معصوم مرادآبادی
اس ملک کی جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والے بے شمار کردار ایسے ہیں جنھیں تاریخ نے فراموش کردیا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے وطن عزیز پر اپنا سب کچھ نچھاورکرنے کے باوجود کبھی نام ونمود کی پروا نہیں کی۔ ایسے ہی انوکھے کرداروں میں ایک نام سید حسین کا ہے ، جو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ دانشور ، مجاہد آزادی ، پائے کے صحافی اور بہترین شخصیت کے مالکتھے ، مگر آج ہم میں سے کتنے لوگ ان کانام اور کارناموں سے واقف ہیں۔
سید حسین کا تعلق بنگال کے ایک باوقار خانوادے سے تھا۔وہ 23؍جون 1888کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ اور لندن میں تعلیم حاصل کی ۔ کئی انگریزی اخباروں کے ایڈیٹر رہے اورجلاوطنی کے دور میں امریکہ سے ’یادوطن ‘ کے نام سے ایک اردو اخبار بھی نکالا۔ ان کے دوستوں اور ہم نشینوں میں مولانا محمدعلی جوہر کے علاوہ محمدعلی جناح ،بیرسٹر آصف علی اور سروجنی نائیڈو جیسی شخصیات تھیں۔ انھوں نے امریکہ اور برطانیہ میں رہ کر ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ مولانا محمدعلی انھیں وفد خلافت کے ساتھ یوروپ بھی لے گئے تھے۔آزادی کے بعد سید حسین کو مصر میں ہندوستان کا پہلا سفیر بنایا گیا جہاں انھوں نے1949میں داعی اجل کو لبیک کہا اور وہیں مدفون ہیں ۔ قاہرہ میں ایک شاہراہ کا نام بھی سید حسین کے نام پر رکھا گیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اتنی اہم شخصیت اور جنگ آزادی کے ہیروکے بارے میں ہم میں سے بیشترلوگ بے خبر ہیں۔ بے خبری کی اس دھند کو توڑنے کا کام پچھلے دنوں علی گڑھ کے ایک سنجیدہ اور محنتی اسکالرڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی نے کیاتھا ۔انھوں نے سید حسین پر568 صفحات کی ایک انتہائی کارآمد تحقیقی کتاب پیش کی اور سیدحسین کے کارناموں کی تفصیلات فراہم کیں۔آگے بڑھنے سے پہلے آئیے اس داستان عشق پر نظر ڈالتے ہیں ، جس کی وجہ سے سید حسین کو جلا وطنی کے کرب سے گزرنا پڑا ۔المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارا اتنا بڑا د انشور ، جیدصحافی اور مجاہدآزادی محض اپنی داستان عشق کی وجہ سے ہی یاد رکھا گیا اور اس کی بہترین قومی وصحافتی خدمات کو نظر انداز کردیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بیشتر لوگ سید حسین کے نام اور کام دونوں سے تقریباً ناواقف ہیں۔
پنڈت جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو نے جب 1919میں الہ آباد سے انگریزی روزنامہ ’’انڈپنڈنٹ ‘‘ کا اجراء کیا تو اس زمانے میں سیدحسین بمبئی کے اخبار ’’بامبے کرونیکل‘‘ میں صحافتی خدمات انجام دے رہے تھے۔وہ بہترین صحافیانہ صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ’’انڈپنڈنٹ ‘‘کی ادارت کے لیے موتی لال نہرو کی نظر سید حسین پر پڑی اور انھیں الہ آباد بلالیا گیا۔موتی لال نہرو نے انھیں رہائش اور کھانے کی سہولت کے ساتھ 1500روپے ماہوار کی معقول تنخواہ پر اپنے اخبار کا ایڈیٹر مقرر کردیا۔ سید حسین کا قیام اسی’ آنند بھون ‘ میں تھا، جہاں موتی لال نہرو اور ان کی فیملی مقیم تھی۔ اسی دوران موتی لال نہرو کی بیٹی وجے لکشمی پنڈت ان پر فریفتہ ہوگئیں اور یہ سلسلہاتنا دراز ہوا کہ دونوں نے نکاح کرلیا۔ سید حسین نہایت خوبصورت اوراسمارٹ شخصیت کے حامل تھے۔اسی طرح وجے لکشمی پنڈت بھی حسین وجمیل خاتون تھیں ۔ حالانکہ ان دونوں کی عمر میںکوئی بارہ برس کا فرق تھا ۔ سید حسین اس وقت31سال کے تھے جبکہ وجے لکشمی پنڈت کی عمر19سال تھی۔اس واقعہ کو خود وجے لکشمی پنڈت نے اپنی آپ بیتی میں اس طرح بیان کیا ہے:
’’میں اپنی نوجوانی کے دنوں میں ایک نوجوان سید حسین کی جانب راغب ہوتی چلی گئی ، جن کو میرے والد نے اپنے اخبار کی ادارت کے فرائض سونپے تھے ۔یہ ایک ایسا دور تھا جس کو ہندو مسلم اتحاد کے لیے سب سے سنہری دور کہا جاسکتا ہے ، اور میرے خاندان کے مسلمانوں سے بہت قریبی اور گھریلو تعلقات تھے ۔ میں نے یہ سمجھا کہ یہ قدرتی طورپر بہت اچھا ہے کہ اپنے مذہب کے باہر شادی کی جائے ، مگر اس وقت اس طرح کی شادی کے لیے ماحول حد سے زیادہ روایتی تھا ۔ مجھے یہ سمجھایا گیا کہ جومیں نے کیا وہ غلط ہے۔‘‘(’سیدحسین‘ ازڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی ،ص136)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سید حسین اور وجے لکشمی کی شادی کا یہ معاملہ کئی برس قومی اور بین الاقوامی پریس کی سرخیوں میں چھایا رہا۔اس معاملے نے اس وقت سنگین رخ اختیار کرلیا جب 15؍اپریل 1920کو لندن کے ہاؤس آف کامنس میں لیفٹیننٹ کرنل جیمس نے سیکریٹری آف اسٹیٹ انڈیا سے اس شادی کے بارے میں دریافت کیا اور سید حسین پر وجے لکشمی پنڈت کو اغوا کرنے ، زبردستی شادی کرنے اور مسلمان بنانے کے بارے میں سوال کیا ۔ سید حسین جو اس وقت خلافت وفد کے رکن کی حیثیت سے پیرس میں تھے ، ذاتی طورپرکرنل جیمس کے اس سوال پر سخت نوٹس لیا اور ان سے معافی مانگنے اور اپنا سوال کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔‘‘(ایضاًص140)
سید حسین اور وجے لکشمی پنڈت کا نکاح موتی لال نہرو، گاندھی جی اور جواہرلال کو پسند نہیں آیا۔ انھوں نے اسے ہندومسلم یکجہتی کے لیے خطرہ بتایا۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے نہ صرف ہندوستان کی تحریک آزادی کمزور ہوگی بلکہ کانگریس کو بھی اس کا سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ سیدحسین کو سمجھانے کے لیے گاندھی جی کے علاوہ ان کے دوست بیرسٹر آصف علی اور سوسانہ جوزف کی بھی مدد لی گئی۔آخر کار گاندھی جی نے دیگر ساتھیوں کی مدد سے دونوں کو سمجھا بجھا کر یہ شادی ختم کرادی ۔ اس کے بعد گاندھی جی کے حکم پر وجے لکشمی کو سابرمتی آشرم بھیج دیا گیااور بعد میں ان کی شادی کہیں اور کردی گئی ، وہیں سید حسین کو حکم ملا کہ وہ ’’انڈپنڈنٹ‘‘سے فوری استعفیٰ دیں اور خلافت وفد میں شامل ہوکر انگلستان روانہ ہوجائیں ۔
اس داستان کا انجام یہ ہوا کہ سید حسین کو تقریباً پچیس برس امریکہ میں جلا وطنی کی زندگی گزارنی پڑی ، لیکن انھوں نے دیا رغیر میں بھی ہندوستان کی تحریک آزادی کے لیے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں، جس کا اعتراف خود پنڈت نہرو نے بھی ایک موقع پر کیا تھا۔سیدحسین نے امریکہ سے نومبر 1923 میں اردو پندرہ روزہ اخبار ’’یادوطن ‘‘جاری کیا، جو ستمبر1924تک جاری رہا۔ یہ شاید امریکہ کی سرزمین سے شائع ہونے والا پہلا اردو اخبار تھا۔ سید حسین اگرچہ مغربی تہذیب کے دلدادہ تھے ، لیکن اپنے کلچر اور زبان سے انھیں بے پناہ لگاؤ تھا۔وہ گاندھی جی کے پیرو تھے اور مسلم لیگ کی فرقہ وارانہ سیاست کے شدید مخالف۔ ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ جدوجہدآزادی کی تحریک ہندومسلم اتحاد کے ساتھ آگے بڑھے۔مولانا برکت اللہ بھوپالی اور راجہ مہندرپرتاپ سے بھی ان کا قریبی تعلق تھا۔معروف لبنانی ادیب ،شاعر اور مصور خلیل جبران سے بھی امریکہ میںسید حسین کا خاص تعلق رہا۔انھوں نے خلیل جبران کو اپنی میگزین ’’نیواورینٹ ‘‘کے ادارتی بورڈ میں شامل کیا تھا۔
22؍فروری 1949کو جب قاہرہ میں بطور ہندوستانی سفیر ان کا انتقال ہوا تواس وقت ان کی عمر ساٹھ برس تھی۔ وہ اپنی تعلیم اور عملی زندگی کے دوران ڈھاکہ ، علی گڑھ ، کلکتہ ، الہ آباد،دہلی،لندن ،نیویارک ، لاس اینجلس ، واشنگٹن اور قاہرہ میں مقیم رہے اور ہرجگہ انھوں نے صرف ایک قوم پرست ہندوستانی کے طورپر آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ان کا خواب ایک متحدہ ہندوستان کا خواب تھا جس کے لیے انھوں نے کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا ، اپنے قریبی دوست جناح سے بھی نہیں ، اپنے قریبی خاندان والوں مولوی فضل الحق اور حسن شہید سہروردی سے بھی نہیں۔