ذرائع ابلاغ میں چند سالوں میں اس قدرر ترقی ہوئی ہے کہ اب لمحہ بہ لمحہ دنیا سے جڑے رہتے ہوئے ہم اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ دن کی روشنی میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیںدیتا- لوگ اب اپنی ذات میں اتنے محو ہوتے جارہے ہیں کہ وہ اپنے ماحول سے یکسر عاری ہوتے دکھائی دیتے ہیں- ہر کوئی اسمارٹ فون کے ساتھ چمٹے ہوئے گلی محلے، گھر، دفتر ، بازار حتیٰ کہ دسترخوان تک سیلفی بنارہے ہیں. ایسا لگتا ہے جیسے پوری دنیا ایک سیلفستان بن کر رہ گئی ہے-کچھ عرصہ پہلے ایک المناک حادثے میں آسٹریلیا میں ایک بھارتی طالب علم سیلفی لیتے وقت ہلاک ہو گیا۔انکت نامی یہ لڑکا اپنے ہم جماعتیوں کے سا تھ سیر کے دوران البانی کے مقام پر اپنی تصویر لیتے وقت اچانک ایک عمودی ڈھلوان سے پھسل کر 40فٹ نیچے گر گیا اور موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ اسی طرح جرمنی کے مغرب میں واقع ایک گاؤں میں دو خواتین اس وقت بجلی گرنے سے شدید زخمی ہو گئیں جب وہ سیلفی لینے میں مصروف تھیں- مذکورہ خواتین اپنی تصویریں کھینچنے میں اس قدر محوتھیں کہ انہیں حادثے کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں- مئی کے اوائل میں بھارت کی مشرقی ریاست اڑیسہ میں ایک شخص کو اس وقت زخمی ریچھ نے مسخ کرکے قتل کردیا جب وہ سیلفی اٹھانے کی کوشش میں اس کے قریب پہنچ گیاتھا۔’’ ہندوستان ٹائمز‘‘ کے مطابق مہلوک پربھو بھٹ آرا جنگل سے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے گزر رہا تھا جب اس کی نظر زخمی ریچھ پر پڑی- اخبار کے مطابق حادثے کے وقت گاڑی میں موجود افراد نے بھٹ آرا کو ریچھ کے ہاتھوں مرتے دیکھا مگر وہ اس کی مدد کرنیکی بجائے ساری کارروائی کو اپنے اسمارٹ فون پر ریکارڈ کرتے رہے- پچھلے ایک سال کے دوران اڑیسہ میں جنگلی جانوروں کے ساتھ سیلفی بنانے کے نتیجے میں ہونے والی یہ تیسری موت تھی۔گزشتہ دسمبر میں ایک نوجوان اس وقت لقمہ اجل بن گیا جب وہ ایک ہاتھی کے ساتھ سیلفی اٹھانے کے چکّر میں اس کے نیچے آگیا- اس سے پہلے ستمبر میں اسی طرح کے ایک اور واقعے میں ایک نوجوان کو ایک بدمست ہاتھی نے کچل ڈالا-دنیا بھرمیں اسمارٹ فونز کی بہ آسانی دستیابی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال سے تصویریں کھینچنا اور خاص کر سیلفیاں لینا اب کافی عام ہوگیا ہے- اس کے ساتھ ساتھ سیلفی لیتے وقت حادثات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے- اس سلسلے میں بھارت پوری دنیا میں ’’سیلفی اموات‘‘ میں سرفہرست آگیا ہے- شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں نہ صرف اسمارٹ فونز مناسب قیمت میں ملتے ہیں بلکہ معیاری انٹرنیٹ بھی کافی ارزاں قیمتوں پر دستیاب ہے- اس وجہ سے لوگوں میں سوشل میڈیا کا استعمال بے تحاشہ بڑھ گیا ہے، جہاں آکر لوگ اپنی تصویریں لگا کر نفسیاتی تسکین کے ساتھ ساتھ لوگوں سے داد بھی وصول کرتے ہیں- سوشل میڈیا اور اسمارٹ فونز کے امتزاج سے لوگوں خاص کر نئی نسل میں جو سماجی اور نفسیاتی تبدیلیاں ظہور پذیر ہو رہی ہیں وہ واقعی تشویش ناک ہیں- 2015 کی ایک سروے کے مطابق صرف انگلستان میں بیس فیصد سے زائد نوجوانوں نے ڈرائیونگ کے دوران سیلفیاںبنائی ہیں- اسمارٹ فونز سے لیس نئی نسل لمحہ بہ لمحہ اپنی زندگی کی مختلف سرگرمیوں کو کیمرے میں قید کرکے پھر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلاتی ہے- کچھ منفرد دکھانے کے چکّر میں نت نئے خطرے مول لیتے ہیں، کئی اپنا جسمانی توازن برقرار نہ رکھ سکنے کی وجہ سے گر کر ہلاک ہوجاتے ہیں تو کچھ جانوروں کے ہاتھوں کچل جاتے ہیں، کچھ لوگ بندوقوں کے ساتھ سیلفیاں بناتے ہوئے اس وجہ سے مرجاتے ہیں کہ ان سے اچانک اور حادثاتی طور پر گولیاں نکل پڑتی ہیں- یہی وجہ ہے کہ سیلفیوں کی وجہ سے ہونے والی اموات میں کافی اضافہ ہو گیا ہے- ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں دنیا میں ’’سیلفی ہلاکتیں ‘‘ شارک حملوں میں ہلاک ہونے والی اموات کی تعداد سے زیادہ ہو گئی ہے-یہی وجہ ہے کہ اب اس جان لیوا چیزکا تدارک کرنے کیلئے دنیا بھر میں اقدامات شروع ہو گئے ہیں- بھارت کے مالیاتی دار الحکومت ممبئی میں اب پولیس کے خصوصی دستے اہم اور خطرناک سمجھی جانے والی جگہوں مثلا اونچی تاریخی عمارتوں اور سمندری ساحلوں پر تعینات ہوتے ہیں تاکہ لوگوں کو ایسی خطرناک حرکتوں سے باز رکھا جاسکے جس سے ان کی یا دوسروں کی جانوں کو خطرہ ہے، جن میں سیلفی لینا سرفہرست ہے- بھارت میں ہی کشتی رانی کیلئے مشہور جگہ اوٹی میں انتظامی عہدیداروں نے بوٹنگ کرتے وقت سیلفی لینے پر مکمل پابندی لگا دی ہے اور کشتی میں سفر کرتے وقت لائف بیلٹ کو لازمی قرار دیا ہے- روس میں سب سے پہلے حکومت نے سوشل میڈیا کی لت اور اس سے جڑی سیلفی لینے کے خطرات کے ممکنہ تدارک کیلئے اقدامات کا آغاز کیا- 2015 میں روسی وزارت داخلہ نے ’’سیلفی سیفٹی گائیڈ '‘‘کا اجرا ء کیا تاکہ عوام خاص طورپر نوجوانوں کو اپنی جان و مال کی حفاظت کے بارے میں آگاہی دی جاسکے-مقدس مقامات کی زیارت اور مذہبی فرائض کی انجام دہی بھی اب سیلفیوں کے زمرے میں آگئی ہے- پچھلے چار پانچ سالوں میں حج و عمرے کے دوران سیلفیاں کھینچنے کا رواج بے تحاشہ بڑھ گیا ہے- حاجی صاحبان اور زائرین کرام جہاں مقدس عبادات اور ارکان کی ادائیگی میں مگن رہتے ہیں، وہیں اب وہ اضافی طور پر قدم قدم پر سیلفیاں بناکر اس کی تصدیق بھی کرتے ہیں اور چشم زدن میں پھر انہیں سوشل میڈیا پر شیئر کرکے اپنے دوست احباب اور چاہنے والوں سے اس کی داد بھی وصولنا چاہتے ہیں۔ اس نئے رواج میں عوام کے ساتھ ساتھ نامور افراد اور کھلاڑی بھی شامل ہیں‘ جب کہ سیاست دان بھی اس سیاپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت مستفید ہو رہے ہیں۔پاکستان میںختم نبوتؐ کے معاملے پر پیدا شدہ سیاسی بحران کے بعد جب ملک کے وزیر قانون زاہد حامد کو مستعفی ہونا پڑا تھاتو اس کے فورا بعد وہ عمرے پر چلے گئے جہاں سے انہوں نے احرام کی حالت میں ایک تصویر جاری کردی- مختلف تجزیہ کاروں نے دعوی ٰکیا کہ غالباً ان کامقصد اس تصویر کے ذریعے اپنے مذہبی عقیدے کی وضاحت کرنا مقصود تھا- اسی طرح سابق وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال صاحب بھی قاتلانہ حملے میں بچ نکلنے کے بعد عمرہ کرنے چلے گئے- انہوں نے بھی وہاں سے اپنے مذہبی معمولات سے جڑی ہوئی اپنی درجنوں تصاویر جاری کیں تاکہ اس حوالے سے ان کے مخالفین کے کسی بھی قسم کے پروپگنڈے کا پہلے سے تدارک کیا جاسکے-
حج اور عمرے کے دوران لوگوں کا کثرت سے سیلفیاں لینا، تصویریں کھینچنا اور ویڈیو بنانا خطرے سے خالی نہیں- اس سے طواف اور دیگر فرائض میں مشغول زائرین کی فطری رفتار میں خلل پڑتا ہے جس سے کافی بڑے حادثے رونما ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال کے اواخر میں سعودی حکومت نے دوران حج اور عمرہ مکتہ المکرمہ اور مدینہ المنورہ میں مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ سمیت بارہ جگہوں پر سیلفیاں لینے پر پابندی لگادی مگر اس کے باوجود اس وبا پر قابو نہیں پایا جاسکا۔اس پابندی کے اعلان کے وقت حرم الشریف کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے لوگوں سے گزارش کی تھی کہ وہ تصویریں کھینچنے کے بجائے عبادات پر اپنی توجہ مرکوز کریں مگرا سمارٹ فونز کے اس زمانے میں لوگوں کو سیلفیوں کے بغیر شاید کسی کام میں لطف ہی نہیں آتا!۔
…………………………..
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائیدیں00923004647998)
�����