حاجی غلام رسول بانڈے
انسان اللہ رب العزت کی از حد نہایت پر اسرار تخلیق ہے ۔ یہ کائنات کا وہ عظیم شہکار ہے جس کا کوئی متبادل نہیں۔چاہے مرد ہو یا عورت ، جوان ہو یا بچہ ، نحیف و نزار ہو یا تواناں و تندرست کل کائنات کا عالم اصغر یہی مشتہ خاک کا کچھ فٹ کا جیتا جاگتا پتلا انسان ہے۔اس کی عظمت کا سرنامہ ’’علم‘‘ ہے۔اس کی بنا پر حیوان ناطق ضرور ہے مگر جہالت کا ’’کھوبردار‘‘ وجود یعنی بے ہنگم غیر اہم عنصر۔ علم انسان کا تاج زرین ہے جس کے سر پر سجا انسان نافع ہوگیا ۔
جو لوگ علم کی خدمت کرتے ہیں،سماج کا نامیاتی جو ہر و عرق ہیں، انہی سے انسان زندہ جاوید ہےجو مر کر فنا نہیں ہوتا۔علم زبانی بھی ہے اور سماعی بھی ، قلمی بھی ہے اور قلبی بھی ،اللہ رب العزت نے جب فرش پر بسنے والے انسان کے ساتھ عرش سے رابطہ کیا تو کہا ’’پڑھ‘‘ اقراء ۔ جس نے ’’پڑھ‘‘ کو قلم سے قلم بند کیا تا ابد امر ہوگیا اور لوگوں کو وہ وراثت سونپی جو جتنی خرچ ہو اتنی وافر ہوتی جائے گی ۔یہی اس کی وہ خوبی ہے جو اور کسی شئ میں پائی نہیں جاتی۔اللہ رب العزت کے فیصلے عجیب ہوتے ہیں جن کی کُنہ کو سمجھنا انسانی عقل و ادراک سے وراءُالوراء ہوتی ہے۔ غالب کے بقول ؎
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
عزیزم سہیل بشیر کار انہی نفوسہ قدسیہ کے کاروان کا ایک صحت مند تواناں جوان ہے جس کی فکر صحیح ، تدبر سلامت، عمل لائق صد تحسین ہے،’’اللهم زدفزد‘‘۔ اللہ رب العزت اِیازدگی اور فراغت فرمائے۔سہیل بشیر کی تصنیف ’’صریر خامہ ‘‘کتابوں کے درمیان 360 صفحات پر مشتمل کتابوں کا تعارف ہے ۔ اس میں تنتالیس کتابوں کا نچوڑ اور عرق پیش کیا گیا ہے ۔ ایک ایسا مصنف جسکا مضمون سائنس (اگر پکلچر) رہا ہے پھر بھی اُردو زبان میں اتنی وقیع کتاب خدا کی قدرت کا انمول اظہار ہے ۔ مصنف عزیز القدر نے انتہائی نفیس عبارت میں کتابوں کو پڑھ کر ان پر اپنا تعارفی اثر بکھیرا ہے۔میں بذاتہ اس جوان کی صلاحیتوں سے پر لطف اثر حاصل کرکے روح کے اندر خدا کی ’’شانوں ‘‘ کی مٹھاس و حلاوت محسوس کیے بنا نہیں رہ پایا ۔ خدا کتنا عظیم ہے کہ اپنی عظیم و ضعیف مخلوق سے کیا کیا کام لے رہے ہیں ۔
سہیل نے جس طور کتابوں کا مطالعہ کیا ہے پھر اس کو کس انداز سے سمجھنے کی کو شش کی ہے، بعد ازاں اپنے تاثر کو کسی جاندار طریقے سے صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے بڑی خوبصورت نقش کاری ہے ۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اپنی کشت ویراں سے ان ابھرتے ، چمکتے ریزوں کی دھمک دلوں میں سوز و گداز پیدا کرنے کا ضرور باعث ہے مگر کوئی قدردان تو ہو سہی ،اسی کا رونا تو ہے مگر ۔ ہماری نئی پود کے لیے سہیل بشیر کار ایک بہترین نمونہ ہے جو مطالعہ کا از حد شوقین ہونے کے ساتھ ساتھ تحریر کا نفیس ملکہ بھی رکھتا ہے ۔کتاب کا قاری ہو کر کتاب شناس ہونا ہر کسی کا پارا نہیں ہوتا:
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
میں نے ’’صریر خامہ‘‘ روزانہ چالیس صفحات کے مقدار سے مطالعہ کی اور پوری کتاب نو دنوں میں اختتام کو پہنچی ۔میری طبعیت سکون و حلاوت سے لبریز رہی ،ایک نئی ہی حرکی ، تاریخی مذہبی ، ادبی ، سائنسی ، سیاسی، معاشی، معاشرتی تہذیبی دنیا میں پرگا ہی رہی ۔عجیب ہی عجیب کارخانہ قدرت کے محیر العقول دوائر میں کھوجتا رہے۔کہیں بحر ظلمات کی موجوں سے لڑتا رہے کہیں بدر و حنیں کی رزم گاہوں سے ظلم وعدوان کے استحصال کو مشاہدہ کرتا ہے۔تنقید و تحقیق کے میدانوں میں پھرتا رہے ، باطل قوتوں کی شکست و ریخت کے نظارے کرتا رہے، ستاروں سے اوپر ذہن کی پرواز کو محسوس کیا ۔
ان کتابوں کی سیر میں دنیا جہاں کے بے بدل شگوفوں کے ساتھ زہریلی خار زاروں میں بھی داخل ہوا اور خوشگوار و معطر ایمانی فضاؤں سے بھی لطف اندوز ہوتا رہا۔
مصنف نے جس انداز سے کتابوں کی سیر کرائی شاید اس جوان کی صلاحیتوں کو ’’قدرت حق‘‘ بلندیوں کی اتھاپہنائیوں میں لینے کے لیے اپنا سماوات پھیلا رہے ہے۔خدا کرے ہمیں ان جوانوں کی مخفی صلاحیتوں کے وہ بہار دکھائے جو خار زاروں کو بے بدل گلزاروں میں بدل دیں ۔ جہاں امن و سکون کے معطر شگوفے مشام جان کو آب حیات جیسی خوشبو عطا کریں۔خدا کرئے۔سہیل تیری ’’محنتوں‘‘ کو سلام ۔
یہ کتاب ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس دہلی نے عمدہ طباعت سے شائع کی ہے ،کتاب واٹس اپ نمبر 09891051676 سے حاصل کی جاسکتی ہے۔