شہر لاہور میں‘ مارچ 1953ء میں‘ جب ہم لوگوں کو گرفتار کرکے لاہور سینٹرل جیل میں لے جایا گیا۔ ہم لوگ دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی صاحب کی اقتدا ء میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ دیوانی گھر وارڈ کا باہر کا دروازہ کھٹ سے کھلا اور 14'15 فوجی اور جیل افسر اور وارڈر احاطے میں داخل ہوئے اور جہاں ہم نماز پڑھ رہے تھے وہاں قریب آکر کھڑے ہو گئے۔
ہم نے باقی نماز مکمل کر لی تو ان میں سے بڑ ے فوجی افسر نے جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا‘ اس نے پوچھا: ’’مولانا مودودی صاحب کون ہیں؟‘‘مولانا نے عرض کیا: ’’میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں‘‘،تو اس نے کہا: ’’آپ کو’’ قادیانی مسئلہ‘‘ کتاب تصنیف کرنے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ہے۔ آپ گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں‘‘۔
مولانا مودودی نے بلاتوقف فرمایا: ’’مجھے کسی سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی‘‘۔اس کے بعد اسی افسر نے کہا:’’آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ’’ تسنیم‘‘ میں جو بیان دیا ہے، اس پر آپ کو سات سال قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔
کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے وارڈر آئے اور انھوں نے کہا: ’’مولانا مودودی صاحب تیار ہو جائیں‘ وہ پھانسی گھر جائیں گے‘‘۔ اس پر مولانا مودودی صاحب نے اطمینان سے اپنا کھلا پا جامہ تنگ پاجامے سے بدلا‘ جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے۔ سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی اتارکر سیاہ گرگابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہایت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہو گئے۔اب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب‘ مولانا مودودی صاحب کی قمیص‘ پاجامہ اور ٹوپی کبھی سینے سے لگاتے اور کبھی اپنے سر پر رکھتے‘ کبھی آنکھوں پر لگاتے اور بے تحاشہ روتے ہوئے کہتے جاتے کہ:’’مجھے یہ تو معلوم تھا کہ مولانا مودودی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں‘ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ خدا کے ہاں مودودی صاحب کا اتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہے‘‘۔چودھری محمد اکبر صاحب بھی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں چلے گئے اور میں بھی روتا ہوا صحن میں ایک طرف نکل گیا اور ساری رات اسی طرح سے گزر گئی۔اگلی صبح ایک وارڈر نے آ کر بتایا:’’مولانا مودودی صاحب تو عجیب آدمی ہیں۔ معلوم ہو تا ہے کہ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ پھانسی گھر گئے‘ وہاں کا لباس پہنا‘ جنگلے سے باہر پانی کے گھڑے سے وضو کیا اور عشاء کی نماز پڑھی اور ٹاٹ پر لیٹ کر تھوڑی دیر بعد خراٹے مارنے لگے۔ حالانکہ اُن کے آس پاس پھانسی گھر کے دوسر ے قیدی چیخ و پکار میں مصروف تھے‘‘۔ �