محمد تحسین رضا نوری
سیدنا و مولانا ابو محمد عبد القادر حسنی حسینی جیلانی ؒ کی ذات عالی صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت کا ایسا چراغ روشن کیا کہ آپ کا نام نامی، اسم گرامی سن کر محبین و معتقدین کے دل فرحت و انبساط سے جھومنے لگتے ہیں، اُمیدوں کی قندیلیں روشن ہو جاتی ہیں، ٹوٹے ہوئے دلوں کے آبگینے جڑ جاتے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لیے مشعل راہ ہے، آپ علوم شریعت کے ساتھ ساتھ علوم معرفت کے بھی امام ہیں، آپ کی زندگی عبادت و ریاضت، ذکر و فکر، تقریر و خطابت، تصنیف و تالیف، فتویٰ نویسی اور خدمت خلق میں گزری، لیکن افسوس آج ہم سرکار غوث اعظم ؓ کو صرف آپ کی کرامتوں سے ہی جانتے ہیں، کسی سے بھی پوچھ کے دیکھ لیجیے کہ غوث اعظم کون ہیں ؟ تو جواب یہی آئے گا کہ غوث اعظم وہ ہیں جنہوں نے ڈوبی ہوئی کشتی کو نکال دیا، بے شمار مردوں کو زندہ کیا۔ (علی ھذا القیاس) مصنفین، مقررین، قلم کاروں کا اکثر طبقہ اپنی تصانیف، تقاریر اور مضامین میں صرف حضرت غوث اعظم کی کرامات کا ہی تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں، ہم نےآپؒ کے ایک پہلو کو پکڑ کر دوسرے پہلو کو چھوڑ دیا اور آپ کی عبادت و ریاضت، تقویٰ و پرہیزگاری، درس و تدریس، تصنیف و تالیف، شب بیداری کو لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ ہماری قوم آپ کے تعلق سےپوری طرح واقف نہیں اور نہ ہی ہم نے آپ ؒ کی سیرت کا مطالعہ کرنے اور آپ کی دینی خدمات اور تعلیمات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اٹھارہ سال کی عمر سے باضابطہ آپ کا تعلیمی سلسلہ شروع ہوا، تو مسلسل تیس سال سے زائد تک علم و معرفت کے مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرتے رہے اور علم کے مختلف میدانوں میں درجنوں علماء و مشائخ سے علم و ادب حاصل کر کے جس منزل تک پہنچے۔آپؒ جس طرح آسمان طریقت کے روشن آفتاب ہیں ،اسی طرح چرخ شریعت کے چمکتے دمکتے ماہتاب بھی ہیں، سید کبیر قطب شہير سیدنا احمد رفاعیؒ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’شیخ عبد القادر وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر اُن کے داہنے ہاتھ میں ہے اور حقیقت کا سمندر اُن کے بائیں ہاتھ میں ہے، جس میں سے چاہیں پانی پی لیں، اس ہمارے وقت میں سید عبد القادر کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ (ملخص: نزهۃ الخاطر الفاتر، صفحہ 34 بحوالہ تاریخ غوث الوری)
شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ آپ کے علمی کمالات کے متعلق ایک روایت نقل کرتے ہیں، کہ ایک روز کسی قاری نے آپ کی مجلس شریف میں قرآن کریم کی ایک آیت تلاوت کی، تو آپ نے اس آیت کی تفسیر میں ایک معنی پھر دو ،اس کے بعد تین یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق آپ نے اُس آیت کے گیارہ معانی بیان فرما دیے، اور پھر دیگر وجوہات بیان فرمائیں جن کی تعداد چالیس تھی، اور ہر وجہ کی تائید میں علمی دلائل بیان فرمائے اور ہر دلیل کے ساتھ سند بیان فرمائی، آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے سب حاضرین متعجب ہوئے۔ (اخبار الاخیار، صفحہ 11)
سیدنا غوث اعظم ؒ کے علم کا عالم یہ تھا کہ آپ کی بارگاہ میں پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل پیش کیے جاتے اور آپ فوری طور پر اُن کو حل فرما دیا کرتے تھے، مشکل سے مشکل سوالات کے جوابات چٹکیوں میں دے دیا کرتے، بلاد عجم سے ایک سوال آیا جس کا جواب عراق عرب اور عراق عجم کے علماء نہ دے سکے، سوال یہ تھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق ایسی شرط پر معلق کی کہ وہ ایسی عبادت کرے گا، جس میں وہ عبادت کے وقت تنہا ہو، اگر ایسی عبادت نہ کرے تو اس نے کہا کہ: میری بیوی مجھ پر حرام ہو گئی۔جب یہ سوال حضور غوث اعظم کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپ نے فوراً اُس کا جواب تحریر فرمایا کہ: ’’وہ شخص مکہ مکرمہ جائے اور اس کے لیے خانہ کعبہ کو خالی کرا دیا جائے اور وہ تنہا سات چکر طواف کرے، اُس وقت اُس عبادت میں کوئی دوسرا اُس کے ساتھ شریک نہ ہوگا،‘‘ سوال کرنے والا جواب ملتے ہی ایک رات بھی بغداد میں نہ رہا اور اسی دن مکہ معظمہ کے لیے روانہ ہو گیا (قلائد الجواہر، صفحہ: ۳۸)
امام ربانی شیخ عبد الوہاب شعرانی اور شیخ الحدیث عبد الحق محدث دہلوی اور علامہ محمد بن یحیی حلبی رحمۃ اللہ علیہم تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ تیرہ علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے۔ ایک اور جگہ علامہ شعرانی فرماتے ہیں کہ: ’’ غوث اعظم ؒ کے مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ سے تفسیر، حدیث، فقہ، اور علم کلام پڑھتے تھے، دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت لوگوں کو تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، اصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد قرأتوں کے ساتھ قرآن پڑھاتے تھے۔ آپ سے علم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جن میں فقہا کی بہت بڑی تعداد شامل ہے، اور تقریباً چار سو علمائے کرام آپ کی بارگاہ میں علم و حکمت کی باتیں سیکھنے کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ (مرآۃ الجنان)
سیدنا غوث اعظم ؒ کی بارگاہ میں حضرت عبد اللہ خشابؒ علم نحو پڑھا کرتے تھے۔ آپ نے حضور غوث پاک کے درس کا شہرہ بھی سن رکھا تھا۔ ایک روز آپ حضور غوث پاک کے درس میں شریک ہوئے۔ جب آپ کو درس میں کوئی نحوی نکات نہ ملے تو دل میں خیال آیا کہ یہاں وقت برباد ہو جائے گا۔ ٹھیک اُسی وقت غوث اعظم آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا: ’’ہماری صحبت اختیار کر لو ہم تمہیں علم نحو کے مشہور امام سیبویہ کی طرح بنا دیں گے۔‘‘ یہ سن کر حضرت عبد اللہ خشاب نحوی نے حضور غوث اعظم کے یہاں رہنا شروع کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو علم نحو کے ساتھ ساتھ علوم نقلیہ و عقلیہ پر بھی مہارت حاصل ہو گئی۔ (نزہۃ الخاطر الفاتر، صفحہ ۲۱۰)
آپؒ کو تعلیم وتربیت اور درس و تدریس کا بہت شوق تھا۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ نماز فجر سے فارغ ہو کر آپ مدرسہ تشریف لاتے اور طلباء، خدام اور دیگر حضرات کو شریعت و طریقت کی تعلیم دیتے۔ قرآن وحدیث، فقہ اور دیگر درسی کتابوں کا درس دیتے۔ شام تک درس وتدریس کا یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ اس کے علاوہ فتویٰ نویسی کی خدمت بھی انجام فرماتے تھے۔ ہفتہ میں عام طور سے تین دن محفل وعظ منعقد ہوتی، جن میں لوگ اتنے ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے کہ ہجوم کے باعث شہر سے باہر عید گاہ میں آپ کا منبر لگایا جاتا تھا۔ حضور غوث اعظم ہفتہ میں تین دن خطاب فرمایا کرتے تھے، جمعہ کی صبح، منگل کی شام، اتوار کی صبح۔ غوث اعظم فرماتے ہیں کہ: ابتداً مجھ پر وعظ و تقریر کا ایسا غلبہ ہوتا تھا کہ خاموش رہنا میری طاقت سے باہر ہو جاتا، میری مجلس میں دو یا تین آدمی سننے والے ہوتے، مگر میں نے سلسلہ کلام جاری رکھا پھر اس قدر ہجوم بڑھا کہ جگہ تنگ پڑ گئی، پھر عید گاہ میں خطاب شروع کیا وہ بھی ناکافی ہوئی تو شہر کے باہر کھلے میدان میں اجتماع ہونے لگا اور ایک ایک مجلس میں ستر ہزار کے قریب سامعین جمع ہونے لگے۔ (ماخوذ: اخبار الاخیار، صفحہ ۳۷، ۳۸)جب آپ کرسی خطابت پر تشریف فرما ہوتے، تو مختلف علوم و فنون میں گفتگو فرماتے اور ہیبت اتنی ہوتی کہ مجلس پر سناٹا چھا جاتا، پھر اچانک فرماتے: قال ختم ہوا اب ہم حال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، یہ سنتے ہی سامعین میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوتا، کوئی آہ بکا میں مصروف ہوتا، یا مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہوتا، کسی پر وجد کی کیفیت طاری ہوتی تو کوئی کپڑے پھاڑ کر جنگل کی راہ لیتا، غرض کہ سامعین میں سے کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ (اخبار الاخیار)
آپؒ نے اپنی تینتیس سالہ تدریسی خدمات سے ایک لاکھ سے زائد جید علماء، صوفیاء، فقہاء و محدثین اس اُمت میں پیدا فرمائے، مورخین بیان کرتے ہیں کہ: بیت المقدس کو عیسائیوں کے پنجے سے آزاد کرانے کا سہرا سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ کے سر ہے، یقینًا اُنہیں کے سر ہے، اور یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بیت المقدس کو فتح کرنے میں جن مجاہدین نے جنگ کی وہ کس کے تیار کیے ہوئے تھے، سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ کی فوج کے چیف ایڈوائزر شیخ موفق الدین ابن قدامہ تھے جو کہ براہ راست شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے شاگرد، آپ کے مرید اور خلیفہ تھےاور فوجیوں کی اکثریت غوث اعظم کے مدرسے سے فارغ التحصیل طلبہ پر مشتمل تھی، بقیہ مجاہدین حضرت امام غزالی ؒ کے مدرسے جامعہ نظامیہ سے تعلق رکھتے تھے، علاوہ ازیں سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ خود حضور غوث اعظم کے بے پناہ معتقد اور سلسلہ قادریہ کے پشتنی غلاموں میں تھے۔ (مقام سیدنا غوث اعظم، صفحہ 38، 39)
یہ ہے فیضان قادریت جس کی برکات سے سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فتح عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سرکار غوث اعظم کا علمی اور روحانی فیضان نصیب فرمائے۔ آمین