سرینگر //کشمیر کی اقتصادیا ت کیلئے ریڈ کی ہڈی تصور کئے جانے والا سیاحتی شعبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زوال پذیر ہو رہا ہے ،اور پانچ اگست 2019سے اس شعبہ کی حالت بد سے بدتر دکھائی دے رہی ہے۔ شعبہ سے جڑے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں مالی مدد نہیں بلکہ ایک مالی پیکیج کی ضرورت ہے تاکہ نقصان کی بھر پائی ہو سکے ۔ معلوم رہے کہ 2019میں اگست کے مہینے سے قبل ساڑھے 3لاکھ کے قریب سیاح وادی کی سیر کو پہنچے تھے، تاہم پانچ اگست سے تین روز قبل جموں وکشمیر حکام نے بیرون ریاست اور ممالک سے آنے والے سیاحوں کو کشمیر خالی کرنے کیلئے کہا ۔ اس کے بعد سے یہ شعبہ زوال پذیر ہوا،پہلے اس شعبہ کو 5اگست کے فیصلے نے تباہ کیا اب یہ شعبہ لاک ڈائون کی وجہ سے زوال پذیر ہوا ہے ۔ محکمہ کے ذرائع نے بتایا کہ گذشتہ سال2018میں 8.5 لاکھ سیاحوں نے وادی کی سیر کی تھی جبکہ سال 2017میں 11لاکھ سیاح وارد کشمیر ہوئے تھے، سب سے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ 2016میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہلاکتوں سے پْر عوامی ایجی ٹیشن کئی ماہ تک رہنے کے باوجود بھی قریب 12.12لاکھ سیاح کشمیر کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوئے۔د ستیاب سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سال 2015میں 9.27 لاکھ ، سال2014میں 11.67 لاکھ ،سال2013میں 11.71 لاکھ اورسال2012میں سب سے زیادہ یعنی 13,08,765سیاحوں نے کشمیر وادی کا رخ کیا۔تاہم اب کی بار نہ صرف ڈل جھیل خالی ہے، بلکہ کشمیر کے مشہور مغل باغات ، ٹولپ گارڈن ، باٹنیکل گارڈن کے علاوہ گلمرگ ،پہلگام ، سونہ مرگ ، یوس مرگ ،دودھ پتھری جیسے سیاحتی مقامات پر بھی الو بول رہے ہیں۔
کھارا
کشمیر ہوٹل اینڈ ریستوران ایسوسی ایشن (کھارا ) کے سکریٹری جنرل میر طارق نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کشمیر وادی میں قاضی گنڈ سے لیکر بارہمولہ تک قریب 350 ریستوران اورقریب 1200ہوٹل اور گیسٹ ہاوس بند پڑے ہیں اور سرکار اس جانب کوئی دھیان نہیں دے رہی ہے ۔میر نے کہا کہ ابھی تک اس سیکٹر کو 15سے 20ہزار کروڑ کا نقصان ہو چکا ہے ۔میر نے کہا ’’ہوٹل بند ہیں، لیکن ملازمین کو تنخواہ دینی پڑ رہی ہے ، ہوٹلوں میںبجلی کا بل ادا کرنا پڑ رہی ہے‘‘ ۔میر نے کہا کہ محکمہ بجلی ان سے 10روپے یونٹ کے حساس سے بجلی بل وصول کرتا ہے، بند ہونے کے باوجود بھی بڑے ہوٹل کے مالکان کو 15ہزار اور چھوٹے کو 5ہزار کی بجلی بل ادا کرنی پڑتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب کمائی کچھ نہیں تو یہ سب کیسے ممکن ہو پائے گا ۔انہوں نے کہا کہ برسوں سے ان کے ساتھ ہوٹلوں میں ملازمین کام کر رہے ہیں ،ایسی حالت میں ہم ان کو چھوڑ بھی نہیں سکتے ۔انہوں نے کہا کہ ہوٹل انڈسٹری سرینگر میں 2014کے سیلاب سے متاثر ہے اور ابھی تک یہ پوری طرح سے بحال نہیں ہو سکی ہے۔ اس وقت حکومت نے دعویٰ کیا کہ انہیں مالی پیکیج دیا جائے گا لیکن کچھ نہیں ملا ،ہم نے متعدد بار اس سلسلے میں سرکار سے میٹنگیں کیںلیکن ان کا کوئی حل نہیں نکلا ۔انہوں نے کہا کہ ہمارا شعبہ ہی روز گار کے مواقع پیدا کرتا ہے،جب سرکار کی سرد مہری رہے تو بیروزگاری میں اضافہ ہونا قدرتی ہے۔
ہاوس بوٹ ایسوسی ایشن
کشمیر ہاوس بوٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری عبدالرشید نے بتایا کہ جھیل ڈل اور دیگر علاقوں میں کل 870ہاوس بوٹ ہیں، جس میں سے ڈل میں 550ہیں، جو سبھی 5اگست کے بعد خالی پڑے ہیں ۔رشید نے کہا کہ انہیں اُمید تھی کہ سال 2020میں یہ شعبہ پھر سے پٹری پر آئے گا لیکن کورونا وائرس نے پوری کسر نکال دی ۔انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرکار نے ان کیلئے فی ہاوس بوٹ ایک ہزار روپے کا معاوضہ رکھاہے ،جو کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہے اور انہوں نے یہ معاوضہ لینے سے انکار کر دیا ہے ۔انہوں نے کہا’’ ہم بھیک نہیں مانگتے، نہ ہمیں بھیک چاہیے، ہمیں 5اگست کے بعد اور اب کورونا لاک ڈائون سے ہوئے مالی نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے مالی پیکیج چاہیے‘‘۔
شکارا ایسوسی ایشن
شکارا ایسوسی ایشن کے صدر ولی محمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ 5اگست کے بعد سے پورے جھیل ڈل میں781 4 شکارے بیکار کھڑے ہیں۔ولی محمد نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں گرمیاں پڑتے ہی ڈل میں مقامی وغیر مقامی سیاحوں کا بھاری رش شروع ہو جاتا تھااور شکاراوالے 6مہینے اچھی کمائی کرکے 12 مہینے اپنے اہل وعیال کا پیٹ پالتے تھے۔ لیکن کورونا نے سب کو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ولی محمد کے مطابق سرکار کہہ رہی ہے کہ انہیں ماہانہ0 100روپے دئے جائیں گے، لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے، اس مہنگائی کے دور میں ایک ہزار روپے کی رقم میں تیل کا ایک ڈبہ بھی نہیں آتا ہے ۔ولی محمد نے کہا کہ مرکزی سرکار کو سیاحتی شعبہ سے منسلک لوگوں کیلئے ایک بڑے مالی پیکیج کا علان کرنا چاہئے ۔
ٹرویل ایجنٹ ایسوسی ایشن
ٹرول ایجنٹ سوسائٹی آف کشمیر کے صدر میر انور نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کورونا کی وجہ سے پوری دنیا کا سیاحتی شعبہ زوال پذیرہوا ہے جبکہ کشمیر میںیہ شعبہ 5اگست2019 کے بعد ہی مکمل طور پر زوال پذیر ہے ۔انہوں نے کہا کہ مارچ کے اوائل میں 20فیصد بکنگ سیاحوں سے انہیں ملی تھی، وہ سب رد ہو گئی اور انہیں پیسہ واپس کرنا پڑا ۔اس وقت کوئی بکنگ ہے ،حالت ایسی ہے کہ ہم سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ سیاحت سے جڑے لوگ مرکزی اور ریاستی سرکار سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں امداد کی ضرورت نہیں بلکہ ان کیلئے ایک مالی پیکیج کاا علان کیا جائے لیکن جموں وکشمیر حکومت اور نہ مرکزی سرکار کوئی دھیان دے رہی ہے ۔
محکمہ سیاحت
ڈائریکٹر سیاحت کشمیر نثار احمد وانی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس وقت پوری دنیا میں یہی حال ہے ،ہم کورونا کی اس مہلک وبا کے بیچ یہ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں کہ سیاحوں کو کشمیر آنے کی دعوت دی جائے کیونکہ اس وقت سب کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اپنی جانیں بچائیں نہ کے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالیں ۔انہوں نے کہا کہ جو بھی اس وقت باہر سے آتا ہے اس کو پہلے قرنطین میں رکھا جا تا ہے، تو جب ٹورسٹ چار دن کیلئے آئے گا اور 14دن وہ قرنطین میں رہے گا تو کیا کرے گا یہاں آکر ۔سیاحتی شعبہ کے ساتھ منسلک افراد کے پیکیج کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ناظم سیاحت نے پلو جھاڑتے ہوئے کہا ’’ یہ کون سا اکیلا سیکٹر ہے جو متاثر ہوا ہے کوڈ 19کی وجہ سے ہر ایک سیکٹر متاثر ہے لیکن اس وقت اگر کوئی چیز اہم ہے وہ زندگی ہے اور اسی کو بچانے کیلئے ہی سب کچھ ہو رہا ہے ۔