خاندانِ ساداتِ اندرابیہ کے چشم و چراغ سیّد غلام رسول اندرابی قادری و نقشبندی ۲۲ ؍اگست ۱۹۲۴ء کو رتنی پورہ پلوامہ کی مردم خیز ، علم نواز، ادب دوست اور دین پروَر بستی میں توّلدہوئے۔ آپ کے وا لدگرامی حضرت مولا نا میر سیّد میرک اندرابی قادری و نقشبندی رحہم اللہ تعالیٰ علیہ اور چچا حضرت مولانا میر سیّد غلام محی الدین اندرابی قادری نقشبندی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہامدارانِ زمانہ تھے۔ سیّدسلام الدین اندرابی عاجزؔ نے لکھا ہے کہ سیّد غلام رسول اندرابی کو اُن کے لا ولد چچا مولانا میر سیّد غلام محی الدین اندرابی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے بچپن میں ’’ ہر دو چمن گلے ‘‘ یعنی دو باغوںمیں کھلا ہوا واحد پھول کہا تھا۔ ظاہر ہے کہ سیّدغلام رسول اندرابی کی تعلیم و تربیت اسی ہمہ آفتاب وہمہ ماہتاب خاندان میں ہوئی، جس کے اسلاف توحید ربانی اور حضرت خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلّم کی رسالتمآبی سے معمور ومسرور رہے۔ سیّد غلام رسول اندرابی چھوٹی عمر میں شعر موزون کرنے لگے اور غیورؔ تخلّص رکھا۔ مروّجہ تعلیم بھی حاصل کی اور سترہ (۷ا) سال کی عمر میں ریاستی محکمہ تعلیم میں مدّرس تعینات ہوگئے۔جانفشانی ، ہمدردی ، دیانتداری اور ایمانداری کے ساتھ نہ صرف یہ کہ فرضِ منصبی پورا کرتے رہے بلکہ متعلّمین کی اندرونی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے اور انہیں دینی و اخلاقی تربیّت بھی دینے میں پیش پیش رہے۔ دورانِ ملازمت مطالعہ اور مزید تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے آپ نے اُردو، انگریزی اور تواریخ میں پوسٹ گریجویشن ڈگریاں حاصل کیں۔ محکمانہ ڈگری بی ،ایڈ بھی حاصل کی۔ دینیات اور ادبیات کا مطالعہ جاری رکھا۔ غرض علم کے ہر دستیاب سرچشمے سے اپنی پیاس بجھاتے رہے۔
سیّد غلام رسول غیورؔسیمابی طبیعت ، درد منددِل ، تیز دماغ ، انقلابی ذہن اور غیر ت و حمیّت والی عبقری شخصیت کا نام ہے۔ آپ متانت، و جاہت ، سروقد، متوازن اور دِلکش سراپا کے مالک، شعلہ بیان مقرر اور نکتہ سنج مناظرتھے، شعلہ بھی تھے اور شبنم بھی۔ سیاسی اور سماجی استحصال کے خلاف ہمیشہ نبرد آزمارہے۔ عوام کے دُکھ درد میں شریک ہو کر دینی ، اخلاقی اور سماجی اصلاح کے لئے ہمیشہ کوشاں رہنا اُن کا معمول تھا۔ ۱۹۷۷ ء میں اس خیال سے کہ میدان ِ سیاست میں آ کر زیادہ بہتر فلاحی و اصلاحی کام کرنے کے مواقع دستیاب ہوں گے، آپ نیشنل کانفرنس میں شامل ہو کر سرکاری ملازمت کو وقت سے پہلے خیرباد کرگئے۔ سیاست کے درونِ خانہ ہنگاموں ، لیلائے سیاست کی نقلی اٹھکیلیوں اور عشوہ طرازیوں ، سیاست دانوں کے وارے نیارے معاملوں کی حقیقت کا کئی سالوں تک گہرا مشاہدہ کرکے او ر تلخ تجربات کے بعد سیاست کا طوق گردن سے باہر نکال دیا۔ ۱۹۷۹ء میں ’’عوامی رابطہ‘‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار جریدہ اجراء کیا، جس نے اشاعت کے سات سال پورے کئے اور بند ہوگیا۔ اس جریدے کے پر مغز اور پر اثر اداریے غیورؔمرحوم ومغفور کے اندازِ تحریر، صحافتی تجربے اور علمی لیاقت کا پتہ دیتے ہیں۔ کچھ خصوصی شمارے دستاویزی حیثیت رکھتے ہیں۔
غیورؔمرحوم ومغفورکے لایق و فائق فرزند ارجمند سیّد شوکت غیورنے اپنے والد گرامی کے گنج ہائے تخلیقات کو شایع کروانے کا سلسلہ شروع کیا اور بڑی لگن ، محنت اور تلاش کے بعد زرِ کثیر خرچ کرکے نثری خاکوں کے ایک شاندار مجموعہ کے علاوہ تین دیدہ زیب شعری مجموعے منظرعام پر لائے ہیں،جن میں کشمیر ی نعوت کا خوبصورت مجموعہ ’’ڈأل‘‘( تحفہ)بھی شامل ہے۔ ۵۲۰؍صفحات پر پھیلا ہوا یہ مجموعہ سیّد شوکت غیور نے ترتیب دے کر ۲۰۰۷ء میں شایع کیا گیا۔ اس کے پچاس صفحوں پر پندرہ مقتدر عالموں ، ادیبوں اور ناقدوں کے سیّد غلام رسول غیورؔ کی نعت گوئی کے بارے میں لکھے ہوئے تاثرات، تبصرے اور تجزیئے درج ہیں۔ اس مجموعہ میں سلام و درود ، نعوت و مناقب کے علاوہ ایک طویل مکالمہ وغیرہ مشمولات کی تعداد ۸۰؍سے بھی زیادہ ہے ،یہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کے لئے واقعی نادر تحفہ ہے اور کشمیری زبان کے نعتیہ ادب میں معیار و مقدار کے اعتبار سے ایک گرانقدر اضافہ۔
سیّد غلام رسول غیورؔبسیار نویس بھی تھے اور زود نویس بھی۔ اُن کے فرزند ارجمند سیّد شوکت غیور نے اُن کے گنج ہائے تخلیقات میں سے مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق ایک سو چھپن اُردو غزلیں نکال کر دو مجموعوں میں شایع کردی ہیں۔۰۱۱ ۲ ء میں ’’رزم گاہِ حیات‘‘ نام کے ۳۴۲صفحات پر پھیلے ، شایع شدہ مجموعے میں ایک سو ایک غزلیں درج ہیں۔ دوسرے مجموعہ کا نام ’’سنگ و سمن‘‘ ہے یہ ۲ا۲۰ء میں شایع ہوا۔ دوسو صفحات پر محیط اس مجموعہ میں ستاون ۷۵؍غزلیں ہیں۔ یہ دونوں مجموعے مواد ، متن اور طرزِ بیان کے اعتبار سے غیور مرحوم ومغفورکا انفرادی اُسلوب متعین کرتے ہیں خاندانی نسبت ، علم و فضل، زہد و تقویٰ ،فقرو تمکنت کا فطری تقاضہ تو یہی تھا کہ سیّد غلام رسول غیورؔتوحید ِباری تعالیٰ اور حُب ِرسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کے سرمدی نغموں سے سر شار ہوں، نعت تو نعت ، اُن کی غزلوں میں بھی کبھی کبھی اس کی جلوہ طرازیاں ملتی ہیں ۔ یہ بات ضرور ہے کہ سیّد غلام رسول غیورؔاگر خود اپنا کلام ترتیب دے کر شایع کرواتے تو مجموعی طور پر اُس کی فنی خوبیوں اور خامیوںپر توّجہ کرتے، لیکن عمرِ گریزاں اور اَجل نے ان کو ایسا کرنے نہیں دیا، اس میں اُن کی بہت زیادہ مصروفیات کا بھی عمل دخل ہے۔ برصغیر کے نامور نقاد پر وفیسر حامدیؔکاشمیری کی نظر میں:’’غیورؔ مرحوم ومغفور کے متعد د اشعار خود رَو ہیں۔ جن اشعار میں شعری لوازم کی پاسداری ملتی ہے ، وہ شعری تجربے کی تہہ داری کا احساس دلاتے ہیں۔ یہ لفظوں کا برتائو ہی ہے کہ وہ حقیقت کی سطح پر بھی تخلیقیت سے کنارہ نہیں کرتے اور آزاد تخیلّی فضاء کی تشکیل کرتے ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے ، کہ اُن کے یہاں تخلیقی اشعار کے ساتھ کلامِ منظوم کی کثرت بھی سامنے آتی ہے۔‘‘ (رزم گاہِ حیات : صفحہ ۱۱،۲۱)۔سیّد شوکت غیور نے اپنے والد گرامی کے نوے نوشتے مرّتب کیے۔ ۹۰۰۲ء میں تین سو چوالیس (۳۴۴)صفحات پر محیط مجموعہ’’فکری زاؤیے نثری خاکے‘‘ کے عنوان سے شایع کیا۔ مرّتب کے خیال میں یہ نوشتے نثری خاکے ہیں۔ یہ تحریریں فکر کی گہرائی اور گیرائی کی خاص مثالیں ہیں مگر اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ غیورؔ مرحوم ومغفور کا نثری نظم کی اور خاص میلان تھااور ان تحریروں میں مولانا ابو الکلام آزاد کی طرح گویا نثرمیں شعر گوئی کرتے ہیں۔ ان میں استعارے ، تشبیہیں ، اشارے کنائے اور صنعت ِتضاد کے علاوہ بھی کئی صنایع سے کام لیا گیا ہے۔ معروف محقق اور ناقد محمد یوسف ٹینگ نے لکھا:’’ان تحریروں میں شاعرانہ اصناف کی سند نہ سہی، مگر شاعر ی کی خوشبو اور اُس کے ارتعاشات ضرور نظر آتے ہیں۔ ‘‘ (’’فکری زاؤیے نثری خاکے‘‘ صفحہ : ۱۲)
ربِ کریم نے سیّد غلام رسول اندرابی قادری و نقشبندی متخلص بہ غیور ؔ کی قسمت میںحیات ِجاوداں کا انعام لکھا تھا۔ ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء مطابق ۱۷؍ ماہ رمضان ۱۴۶۲ھ دن کے گیارہ بج کر پچاس منٹ پر جب کہ آپ روزہ دار تھے ، نامعلوم بندوق برداروں کے ہاتھوں جرمِ بے گناہی کی پاداش میں بدرجہ ٔ وصال ا بدی پہنچا دئے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اُن کے متعدد اشعار گویا قبل از وقت یہی بشارت لے کر تخلیق ہوئے تھے ؎
تم پہلے میرے قتل سے ، یہ فیصلہ تو دو
منسوب کس کے نام ہو ، اس ذات کا لہو
تم ہاتھ میں پتھر لیے پھرتے ہو ابھی تک
تم پہلے میرے سر کوئی الزام بتا دو
سماجی اصلاح کے کاموں اور تلخ و شیرین یادوں کے علاوہ غلام رسول غیورؔ کا ادبی تخلیقی سرمایہ زندہ اور پایندہ ہے۔انہوں نے علمدار کشمیر حضرت شیخ نور الدین ریشی علیہ رحمہ کا کلام جمع کرکے اس کا ترجمہ بھی کیا تھا اور اس کی تشریح بھی کی تھی، مگر اُس کا تھوڑا سا حصہ ہی زمانے کی دست برد ہونے سے بچ سکا ہے۔ضرورت ہے کہ اب اُن کے شایع شدہ کلام کا ہر زاؤیے سے تجزیاتی مطالعہ کرکے ان کا ادبی مقام متعین کیاجائے اور ادبی تخلیقات کا جوانبار اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں، اس کو شایع کرکے عوام تک پہنچایا جائے۔ اس بڑے کام کے لیے علمی، ادبی اور ثقافتی اداروں کو آگے آنا ہوگا ؎
مجھ کو تو زندہ پائوگے تم بعد ِ مرگ بھی
اس زندگانی کی کوئی تکمیل ہی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔