاف بخاری نے قائد حزب اختلاف سنیل شرما اور بی جے پی کے دیگر لیڈروں کی جانب سے ویشودیوی میڈیکل کالج میں مسلم طلبہ کے داخلے کی مخالفت کرنے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے، جس کا ایک آئین ہے۔ آئین کی رو سے میرٹ کو اہمیت حاصل ہے نہ کہ مذہبی شناخت کو۔بخاری نے کہا، جب سماج کے شر پسند عناصر ماتا ویشنو دیوی کالج میں غیر ہندو طلبہ کے داخلے پر اعتراض کرتے ہیں تو اسے ان کی بھوکھلاہٹ اور بے وقوفی سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جب سیاسی شخصیات جیسے کی قائد حزب اختلاف سنیل شرما اور دیگر بھاجپا لیڈران بھی اسی لب و لہجے میں بات کرتے ہیں تو یہ انتہائی پریشان کن اور افسوس ناک ہے۔ انہوں نے مزید کہا، اگر کل اسی طرح بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی اور اسلامک یونیوسٹی میں بھی مذہبی شناخت کے ذریعے صرف ایک مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو داخلہ دینے کی آوازیں اٹھنے لگیں تو ایسی صورت میں ہمارے ملک کے سیکولر اور جمہوری اقدار کا کیا ہوگا؟ ۔اپنی پارٹی کے سربراہ نے مزید کہا، اس طرح کی سوچ کی جناح جیسے لیڈروں نے پیروی کی اور اس کے نتیجے میں برصغیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔انہوں نے وشنو دیوی میڈیکل کالج میں مسلم طلبا کے داخلے کی مخالفت کو انتہائی تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے اپیل کی کہ وہ اس ضمن میں مداخلت کرکے رہنمائی کریں۔ ادھرپیپلز کانفرنس کے صدر اور ایم ایل اے سجاد غنی لون نے شری ماتا ویشنو دیوی یونیورسٹی کے میڈیکل سکول میں داخلہ لینے والے طلباء کے تنازعہ میں میڈیکل سائنسز کو فرقہ وارانہ بنانے کی خطرناک کوشش کے طور پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوںنے دعویٰ کیا کہ ابھرتی ہوئی گفتگو ملک کے سب سے سخت اور میرٹ پر مبنی ڈسپلن میں سے ایک کی انتہائی پریشان کن سیاست کی نمائندگی کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو تفرقہ انگیز بیان بازی میں پیچھے ہٹنے کے بجائے طبی تحقیق میں عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کرنا چاہئے۔لون نے کہا ’’جن سائنسدانوں نے یہ سب کچھ ممکن بنایا وہ اپنی قبروں میں اس وقت پلٹیں گے جب انہیں پتہ چلے گا کہ طب کو کم تعلیم یافتہ سیاسی لیڈروں کے ایک گروپ کے حوالے کر دیا گیا ہے جو طب جیسے عظیم موضوع کو فرقہ واریت میں بدل دیتے ہیں۔‘انہوں نے کہا، “ایک ملک کے طور پر ہندوستان کو تحقیق کے میدان میں دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ ہم میڈیکل سائنسز میں اتنا تعاون نہیں کر سکے جتنا کہ ہم سے توقع کی جا رہی تھی۔”