راقم السطور نے بہت پہلے اس کالم ایک بار لکھا تھا کہ مودی حکومت کی بیماری کچھ اور ہوتی ہے اور علاج کچھ اور تجویز کرتی ہے یعنی اگر کسی کے سر میں درد ہورہا ہے تو یہ ٹانگ کا آپریشن کرنے کو کہتی ہے بلکہ بعض اوقات تو خود کر بھی دیتی ہے۔ یہ کام مودی سرکار مسلسل ساڑھے چار برسوں سے کرتی آرہی ہے اور اپنی دانست میں سمجھتی ہے کہ بہت اچھا کام کر رہی ہے لیکن چند دن بعد ہی اس پریہ عقدہ کھلتا ہے کہ اس کی نیت صاف نہیں تھی ،اس لئے وہ کام بھی ڈھیر ہو جاتا ہے۔اس کی متعدد مثالیں ہیں کہ کس طرح اس کی نافذ کردہ پالیسیاں یا تو فیل ہو گئی ہیں یا واپس لے لی گئی ہیں یا ان میں کئی بار ترامیم کی گئیں۔آخر تک یہ باز نہیں آئی اور ایک بار پھر طلاق ثلاثہ پر ترمیم شدہ بل لوک سبھا میں پیش کر کے پاس کروادیا ہے۔حالانکہ یہ آرڈیننس ہی ہے لیکن راجیہ سبھا کی منظوری کے بعد قانون کی شکل اختیار کر سکتا ہے جس کی رُو سے تین بار طلاق کہنے والے شخص کو ۳؍سال کی سزا ہوگی ۔یہ ایک غیر ضمانتی جرم ہوگا۔اس کے علاوہ’’ ملزم‘‘ کو جرمانہ بھی ادا کرنے اور جیل کاٹنے کے بعد اپنی سابقہ بیوی کو زندگی بھر اس کی اور بچوں کوگزارے کے لئے رقم(تاوان) بھی دینا ہوگی۔ اگست ۲۰۱۷ ء کے عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ آیا کہ طلاق ثلاثہ ایک غیر جمہوری عمل ہے ، اس کے بعد بھی اس قانون کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے اور وہ جان بوجھ کر مسلمان مردوں کو جیل میں ٹھونسنا چاہتی ہے تاکہ اپنے مسلم دشمنی ایجنڈے پر عمل پیرا ہو سکے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسا قانون ملک عزیز کے دوسرے مذہب ماننے والوں کیلئے نہیں ہے۔
وزیر قانون کا یہ جواز ہے کہ سپریم کورٹ کے غیر جمہوری قرار دینے کے بعد بھی اب تک تین طلاق کے ۴۷۷؍معاملات سامنے آئے ہیں،اس لئے اس کو قانونی شکل دینا ضروری ہے تاکہ مسلم بہنوں کو اُن کے ظالم شوہروں سے بچایا جا سکے۔انہوں نے یہ تک کہا کہ اگر’ ’ستی‘ ‘اور ’’جہیز‘‘ پر قانون بنایا جا سکتا ہے تو طلاق ثلاثہ پر کیوں نہیں؟بی جے پی کے مختار عباس نقوی نے دس قدم آگے بڑھ کر کہا کہ طلاق ثلاثہ جبری آبروریزی اور قتل کے برابر ہے ،اس لئے اس پر قانون بننا ہی چاہئے تاکہ اس کا خاتمہ ہو سکے۔جہیز مخالف قانون اور آبروریزی کی سزا سے متعلق قانون کے بعد بھی یہ دونوں کرائم رُکے ہیں کیا؟مختارعباس نقوی اور وزیر قانون کو جو عدالت عظمیٰ کے ایک سینئر وکیل بھی ہیں، کواس سوال کا جواب دینا چاہئے ۔بچوںکی شادی (بال وِواہ)کی روک تھام کیلئے بھی ایک قانون موجود ہے تو کیا اس طرح کی شادیاں رک گئی ہیں ؟قطعی نہیں، بلکہ اعداد وشمار تو یہ کہتے ہیں کہ ۸۴؍فیصد شادیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔وزیر موصوف یہ بھی بتاتے تو اچھا ہوتا کہ قانون کے اُلنگن میں اس میں کتنوں کو سزائیں ہوتی ہیں۔
بی جے پی اگر یہ سمجھتی ہے کہ اس طرح اسے مسلم خواتین کے ووٹ مل جائیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتی ہے۔چند مسلم خواتین اگر اس طلاقِ ثلاثہ کی زد میں آئی ہیں، تو ان کیلئے خود مسلم معاشرہ جواب دہ بھی ہے اور مصلح بھی ۔ اس تعلق سے اس کے علماء اور رہبر ان سوچ رہے ہیں اور مسلم پرسنل لا ء بورڈ نے تو سپریم کورٹ میں حلف نامہ تک داخل کیا ہے کہ تین طلاق اس کے زیر غور ہے اور بتدریج اس کے خاتمے کے تعلق سے کارروائی کر رہا ہے۔کوئی بھی ہوش مند مسلمان طلاق ثلاثہ کی حمایت نہیں کر سکتا لیکن اس کی آڑ میں بی جے پی اگر کوئی گھناؤناکھیل کھیلنا چاہتی ہے تو اُسے برداشت بھی نہیں کر سکتا۔اس امر سے انکار نہیں کہ طلاق ثلاثہ کی وجہ سے کچھ زندگیاں برباد ہوئی ہیں۔جو خاتون اس مقدمے کو لے کر سپریم کورٹ گئی تھی، اس کامنشاء بھی صاف ہو گیا ہے۔ اس نے بی جے پی کو جوائن کر لیا ہے جس سے اُس اندیشے کو تقویت ملتی ہے کہ ہو نہ ہو یہ بی جے پی کی چال ہو لیکن جس طرح اپوزیشن اور خاص طور پر کانگریس کے حوصلے بلند ہیں ،ایسا لگتا نہیں ہے کہ یہ بل راجیہ سبھا میں پاس ہو جائے گا۔اگرچہ راجیہ سبھا میں بی جے پی ہی بڑی پارٹی ہے لیکن اکثریت کیلئے اسے بل کو قانون میں بدلنے کے لئے غیر این ڈی اے پارٹیوں کی حمایت درکار ہوگی۔لوک سبھا میں اس بل کے بحث کے دوران جس طرح سے غیر این ڈی اے پارٹیوں نے اپنا موقف ظاہر کیا ہے، اس سے تو لگتا نہیں کہ وہ بی جے پی کے ساتھ جائیں گی۔خود اس کی اتحادی جنتا دل یونائٹیڈ جس کی لوک سبھا میں تو ۲؍ لیکن راجیہ سبھا میں ۶؍ اراکین ہیں،نے پارٹی کو ا س جھمیلے سے دور رکھ لیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کو اس بل کی ضرورت ہے؟اس بل کے پاس ہو جانے اور قانون بن جانے کے بعد کیا ملک کے حالات بالخصوص مسلم خواتین کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ اپنے شوہروں کو جیل بھیج کر کیا متاثرہ خواتین سکھی رہ سکیں گی؟اور جیل سے آنے کے بعد شوہروں کا رویہ کیا مشفقانہ ہوگا؟ قطعاً نہیں۔طلاق ثلاثہ کی جتنی معلومات ایک مسلمان کو نہیں تھیں، لوک سبھا کی کارروائی دیکھنے کے بعد اباس پر منکشف ہوگئیہیں۔اہم بات تو یہ کہ بشمول اویسی جتنے اراکین ِپارلیمان خواہ وہ بی جے پی کے ہوں یا کسی اور پارٹی کے ،سب نے اپنا ہوم ورک اچھا کیا تھا اور قرآن کو اس طرح ’’کوٹ‘‘ کرر ہے تھے جیسے وہ اس عنوان پر دسترس رکھتے ہوں۔ایک کانگریسی خاتون ایم پی جن کا تعلق بہار سے ہے،نے تو غضب ہی کر دیا ۔ ان کا بیان (ویڈیو) سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے۔انہوں نے بڑی سچی اور اچھی بات کہی کہ قرآن کے سورہ النساء اور سورہ ٔ البقرہ میں طلاق کے تعلق سے تفصیلات دی گئی ہیں اور وہ ویسی ہیں جو دنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں ہیں۔اسلام ہمیشہ ہی صلح کی بات کرتا ہے۔جب بات نہ نبے تو آخری حل کے طور بادل نخواستہ طلا ق کی اجازت دیتا ہے۔ خواتین کو اس معاملے میں بھی قرآن برابری کا حق دیتا ہے،اس طرح دنیا کا کوئی مذہب نہیں دیتا۔اور کون کہتا ہے کہ خواتین کو طلاق دینے کا اختیار نہیں ہے؟واضح رہے کہ خواتین بھی طلاق لے سکتی ہیں،اسے ’’خلع ‘‘کہا جاتا ہے۔طلاق دینے اور طلاق لینے کو خلط ملط کرنا درست نہیں،اپنے انجام میں دونوں ہی ایک ہیں۔
کچھ ایسے ہندو اور عیسائی بھائیوں کو میں جانتا ہوں جو دس دس برس تک طلاق لینے کیلئے کورٹ کچہری دوڑتے رہے ہیں اور جب طلاق وقوع پذیر ہوتی ہے تب تک عمر نکل گئی ہوتی ہے ۔پھر اس کے بعد زوجین کو دوسری شادی میں دقت ہوتی ہے۔اگر ان کی بیویاں ٹھان لیں تو عمر بھر طلاق نہیں ہو سکتی۔یہی حال مردوں کی طرف سے بھی ہے ،اگر وہ ٹھان لیں تو بھی زندگی بھر طلاق نہیں ہو سکتی۔اسلام میں سب کچھ آسان بنایا گیا ہے۔شادی بھی آسان ہے اور طلاق بھی لیکن یہ ضرور ہے کہ طلاق اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ عمل ہے۔اگر کوئی مسلمان ہے تو وہ اللہ کو مانے گا ہی،پھر کس طرح اور کیوں کر اپنے اللہ کو ناخوش کر سکتا ہے؟جہالت کہاں نہیں ہے؟جہالت تو پڑھے لکھوں میں بھی ہے۔اگر چند لوگ اس سسٹم کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں، تو اس میں اسلام کا کوئی قصور نہیں ۔مسلم خواتین کو مضبوط اور با اختیارکرنے کے نام پربی جے پی انہیں ورغلانے کا کام کر رہی ہے۔اس سے مسلم خواتین مضبوط تو نہیں ہوں گی البتہ’’ مسلم خاندانی سسٹم‘ ‘کا شیرازہ بکھر جائے گا اور بی جے پی شایدیہی چاہتی ہے کہ مسلمانوں کا ہر گھرانہ تباہ و برباد ہو جائے۔اگر عورتوں کو با اختیار ہی کرنا ہے تو انہیں تعلیم سے آراستہ کرو، عزت ِ نفس بچانے والے گُر سکھاؤ،جو تعلیم یافتہ مسلم خواتین ہیں ،انہیں نوکریاں ہی دے دو۔ان کے بچوں کی فیسیں معاف کر دو۔اگر تمہارے اندر مسلم خواتین کے تعلق سے اتنا ہی پیار اُمڈ آیا ہے تو جو فسادات میں بیوہ ہوئی ہیں ،جو لڑکیاں یتیم ہوئی ہیں انہیں ہی کچھ انصاف تو دلا دو۔آج تک شاہ عالم کیمپ میں خواتین پناہ گزین ہیں ،ذرا اُن کی داد رسی کر لو۔ان کو ان کے گھروں تک پہنچا دو۔مظفر نگر تو تازہ زخم ہے۔یہاں کے مسلم کش فسادات سے متاثر ہ خواتین کی باز آباد کاری ہی کر دو۔ذکیہ جعفر ی کو انصاف دلا دو۔جو لنچنگ اور لو جہاد کی راہ میں مارے گئے ہیںان کے افراد خانہ یعنی عورتوں کو نوکری دے دو ۔وغیرہ وغیرہ ،لیکن یہ سب نہیں ہوگا۔اس لئے راہل گاندھی صحیح کہتے ہیں کہ ’’مودی حکومت مذہبی معاملات پر نہیں بلکہ ملک کے مسائل پر توجہ مبذول کرے‘‘۔مسائل بے شمار ہیں،ان کو یہاں شمار کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ اب توانہیں ایک ایک شہری جان چکا ہے۔اور یہ ’’ٹرپل طلاق ‘‘نہ تو مسلمان ،نہ ہی مسلم خواتین اور نہ ہی ملک کا کوئی مسئلہ ہے۔اسے مودی حکومت خواہ مخواہ پیش کر رہی ہے۔اسے پتہ ہونا چاہئے کہ اس کے ایک ایک قدم کو عوام دیکھ رہے ہیں اور نوٹس لے رہے ہیں۔اب وہ مزید گمراہ نہیں کر سکتی۔اس لئے اسے چاہئے کہ اپنے بچے کھچے وقت کا مثبت استعمال کرے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں رابطہ9833999883)