آنسوکئی قسم کے ہوتے ہیں، ان میںسب سے زیادہ مگرمچھ کے آنسومشہورہیں، نہ جانے کس نے اس کریہہ لمجسم کو روتے دیکھ لیا اور مشہورکردیا حالانکہ رونا اور آنسو بہانا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ سب سے خوف ناک چیز عورت کے آنسوئوںکو کہا جاتاہے۔ کچھ لوگ اسے ٹسوے بہانے سے بھی تعبیرکرتے ہیں بہرحال مگرمچھ کے آنسو ہوں یا پھرٹسوے بہانا اس کو ایک ہی سکے کے دورخ کہا جا سکتاہے ۔ آنسوئوں کی ایک اور بھی قسم ہے :یہ ہے خوشی کے آنسو جس میں آنکھیں روتی ہیں لیکن دل عجب قسم کی لذت سے آشنا ہوتا ہے۔آنسوئوں میں ایک خوبی تو کمال ہی ہوتی ہے کہ لوگوں کے دل پسیج جاتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی رونے والے سے ہمدردی سی ہوجاتی ہے لیکن ایک بات ہے آنسوئوں سے کام لینا یا آنسوبہانا بھی ایک آرٹ ہے ،جوہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں۔ آنسو عورت کا سب سے مؤثرہتھیارہے، رونااور آنسو بہانا ایک ہتھیار ہے تو اس کو کئی عالمی رہنمائوں نے اس اندازسے استعمال کیا ہے کہ آج تک دنیا حیران وششدر ہے۔ ہوسکتا ہے کسی رہنما کے سچ مچ آنسو نکل آئے ہوں لیکن سیاست کی دنیا میں ایسا کم کم ہوتاہے ۔ایک خاص بات یہ ہے کہ جب سینہ غم سے بوجھل ہوجائے تو اب یہ تو آنسو روکے بھی تو نہیں رُک پاتے۔ کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا کہ سب سے پہلے آنسوئوں کو ہتھیارکا درجہ کس نے دیا ؟ ماہرین ِ نفسیات کا کہناہے کہ جب انسان کسی سبب کمزورپڑجاتاہے تو اس کے آنسو نکل جاتے ہیں۔ جولوگ مضبوط اعصاب کے مالک ہوں مشکل حالات، اچانک غم یا خوشی میں بھی ان کی آنکھیں خود بخود بھیگ جاتی ہیں۔ایک بات طے ہے کہ آنسوئوںکا دل اور جذبات سے گہرا رشتہ ہوتاہے ۔تاریخ میں کئی عالمی رہنما ئوںکے آنسو مشہورہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔ ایک موقع پر سابق وزیر ِ اعظم میاں نوازشریف اپنے ملک کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت ِ زار کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ عوام اب تک حیران بلکہ پریشان ہیں کہ وہ کیونکر رو دئیے۔ ان کا خاندان کئی دہائیوں سے برسر اقتدار ہے ، سرکاری ہسپتالوں کی ناگفتہ بہ حالت پر رونے کی بجائے ذمہ داروں کی گو شمالی کرنے کی ضرورت تھی۔ کیا رونے سے ان سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر، معیار درست اور عوام کو سہولیات میسر آگئیں؟ ایسا نہیں ہوا تو رونے کا ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟سابقہ صدر ضیاء الحق اپنے ہی نامزدکردہ وزیر اعظم محمدخان جونیجو کو برطرف کرنے کے بعد قوم سے خطاب کے دوران ملکی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے ۔ کئی سیکنڈ تک ان کی سسکیوں کی آواز سنائی دیتی رہی ۔ امریکی صدر بارک اوبامہ نے 5جنوری2016کو ایک تقریب کے دوران20بچوںکی ہلاکت پرآنسوبہائے ۔ انہوںنے اپنے خطاب کے دوران2012ء میں ہونے والے ایک فائرنگ کا تذکرہ کرڈالا جس میں20بچے مارے گئے تھے۔ شنید ہے کہ یہ ذکرکرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا جب بھی میں ان بچوں کے بارے میں سوچتاہوں،پاگل سا ہوجاتا ہوں۔بارک اوبامہ کے آنسوئوںنے کئی لوگوںکو آبدیدہ کردیا۔ پاکستان میں پشاور میں آرمی پبلک سکول میں ہونے والی دہشت گردی کے بدترین واقعہ میںسابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور میاں نوازشریف، تحریک ِ انصاف کے چیئر مین عمران خان سمیت کروڑوں افراد کے بے ساختہ آنسو نکل آئے۔ اسی ظلم کے خاتمہ کے لئے قومی و عسکری قیادت نے دہشت گردوں کے خلاف آوپریشن ضرب ِ عضب کا فیصلہ کیا جو کامیاب رہا ۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن، کریملن کے قریب معروف علاقہ مانیزلایا سکوائر میں اپنے حامیوںسے خطاب کے ددران اپنی کارکردگی بتاتے ہوئے اشک بہانے پر مجبورہوگئے تھے، اسی طرح شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اس وقت زاروقطار روتے نظر آئے جب ان کے والد اور ملک کے سابق صدر کم جونگ ٹو کی تدفین ریاستی اعزاز کے ساتھ پیانگ یانگ میں ہورہی تھی۔ کینیڈاکے وزیر ِ اعظم جسٹن ٹروڈو کی آنکھوں میں اس وقت تارے جھلملانے لگے جب وہ ٹرتھ اینڈ ریکو نسلیشین کی فائنل رپورٹ منظر ِ عام پر آنے کے بعدقوم سے خطاب کررہے تھے ۔ اسی طرح سابق امریکی صدر جارج ڈبلیوبش اپنے دور صدارت کے دوران امریکی نیول سیل مائیکل مونسو رکو مرنے کے بعدایوارڈدینے کی تقریب’’ میڈل آف آنرــ‘‘ میں اپنے بہتے آنسوئوںکوروکنے میںناکام ہوگئے اورسسکیاں لینے لگے۔۔۔اٹلی کے سابقہ وزیرِ اعظم سلویوبرلسکونی اس وقت رونے لگ گئے جب انہیں ٹیکس نہ دینے کے جرم میں سزا دی گئی جس کے خلاف وہ اپنے محل کے باہر بڑے جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے باربار رو پڑے۔ میانمارکی سربراہِ حکومت آنگ سان سوچی کا چند سال قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران اچانک دل بھر آیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگیں لیکن روہنگیا مسلمانو ں کے قتل عام پر دکھاوے کا ایک آنسو بھی اپنی آنکھوں کے خزانے میں نہ ملا۔ ارجنٹائن کی سابق صدر کرسٹینا فرنانڈس صدارتی انتخابات کے دوران شاندارکامیابی پر اپنے بیٹے میک سیمو کا بوسہ لیتے ہوئے فرط ِ جذبات سے رونے لگ گئیں۔سابقہ پاکستانی وزیر ِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو ایک ٹیلی ویژن کو دئیے گئے انٹرویو کے دوران اپنے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے سوال پر اپنے جذبات پرقابو نہ رکھ سکیں،ان کی آواز بو جھل ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے موقعہ پر میاں نوازشریف بھی راولپنڈی میں تھے، وہ ہسپتال گئے وہاں کارکنوںکی آہ و بکا دیکھ کر آنسوئوںپر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ اسی طرح جب میاں نوازشریف کو فیملی کے ساتھ جلاوطن کیا گیا، اس وقت بھی ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما لال کرشن ایڈوانی کو اکثر رونے کی عادت تھی، بات بات پر وہ اتنے جذباتی ہو جاتے کہ آنسو تھمنے کا نام ہی نہ لیتے ۔ اس کے برعکس جواہر لال نہرو کو رونے سے سخت نفرت تھی ۔ البتہ چین بھارت جنگ کے دوران لتا منگیشکر کا گایا ہوا گایا ’’ ذرا آنکھوں میں بھر لو پانی ‘‘ سن کر چند لمحوں کے لئے ان کی آنکھیں پرنم ہوگئیں، تاہم بہت جلدی سنبھل گئے۔ ایک موقع پر جے پور میں پارٹی اجلاس کے موقعہ پر کانگریس صدر راہول گاندھی نے یہ کہہ کر سب کو جذباتی کرڈالا کہ جب مجھے کانگرس کا نائب صدر منتخب کیا گیا ۔اسی روز ان کی والدہ میرے کمرے میں آئیں اور میرے گلے لگ کر خوب روئیں جس پر کئی ارکان رونے لگ گئے۔27دسمبر2012ء کو اپنی والدہ کی برسی پر بلاول زرداری نے سیاست میں آنے کااعلان کیا۔ان کے پرجوش خطاب نے کارکنوں کو گرما دیا، سٹیج پربیٹھے ہوئے ان کے والد آصف علی زرداری کی آنکھیں پرنم ہوگئیں۔ سیاسی آنسوئوںکا ذکرہواورMQMکے معزول اور خودساختہ جلاوطن رہنما الطاف حسین کا تذکرہ نہ کیا جائے ،یہ کیسے ممکن ہے۔ اکثروبیشتر اس کے ٹیلی فونک خطابات کے دوران اس کی آواز بھاری اور دل بوجھل ہو جانے کے سبب وہ رونے لگ جاتا ہے جس پر کارکنوں کا دل پسیج جاتا۔کئی سال قبل بارک اوبامہ سے الیکشن کے دوران آئی اوواپرائمری ہارنے کے بعدہیلری کلنٹن سرعام رونے لگ گئیں جس پران کے معاونین اور ان کے کارکنوںکو لگا کہ یہ اچھی بات نہیں ہوئی لیکن در حقیقت ہیلری کلنٹن کو اس کا فائدہ ہوا اور ہمدردی کے باعث انہیں خواتین سے بہت زیادہ ووٹ دے دئیے۔ حامد کرزئی، ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے نمائشی آنسوبہانے کی اپنی اپنی داستانیں ہیں ۔ بہرحال عام لوگوں کا مانناہے کہ بیشتر سیاستدانوں اور مگرمچھ کے آنسوئوں میں کوئی فرق نہیں۔