سرینگر//حریت (گ)چیرمین سید علی گیلانی بدستور اپنے گھر میں نظربند ہیں، حریت راہنماؤں محمد اشرف صحرائی، حاجی غلام نبی سمجھی، آغا سید حسن الصفوی، غلام احمد گلزار، بلال احمد صدیقی، محمد اشرف لایا کو بھی بدستور خانہ اور تھانہ نظربند رکھا گیا ہے۔حریت کانفرنس نے حکومتی کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سرزمین بے آئین میں قانون نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے اور یہاں عملاً فوج اور پولیس کا قانون چلتا ہے جنہوں نے اس سرزمین پر ایسے قانون نافذ کردئے ہیں جو کسی بھی قانونی کتاب میں درج ہی نہیں ہیں۔ حریت نے کہا کہ سیاسی قیادت اور سول آبادی کے خلاف فوجی طرز کی کارروائیاں جاری رکھنا ایک تشویشناک صورت اختیار کرگیا ہے اور اس صورتحال میں یہاں کے عوام اور سیاسی ارکان کے مال وجان اور عزت کے تحفظات کے حوالے سے انسانی حقوق کو یکسر پامال کیا گیا ہے۔ حریت نے جیلوں میں نظربند قائدین شبیر احمد شاہ، ڈاکٹر غلام محمد بٹ، الطاف احمد شاہ، ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین کلوال، نعیم احمد خان، شاہد الاسلام، شاہد یوسف، فاروق احمد ڈار، ظہور احمد وٹالی، محمد اسلم وانی، مسرت عالم بٹ، محمد یوسف میر، غلام محمد خان سوپوری، میر حفیظ اللہ، محمد یوسف فلاحی امیرِ حمزہ شاہ، شکیل احمد یتو، محمد رفیق گنائی عمر قید گزارنے والے اسیران بے تقصیر ڈاکٹر شفیع شریعتی، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، مقصود احمد، غلام قادر بٹ، منظور احمد اور نذیر احمد وغیرہ جملہ اسیران زندان کی حالتِ زار پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سینٹرل جیل سرینگر سے لے کر تہاڑ جیل کی تنگ وتاریک جیل کوٹھریوں تک اسیران زندان کو بدترین قسم کی سیاسی انتقام گیری کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حریت کانفرنس نے تمام سیاسی نظربندوں کی رہائی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پی ڈی پی، بی جے پی سرکار نے ریاست کو ایک بڑے جیل خانے میں تبدیل کردیا ہے اور جب سے محبوبہ مفتی نے اقتدار سنبھالا ہے قتل وغارت گری، گرفتاریوں، چھاپوں اور تلاشی کارروائیوں میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔حریت کانفرنس نے عالمی برادری اور حقوق بشر کے لیے سرگرم اداروں کو مخاطب کیا کہ وہ اسیران زندان کی غیر قانونی قید مسلسل کا کوئی نوٹس نہ لیکر جموں کشمیر میں اپنی اعتباریت پر ایک بڑا سوال کھڑا کرتے ہیں اور یہ خاموشی ان کے تمام تر زبانی دعوؤں کی نفی کرتی ہے۔