رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسیلم نے دعوت اسلامی کا آغاز جس ماحول میں کیا وہ اپنے وقت میں خدا بیزاری کا انتہائی تاریک دور تھا۔ رسولِ پاک ؐ نے دعوتِ دین دے کر ایک ایسا اعلان کیا کہ اس سے پورا ماحول اور سماج بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا۔ آہستہ آہستہ جب تحریک اسلامی زور پکڑتی گئی اوراپنے قرب و جوار میں ، اطراف واکناف میںوسعت پانے لگی تو اس کی مخالفت میں بھی شدت آگئی، اور مخالفت کا تناسب ایک ،تین یا دس کا نہیں رہابلکہ ایک طرف فرد تھا ، دوسری طرف ایک پورا قبیلہ ،یعنی اگر کسی قبیلے کا کوئی فرد اسلام قبول کرتا تو اس کا وہ سارا قبیلہ مسلمانوں کا دشمن بن جاتا تھا ۔ ابتدائی مخالف تو لفاظی،استہزاء،طعنہ زنی، بدگوئی وغیرہ تک محدود تھی لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کافی شدت آگئی۔ اب معاملہ دست درازی تک پہنچ چکا تھا ۔ اب مسلمانوں کو مختلف اذیتیں برداشت کرنی پڑتی تھیں ۔ کسی کو تپتی ریت پر لِٹا یا جا تا اور سینے پر پتھر رکھا جا تا تھا ، تو کسی کو انگاروں پر لِٹا یا جا تا تھا، کسی کو سر راہ تختۂ مشق بنایا جاتا تھا ۔اس درد ناک ماحول نے مسلمانوں کے لئے شب و روز صبر آزما مراحل اور زندگی دکھوں اور تکلیفوں کا میدان بنا رکھا تھا اور یہ چند ہی لوگ تھے جو قبول اسلام کے بعد توحید و سنت پر استقامت سے کھڑے تھے ۔ مسلمانوں کے لئے یہ حالات پریشان کن تھے ۔وہ کون سی ذہنی و جسمانی اذیت تھی ‘ جس کا کڑوا کسیلا ذائقہ شمع ہدایت اور اس کے پروانوں نے نہ چکھا ہومگر قربان جایئے اُس ذات و الاصفات پیغمبرؐپر اور اُن ستارہ نما صحابہؓ پر جو اس ظلم اور تاریکی کی رات میں بھی چمکتے دمکتے نظر آتے تھے اور بارگاہ ایزدی میں اپنی تکالیف پرلمحہ بھر کے لئے بھی شکوہ نہ کیا۔
دگرگوں حالات کی اس غیر یقینی گردش اوراس پُر فتن ماحول میں اہل ایمان کی نگاہیں کسی ایسی تسلی اور تشفی کی متمنی اور ملتجی تھیں ، جو ان کے روح و قلب کے لئے تصفیہ، سکینت اور باعثِ رحمت بنتی۔ ایک تاریخ بلکہ تقدیر ساز اور عظیم الشان انعام۔۔۔ موراج النبی ؐ ۔۔۔ ان عظیم انسانوں کے لئے ہمت افزائی کا سامان بنا ، ایک طرف تو یہ تسلی تھی اور ودسری بشارت تھی ۔ البتہ اہل ِایمان کے لئے تیسری طرف یہ ایک ایسی کسوٹی تھی جس پر اہل ایمان کو جانچاپر کھا گیا اور یہ واقعہ یقینًا بہت ہی سخت امتحان کے مرحلہ کے طور پر رونما ہوا۔اس حوالے سے واقعہ معراج مومنین کے لئے ایک عظیم درس اور مخالفین ومنکرین پر ایک بڑا طمانچہ ثابت ہو ا۔جس خالق کائنات اور قادر مطلق کی نمائندگی کرتے ہوئے رسول ِ رحمت ؐ نے کئی برس طرح طرح کے مصائب کا سامنا کرکر کے طاغوتی طا قتوں کے خلاف ایمانی ، فکری اور نظریاتی محاذ پر مسلسل جنگ لڑی ،اس پر شاباشی کے لئے اور اپنے کارخانہ ٔ قدرت کے مشاہدے کے لئے مالک حقیقی نے اپنے اس واحد عظیم المرتبت بندے اور رسول آخر الزماں صلی ا للہ علیہ و سلم کو بلند ترین اعزاز دیا اور سیر افلاک پر بلا کر آپ ؐ کو اپنا خصوصی قرب عطا کیا ۔
اس عظیم واقعہ کے سال ،ماہ ،تاریخ اور یوم کے تعین میں گرچہ محققین اورعلماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم اس سے واقعہ کے نفس ِ مضمون پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی صحیح العقیدہ مومنوں کو نفس واقعہ پر کوئی بالشت بھر اختلاف ہے کیو نکہ اس واقعہ کی قطعیت پرقرآن کریم نے سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 1اور آیت نمبر 60اور سورہ النجم آیت نمبر 5تا17میں اس کی تفصیلات کاذکر فرمایا ہے۔ سورہ بنی سرائیل میں اس واقعہ کے پہلے حصہ ’’اسراء‘‘ یعنی مسجد الحرم سے مسجد الاقصیٰ تک کے سفر کا ذکر ہے اور سورۂ النجم میں صدرۃالمنتہیٰ اور اس سے آگے کے دوسرے مشاہد ات کا ذکر موجود ہے۔ احادیث ِمتواترہ سے بھی یہ واقعہ ثابت ہوتا ہے ۔ چنانچہ علامہ قرطبی نے واقعہ معراج کو متواتر قرار دیا ہے، امام ابن کثیر نے سورۂ بنی اسرئیل کی پہلی آیت کی تفسیرمیں اس واقعہ سے متعلق 50سے زائد آیات جرح وتعدیل کے ساتھ ذکر کی ہے۔ نیزامام زرقاتی نے واقعہ معراج کے متعلق 45صحابہ و صحابیاتؓ سے منقول ہونے کا ذکر ان کے اسمائے گرامی کے ساتھ کیا۔اس مضمون میں جو چیز ہمیںاُجاگر کرنا مطلوب ہے، وہ اس واقعہ سے متعلق دو مطالبے ہیں جو کہ اس کی اصل روح اور مطلوب شئے ہے۔ سیر افلالک پر عمیق غور وفکر کے بعد جو چیز سمجھ میں آجاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ واقعہ امت مسلمہ سے دو مطالبے کرتا ہے ایک تصدیق بالقلب دوسرا تصدیق بالعمل۔
واقعہ معراج میں مسافت بے شک طویل ہے ،اس میں پیش آنے والا ہر واقعہ بھی قدرت کے بہت سارے عجائب و غرائب پر مشتمل ہے جو کہ اس وقت کی انسانی عقل سے بالکل ماوراء تھے مگر اب سائنس نے بہت ساری گتھیاں سلجھا دی ہیں۔اس لئے اس واقعہ کو قرآن میں آزمایش قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربّانی ہے: ’ ’اور ہم نے آپؓ کو(معراج میں) جو مشاہدہ کرایا اسے لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ(آزمائش) ہی بنا دیا ‘‘بنی اسرائیل آیت نمبر 60۔اہل ِایمان اور وہ بھی راسخ ایمان لوگوں نے اس کی تصدیق کی ، جب کہ ابوبکر صدیق ؓ نے ایمان و عشق کی بازی جیت کر اس کی فوری تصدیق کی اور صدیق لقب سے ملقب ہو گئے۔ کافروں میں ظاہر بین اور عقل پرستوں کی جہالت اور کوتاہ نظری ان کے ا ٓڑے آگئی اور غبار تشکیک نے ان کے لئے خدا ئی اہتمام کے بنیادی حقایق کو چھپا لیا، نتیجتاً انہوں نے اس واقعہ کا انکار بھی کر دیا اور تمسخر بھی اُڑایادیا ۔اگر یہ واقعہ عالم خواب میں پیش آیا ہوتا تو ان کے لئے کوئی تعجب کی بات تو تھی ہی نہیں بلکہ رسولِ رحمت ؐ نے اس واقعہ کو عالم بیداری میں مشاہدات منسوب کیا تو مخالفین کی عقلیں دھوکہ کھا گئیں مگر ایمان کی مضبوط بنیاد پر تاسیس رکھنے والی عقل ِسلیم اس واقعے کی صداقت کے سامنے بلا چوں وچرا سر تسلیم خم کر گئی ۔ واقعہ بھی یہی ہے کہ یہ واقعہ عالم ِبیداری میں ہوا تب ہی تو یہ معجزہ ہے۔
یہ واقعہ تاریخ انسانی کا ایک ایسا حیرت انگیز ‘ انوکھا اور نادرالوقوع واقعہ ہے جس کی تفصیلات پر عقل ناقص آج بھی حیران اور ششدر رہ جاتی ہے ۔عقل حیرت کی تصویر بن جاتی ہے، مادی فلسفہ کی خو گر عناصر ِاربعہ کی بے دام باندی عقل ناقص یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ انسانِ کامل ؐ حدود ِ سمادی ومسافتِ ارضی کو عبور کر کے آسمان کی بلندیاں طے کرتے ہوئے لامکاں کی وسعتوں تک کیسے پرواز کرگئے ؟ اس لئے عقل ناقص کے حدود و قیود میں رہنے والے لوگ اس واقعہ کو اس کی مذکورہ تفصیلات کے ساتھ ماننے پر تیار نہ ہوئے اور ان لوگوں نے ایسے ایسے شکوک و شبہات کی چاند ماریاں کیں جن کی کوئی علمی دلیل اور سند نہیں مگر جب ایمان کی روشنی انسان کے قلب وذہن میں گھر کر جائے تو چناں وچنیں کی دیوار یں ایمان و ایقان کے سامنے ڈھ جاتی ہیں ۔
رسولِ رحمتؐ کے دور مبارک میں واقعۂ معراج نے لوگوں کو دوگر ہوں میں تقسیم کردیا ۔ ایک متصدقین کادوسرے مکذّبین کا۔ جو لوگ نورِ ایمان سے خالی تھے انہوں نے اس واقعہ کو اسلام اور داعی اسلام صل اللہ علیہ وسلم کے خلاف بطور پروپیگنڈا استعمال کیا لیکن جن کے دل نورِ ایمان سے منور ہو چکے تھے ، اس روشن باب نے ان کے ایمان میں مزید اضافہ کیا اور ان پر واضح کر دیا کہ اللہ کی کائنات میں پیغمبرا سلام صلعم کی کتنی پذیرائی ہورہی ہے ۔ وہ فوراً بکمال وتمام اس کی حقیقت سے آشنا ہو گئے اور بغیر پس وپیش کے اس کی تصدیق کر دی۔ انہیںاس کی تصدیق میں قطعََا کوئی پریشانی یا تذبذب نہیںہوا اور وہ دشمنان دین کی بے جا عقلیت کے دام ِ فریب کے شکار ہوئے نہ ان کی غوغا آرائی سے ڈگمگائے کیونکہ اہل ایمان کے نزدیک کسی واقعہ کی صحت وعدم صحت کا انحصار اس پر نہیں تھا کہ کافر کہا کہتے ہیں ،ا ن کی گم گشتہ راہ عقل وفراست کا فتوی ٰ کیا ہے ، وہ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں بلکہ وہ اﷲتعالیٰ کی قدرت اور وحی ٔ الہٰی کی بے پایاں حقیقتوں کے سامنے کسی چیز کو بھی ناممکن العمل خیال نہ کرتے تھے اور پھر جب اس پر صادق المصدوق پیغمبر کریم صلعم کی تصدیق ثبت ہو تو اس میں شک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔ زمانے کی گردشوں میںسیر افلاک کے معاملے میں ایک اور گروہ بھی سامنے آیا ہے ،یہ اُمت مسلمہ کے ایمانی بگاڑ کے سبب مکذبین کی صف میں شامل گروہ ہے۔ یہ طبقہ مغرب اور مشرق کے ابلیسوں کے کہنے پر خود نہیں بدلتا مگر اسلام کو بدل دینے پر کمر بستہ ہے ،اس نے کبھی ختم نبوت کے قلعے میں بھی سیندھ لگانے کی ناکام کوشش کی، کبھی تجدد پسندی کے نام پر اسلامی عقائد پر حملہ زنیاں کیں۔ مسلمانوں کے سواد اعظم نے انہیں ٹھکرایا مگرنہ یہ اسلام سے علانیہ اپنا رشتہ توڑنے کے لئے تیار ہے اور نہ ہی اپنے فکری و ذہنی مربیوں کے نظریات رد کرنے پر آمادہ ۔ یہ ذہنی مریض اسلام کے عقائد و اعمال میں نون میں نکتہ نکالنے کے علاوہ واقعۂ معارج کی ایسی ایسی لایعنی تاویلیں کر تے ہیںکہ اُن کی سوچ و عقل پر افسوس ہی ہوتا ہے۔
واقعہ معراج کا ہم سے ایک بڑا مطالبہ یہ بھی ہے کہ ہم نہ صرف کائنات کی تسخیر کے لئے تمام علوم سے بہرہ مندہوں بلکہ ان عبرتوں اور انعامات کا بھی ایماناً جائزہ لیں جن سے رسولِ رحمت ؐ نے مسلمانوں کو پیشگی آگاہ کیا اور ان حوالوں سے بعض اہم ہدایات اور احکامات بھی دئے ۔ مثلاً بارگاہ ِ ایزدی سے رسولِ رحمت ؐ کو جو حکم براہ راست آسمان پر ملا و ہ اقامت ِصلوٰۃ ہے ، نمازکو ایمان اور کفر کا فرقان یعنی فرق کر نے والا خط ِ امتیاز قراردیا گیا ہے ۔ نماز کی ادائیگی ایمان کے بعد سب سے پہلا کام ، حکم اور فرض ہے جوایک بندے پر عائد ہوتا ہے ۔ نماز دراصل بندوں کواپنے رب کا قرب حاصل کرنے کے لئے ایک اہم ترین وسیلہ کے طورعطا کی گئی ۔ چنانچہ معراج کے پس منظر میں ہی بند گان خدا کو مژدہ سنایاگیا : الصلواۃ معراج المؤمنین۔ اگر کوئی مسلمان نمازادانہ کرے تو کل قیامت کے دن وہ ایمان کے ان ثمرات اور حقیقی انعاماتِ معراج سے محروم ہو جائے گا جو صرف اہل ایمان کے لئے جنت میں رکھے گئے ہیں۔ نماز اور یادالہیٰ سے تو ایمان والے کا داخلی تزکیہ ہوگا مگر کوئی ایسا خارجی شر وفتن اس کے ایمان میں در نہ آئے جو ذکر اللہ کے محل کو چکناچور کر دئے، اس لئے ایمان وصالحیت کے تحفظ کے لئے قرآن کریم کی صورت میں ایک ایسا محکم انتظام کیا گیا جس کی مدد سے اہل ایمان دنیا ور آخرت میں مقام ِبر تر پر فائز ہوں گے۔ قرآن کولفظی تحریف یا کسی خردبردسے بچانے کا سامان بھی اللہ نے اپنے ذمہ لیا ہے ۔ ہدایت نامۂ الہٰیہ میں جو احکامات و تعلیمات موجود ہیںان کی تعمیل چونکہ ایک آزاد ماحول کی متقاضی تھی ، اس لئے معراج کے موقع پر خدائی احکامات کے ذریعے ایک لطیف اشارہ ہجرت کی طرف بھی دیا گیا ۔ ہجرت دراصل مسلمانوں کی طرف سے اس بات کا اعلان تھا کہ ہم ایمان اور اسلام کے لئے ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہوسکتے ہیں ،ہم کعبۃ اللہ اور وطن ِ عزیز تک کو چھوڑ سکتے ہیں لیکن دین کے معاملے میں باطل سے مفاہمت اور سودا بازی ہرگز نہیں کرسکتے معراج کے پس منظر میں ہجرت اُس عالمی ریاست کا مقدمہ تھی جس کا اولین جامع دستور رسولِ رحمتؐ کو سفر معراج میں عطاکیا گیاکہ اب آپؐ کو ایک اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لاناہے تاکہ آپ اعلائے کلمۃ اللہ کا کام کھل کر آزادانہ طور پر انجام دیں سکیں اور ان احکامات کو بھی عملی جامہ پہناسکیں جو آپؐ کے رب کی طرف سے آپ کو مل رہی ہیں ۔ ریاست کے اس جامع دستور کی وفعات سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۳۲تا ۳۷میں اس طرح مذکور ہیں : (۱) شرک نہ کرو۔(۲) والدین کی عزت اور اطاعت کرو ۔ (۳) حق داروں کا حق اداکرو۔(۴) اسراف‘ افراط اور تفریط سے پرہیز کرو اور میانہ روع اختیار کرو ۔(۵) اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ۔(۶) زنا کے قریب نہ جائو ۔(۷) کسی کو نا حق قتل نہ کرو۔ (۸) یتیم سے بہتر سلوک کرو۔(۹) عہد کا پاس رکھو۔ (۱۰) ناپ تول اور وزن کرنے میں عدل کرو۔ (۱۱) نامعلوم بات کی پیروی نہ کرو ‘ یعنی جہالت سے پرہیز کرو۔( ۱۲) عزور اور تکبر سے اجتناب کرو ۔
یہ وہ نورانی تعلیمات ہیںجو اُن تمام بیماریوں کا موثر علاج اور دوا دارو ہیں جو اس وقت سماج میں پھیلی ہوئی تھیں ، یہ اُن پر کاری ضرب تھیں جنہوں نے ابن آدم کو ہر شئے کا زر خرید غلام بنا رکھا تھا۔ اُن تعلیمات نے نظریاتی، عباداتی ، رسمی ، ماحولیاتی بت توڑ دئے جو اس سماج میں مختلف شکلوں میں پوجے جاتے تھے ۔ اگر آج بھی انسانیت کے تمام امتیازات اور تفریق کو ختم کرنا ہے تو معراج کے اسی پیغام کو تھام کر ایک وحدت کا قیام عمل میں لانا ہوگا تاکہ انسانی معاشرہ کو امن ‘خوش حالی ‘ عدل وانصاف اور جامع اجتماعی تعمیرو ترقی سے ہمکنار ہو ۔
فون نمبر 9858192958