انسان اپنے جذبات و احساسات کا اظہار مختلف طریقوںسے کرتا ہے جن میں ایک طریقہ تحریری تخلیق کاہے۔مراد یہ کہ انسان اپنے تخیلات،تجربات اور مشاہدات کو قلم کی زبان سے بیان کرتا ہے۔ادب کی تعریف مختصراََیہی کی جاتی ہے کہ اپنے جذبات کو مناسب و موزوں ترین الفاظ میں اظہار کرنا۔اب چونکہ ادب دو حصوں پر مشتمل ہے نظم و نثر تو ان کے فرق کو بھی سمجھ لینا ضروری ہے۔ نثر سادہ اور عام فہم الفاظ میں روانی کے ساتھ اپنے جذبات کی عکاسی کا نام ہے جبکہ نظم (شاعری)میں جذبات کی پیش کش کے لیے ہم آہنگ الفاظ(ردیف و قافیہ) ،موسیقیت اور ترنم کا لحا ظ رکھا جاتاہے۔
ادب کو بنیادی طور پر دو خانو ں میں تقیسم کیا جاتا ہے۔اول نثر اور دوم نظم (شاعری) ۔ کسی بھی سطح کے طلبہ کو پڑھاتے وقت پہلے ان کو اس بنیادی تفریق سے آگاہ کرانا ضروری ہے ۔جب طلبہ اس لایق ہوجائیں گے کہ وہ شاعری اور نثر کی تمیز کر سکیں گے،اس کے بعد ان کو مختلف اصناف ادب سے روشناس کرانا چاہئے۔چونکہ ہمارا موضوع’’ اسکولوں میں اُردو نثر کی تدریس کے جدید طریقے کار ‘‘تو یہاں ہماری توجہ اسی جانب ہونی چاہے ۔
کسی بھی موضوع کی تدریس کا آغاز کرنے سے پہلے طلبہ کو آمادہ کرنا ضروری ہے۔آمادگی تدریس کی پہلی اور لازمی شرط ہے۔کوئی بھی مضمون یا موضوع ہو جب تک طلبہ پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے استاد چاہے کتنا بھی اچھا پڑھائے وہ کامیاب نہیںہوسکتاہے۔جہاںتکاردونثرکاتعلق ہے اس کی مختلف اصناف داستان ،ناول، افسانہ،ڈراما،خاکہ،انشائیہ،سوانح وغیرہ کے بارے میں طلبہ کو بنیادی معلومات فراہم کرنی چاہیے۔
فرض کریں ہمارا سبق داستان ہے ۔جو کہ اُردو نثر کی ایک اہم صنف ہے۔اس کا طریقہ تدریس یہ ہونا چاہے کہ جب استاد کمرئہ جماعت میں داخل ہو گا ۔تو اپنے موضوع کی طرف طلبہ کو راغب کر نے کے لئے انہیں کسی کہانی کے بارے میں سوالات پوچھے۔مثال کے طور پر بچو کیا تم نے کوئی کہانی سنی ہے؟جنوں اور پریوں کی کو ئی کہانی سنی ہے کیا تم کو راجا مہارجوں کے واقعات کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟ اس طرح کے سوالات پوچھتے جائیں جب تک بچوں میںجاننے کا تجسس پیدا نہ ہواور وہ جاننے کے لئے پوری طرح آمادہ ہوں ۔اس وقت استاد اپنے موضوع کا اعلان کرکے ان کو متعلقہ موضوع کی تفصیلی جانکاری فراہم کرے گا۔یہاں استاد پہلے صنف کی شناخت،اس کے اجزائے ترکیبی ایک ایک کر کے سمجھائے ۔کیونکہ ہر ایک صنف ادب ایک دوسرے سے کسی نہ کسی صورت میں مختلف ہوتی ہیں ۔تدر یس نثر کے وقت استاد کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ طلبہ مختلف اصناف نثر کی شناخت کر سکیں۔داستان ناول اور افسانہ تینوں اصناف میں کہانی بیان کی جاتی ہے لیکن تینوں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ان تینو ں میں داستان کی خوبیوں اور اس کی تاریخ کے بارے میں مفصل معلومات سے طلبہ کو روشناس کرانا چاہیے۔ارد و کی اہم داستانو ں طلسم ہوش ربا،دساستان امیر حمزہ،باغ و بہار،فسانہ عجائب وغیرہ کے نام گنوانے چاہئے تاکہ بچوں میںدلچسپی قائم رہے۔اس کے بعد شامل نصاب داستان کے اسباق کی قرت کرنا شروع کرے ۔مشکل الفاظ کو تختہ ساہ یا سفید پر ساتھ ساتھ نوٹ کرتا جائے۔ایک پیراگراف ختم کرنے بعد اس کی تفہیم و تفسیر کرتا جائے ساتھ ساتھ طلبہ کی حاظری کے لیے دوران سبق کچھ پوچھتا بھی رہے جس سے سبھی طلبہ سبق کی طرف پوری طرح متوجہ رہیں گے۔آخر میں مشکل اور نامانوس الفاظ کے معنی بورڈ پر لکھے اور بچوں سے بھی نوٹ کروائے۔سبق کو اور زیادہ موثر بنانے کے لئے طلبہ میں سے کسی کو آخر میں مختصراََپوری کہانی سنانے کے لئے کہاجائے۔اس سے سبھی بچوں میں دلچسپی برقرار رہے گی اور یاد کرنے کا جذبہ بھی بڑھ جائے گا۔
اگر ناول کی تدریس مقصود ہے تو یہاں استاد کو پہلے داستان کے بارے میں بنیادی باتوں کا اعادہ کرنا ضروری ہے کیونکہ ناول کا آغاز داستان کے بعد ہوا ہے اور دونوں کی بنیاد کہانی پن پرہوتی ہے۔طلبہ کو اس مرحلے میں یہ معلو م ہونا چاہے کہ داستان اور ناول اُردو نثر کی دو مختلف اصناف ہیں۔داستان طویل قصے کو کہتے ہیں جس میں عموماََفرضی واقعات یا فوق الفطرت عناصر موجود ہوتے ہیں ۔جن سے حقیقی زندگی کا کو ئی تعلق نہیں ہوتاہے ۔جبکہ ناول کہانی کی وہ قسم ہے میں حقیقی زندگی کی عکاسی کی جاتی ہے۔ اس میں وہی واقعات پیش کیے جاتے ہیں جو ہماری زندگی سے مناسبت رکھتے ہیں۔اس بنیادی فرق کو ذہن نشین کرانے کے بعد استاد کو ناول کی صنفی شناخت اور اس کے آغاز و ارتقا ء کے بارے میں مکمل جانکاری بچوں کو فراہم کرنی چاہئے۔اُردو کی مشہور ناولوں مرات العروس ،فسانہ آزاد ،گودان، فردوس بریں ،امراو جان ادا ،وغیرہ کا مختصر تعارف پیش کرناچاہے۔ اس کے بعد شامل نصاب ناول کے حصے کو پڑھانا شروع کرنا چاہے۔سبق کو دلچسپ بنانے کے لیے ناول کے کسی حصے کو ڈرامائی انداز میں طلبہ کی مدد سے پیش کرنا چاہے۔اس حوالے سے میرا ایک ذاتی تجربہ بھی ہے کہ ایک جماعت میں میں نے شامل نصاب ناول کے ایک حصے کو مختلف طلبہ کی مدد سے ڈرامائی انداز میں پیش کرایا۔جس سے بچوں کی دلچسپی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
افسانہ بھی اس قبیل کی ایک جدید صنف ہے جس میں ہماری زندگی کا کو ئی واقعہ مختصر الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔اس کی تدریس میں بھی پہلے استاد کو چاہیے کہ وہ اس کی صنفی شناخت سے طلبہ کو واقف کرائے ۔اس کے بعد افسانہ کی تاریخ کے بارے میںتفصیلی معلومات فراہم کرے۔شروع کے ایک دو دنوں میں طلبہ متعلقہ صنف کے اسرار و رموز سے آشانہ ہوجائیں گے،اس کے بعد استاد کو شامل نصاب افسانہ کو پڑھانا چاہے۔اس میں بھی استاد ایک دن افسانہ کی کہانی کو طلبہ کی مدد سے ڈرامائی انداز میں پیش کرا سکتاہے۔جس سے طلبہ کی دلچسپی اور دوسری صلاحیتیں بھی ابھر سکتیں ہیں۔
خاکہ ،سوانح اور خودنوشت فکشن سے مختلف اصناف ہیں ۔ان کا تعلق انسانی زندگی سے براہ راست ہوتاہے۔ان کو پڑھاتے وقت بھی صنفی شناخت اور موضوعاتی تنویت سے طلبہ کو آگاہ کرنا چاہے تاکہ آگے چلے کر ان میں کسی قسم کی کمی نہ رہے۔خاکہ ،سوانح اور خودنوشت تینو ں کے دائرہ کار مختلف ہوتے ہیں۔ان کی تدریس کے وقت مختلف تاریخی شخصیات کے کارناموں سے اور ان کے حالات ِزندگی سے طلبہ کو واقف کرانا چاہیے۔اس سے ان میں کچھ کر گزرنے کی لگن اور آگے بڑھنے کا شوق پیدا ہوگا۔اگر مناسب ہو تو کسی تاریخی شخصیت کے مزار پر بھی طلبہ کا کسی دن لے جانا چاہیے۔
یہاں تک ہم مختلف اصناف کی تدریس کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔لیکن عملی صورت میں کلاس کے محدود وقت کے دوران ہمیں ان سبھی طریقوں پر عمل کرنا مشکل ہوجاتاہے۔لہٰذا جدید وسائل کا استعمال کرکے جدید طریقے اپنانا لا زمی ہوجاتا ہے ۔جن میں کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔سب سے پہلی چیز کلاس روم (کمر ئہ جماعت) میں جدید سہولیات دستیاب ہوں ۔انٹر نیٹ اور پروجکٹ بورڈ وغیرہ۔
۲۔استاذ متعلقہ موضوع پرپاورپوئنٹ پیشکش سے ذیادہ موثر انداز سے پڑھا سکتاہے۔کیونکہ جو بات کہنے اور دیکھنے دونوں میں آتی ہے وہ زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔
۳۔ طلبہ کی شراکت کسی بھی موضوع کی کامیاب تدریس کے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔لہٰذا طلبہ کو بھی ہفتہ وار رول نمبر کے مطابق ایک ایک موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کر نے کے لیے تیار کرنا چاہئے۔
۴۔ذخیرئہ الفاظ میں اضافہ کرنے کے لئے طلبہ کو پڑھائے گئے ابواب کی مشق کرانے کے لئے کہا جائے اور کسی دن صرف اسی کا امتحان لیاجائے۔اس سے طلبہ میں نئے اور نامونوس الفاظ یاد کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔
۵۔اسی طرح کسی دن صرف تلفظ اور صحت زبان پر مخصوص کلاس کا اہتمام کرنا چاہئے ۔اس سلسلے میں اسکول انتظامیہ کو اگر کوئی ماہر زبان بھی مدعو کرنا پڑے تو اور زیادہ بہتر ہوگا۔
۶۔وقفے وقفے سے ادبی نشستوں کا انعقاد کرنا چاہیے۔اس سے طلبہ میں آدب محفل اور تخلیق ادب کی جانب رغبت پیدا ہوگی۔
۷۔کبھی کسی نامور ادبی شخصیت پر دستیاب فلم کلاس روم میں دکھانی چاہیے۔
۸۔اسی طرح سال میں ایک دو مرتبہ کسی زندہ ادبی شخصیت کو اسکول میں مدعو کیا جانا چاہئے اور طلبہ سے متعارف کرانا چاہیے۔
۹۔بچوں کی تخلیقی صلاحیتو ں کو اُبھارنے کے لئے دورانِ سیشن تخلیق افسانہ یا تخلیق خاکہ نشست رکھی جائے۔جس میں پہلے سے موضوع دیا جائے اور طلبہ کو اپنے اپنے انداز میں اظہار کرنے کے لئے کہا جائے۔
۱۰۔ کلاس میں بحث و مباحث اور اظہار ِ رائے کے لئے ہمیشہ ماحول قائم کرنا چاہے۔اس سے طلبہ میں تنقیدی حس پیدا ہوگی اور
وہ مختلف اصناف کے بارے میں اپنی آرا ظاہر کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔
رابطہ۔۴۸،گنائی محلہ سامبورہ،پانپور پلوامہ کشمیر
موبائل نمبر۔7006402709