کچھ افسانے ایسے ہوتے ہیںجن میں زیادہ تر عبارت آرائی‘ زباندانی اور محاورات کی بھر مار ہوتی ہے۔ ایسے افسانہ نگاروں کو زبان پر کافی عبور حاصل ہوتا ہے اور وہ عبارت کو پر کشش اور پرلطف بنانے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ ان افسانوں میںتصوراتی، تخلیاتی اور موہوم موضوعات سمٹے ہوتے ہیں پڑھنے میں۔ بیشک بڑا لطف آتا ہے لیکن کچھ مدت کے بعد یہ لطف ‘ چاشنی اور مٹھاس معدوم ہوجاتی ہے کیونکہ ان میں کوئی مخصوص واقعہ یا مسایل ہی زیر بحث آتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں کہانی پن کا فقدان ہوتا ہے۔ اگر چہ ایسی کوشش زبان وادب کی خدمت گزاری اور نشو ونما میں کے لئے اہم سرمایہ ہوتی ہیں۔ لیکن تا اس کو ہم ادب برائے ادب کا ہی نام د ے سکتے ہیں۔ جس قاری کو ادب وزبان سے خاص شغف ہو وہی ایسے ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِلیکن عام قاری کو ان فن پاروں سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی ہے، اس لئے یہ ادب عمومی طور لائبریریوں اور الماریوں کی ہی زینت رہتا ہے۔
کچھ افسانے ایسے ہوتے ہیں جن کا تعلق براہ راست زندگی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان افسانوں میں سماجی، سیاسی، اقتصادی، اخلاقی اوررومانوی مسائل کو نہایت دلچسپ پیرایوں میں اُبھارا جاتا ہے یا ایسے دیگر فرضی، تمثیلی اور علاقائی مسائل، جن کا تعلق بنی نوع انسان کی فطرت اور جبلت کے ساتھ ہو، پر کشش انداز میں کہانیوں کی شکل میں صفحہ قرطاس پر اتارے جائیں تو ان افسانوں سے زبان وادب کی نشو ونما اور خدمت کے ساتھ ساتھ زندگی کے مسائل کو ابھارا جاتا ہے اور حتی المقدور ان کے حل اور علاج تلاش کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ چونکہ عام قاری کو خصوصاً کہانیوں کے ساتھ لگائو ہوتا ہے ،جو ایک فطری عمل ہے، اس لئے یک نہ شد د وشد کے مصداق زباندانی کے ساتھ ساتھ فرحت کا سامان اور سوسائٹی کی بہتری کی طرف لطیف اشارے ملتے رہتے ہیں۔ اس طرح افسانے کی افادیت اور اہمیت میں اضافہ ہوتارہتا ہے اور یہ ادب برائے زندگی میں شامل رہتا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دلنہ بارہمولہ کو ادبی دنیا میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس خوبصورت قصبے نے آج تک کئی نامور ادیبوں کو پروان چڑھایا ہے، جنہوں نے ریاست جموں وکشمیر کے علاوہ ملک کی ادبی دنیا میں بھی نام کمایا۔اس ادبی گہوارے کے نامور ادیبوں میں تنہا انصاری ‘قاضی منظور ‘نشاط انصاری ‘ قاضی ہلال ‘میر منظور ‘شیر علی‘سید محمد رضوی ‘رحمان ممتازؔ علی حسرت ؔاور شاہدؔ دلنوی دغیرہ شامل ہیں۔ ایف آزاد ؔدلنوی، جن کے افسانوی مجموعے ’’سکوت ‘‘ کی رسم اجرائی ہو چکی ہے، اسی قافلہ کے تازہ و اردان میں سے ہیں اور بچپن سے ہی ان ادبا کی صحبت میں پلے بڑھے ہیں۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا کے مصداق انہوں نے اپنے اسلاف اور مصاحب، ادبا کا رنگ پکڑ کر ادبی دنیا میں چھلانگ لگا ئی اور آجکل اس سمندر کی لہروں سے نبردآزما ہیں۔ ان کا دیدہ زیب افسانوی مجموعہ ’’سکوت‘‘تیس افسانوں پر مشتمل ہے۔ ہر افسانہ مختصر مگر جامع ہے۔ اپنے اندر ادبی خدمت کے ساتھ ساتھ موجودہ سماجی و ملکی مسائل کو سمیٹے ہوئے قارئین کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ زبان کے لحاظ سے یہ افسانے قابل فہم اور قابل ستائش ہیں۔ زبان نہایت شستہ، سلیس اور سادہ ہے، اسلوب بیان، طرز ادا کی شائستگی اور زبان کی پختگی کے احسان سے قاری محظوظ ہوتا ہے۔ اردو زبان میں لکھے گئے ان افسانوں کی خصوصیت ہے کہ یہ مختصر افسانے چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑے مسائل پیش کرتے ہیں۔ پڑھنے والا کسی کوفت ا ور اکتاہٹ کے بغیر مطالعے میں گم ہوجاتا ہے۔ تلخ حقائق کو پیش کرنے میںافسانہ نگار نے کسی پس وپیش سے کام نہیں لیا ہے بلکہ بیباکانہ انداز میں ان کی نقاب کشائی کی ہے۔ بیشک وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے باخبر بھی ہیں اور متاثر بھی اور یہیں سے اپناموضوع اخذ کرتے ہیں
افسانہ ’’بولتی تصویر ‘‘ کے ذریعے آزاد ؔ صاحب ایک دلخراش واقعے کی طرف سماج کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی انسان نما درندے دبوچ لیتے ہیں اورآبرو ریزی کرکے ان کی تکا بوٹی کرتے ہیں۔ انسانیت خون کے آنسوروتی ہے قانون کے پاسداروں کی غفلت شعاری اور سیاست دانوں کی سیاست کاری دیکھ کر والدین خود ہی ان کلیوں کو غیر محفوظ سمجھ کر انہیں نیست ونابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ افسانے کا ایک اقتباس
’’میرے سامنے میری ننھی سی بیٹی دوائی اور پانی کا گلاس لے کرکھڑی تھی۔ دوائی لے لو پاپا ،آپ کو جلد افاقہ ہوجائے گا ‘‘
میں پسینے میں تر بتر گھبرایا ہوا تھا نم دیدہ اپنی بیٹی کو کچھ دیر تکتا رہا۔ پھر اس کو اپنی باہوں میں لیکر پاگلوں کی طرح بوسے دیتا رہا او ر اس کے گول مٹول چہرے کوہاتھوں میں لیکر کہا ’’تم تو میرا چاند ہو‘‘ وہ توتلی زبان میںبولی ’’پاپا پھر تو میں آسمانو ں میں چلی جائوں گی۔‘‘ ’’ہا ں ہاں اب تو وہی ایک جگہ ہے جہاں تو محفوظ رہ سکتی ہے اور میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
افسانوی مجموعے کے ایک دوسرے افسانے ’’لاش‘‘میں تحقیقاتی اداروں اور لا اینڈ آرڈر کے محافظوں کی بے حسی اور خود غرضی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ماجد نامی ایک لڑکا پولیس آفیسر کو ایک جگہ پڑی لاش کے متعلق آگاہ کرتا ہے۔ لاش دیکھے بغیر ہی لا اینڈ آرڈر کے رکھوالے پکڑ دھکڑ شروع کرکے ہڑ بونگ مچاتے ہیں اور گھر گھر تلاشی لیتے ہیں۔ لاش کے بارے میں خبر دینے والے کو ہی ملزم ٹھہرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے حالانکہ لاش وہاں بے شک تھی مگر ایک جانور، جسکی کھال کھینچ لی گئی تھی۔
’سمٹتے دائرے ‘اور ’ٹائم ٹیبل‘ افسانوں میں ان والدین کی بے بسی اورکسمپرسی کو نمایاں کیا گیا ہے جواپنی جوانی، اپنا سرمایہ اور اپنی خواہشات، غرض اپنا سب کچھ لٹا کر اولاد کی پرورش کرکے انہیں پروان چڑھاتے ہیں اور انکو زندگی کی مقابلہ آرائی کے لئے لیس کرتے ہیں لیکن خود عمر کے آخری حصے میں بے سر وسامانی کی حالت میں اپنی اولاد کی بے توجہی اور لاپر وائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح افسانہ ’’بول دو امی‘‘میں ان عاقبت نا اندیش مائوں کی کارستانی اور خود غرضی بیان کی گئی ہے، جو اپنی من مانی اور جھوٹی شان قائم رکھنے کے لئے اپنی بیٹیوں کے لئے ایسے رشتے تلاش کرتی ہیں جو ان کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں۔ اپنی اوقات بھول کر ایسے رشتے جوڑنے کے لئے ایسے بے تکے شرائط رکھتی ہیںجو نا ممکنات میں ہوتے ہیں۔ اس طرح بیٹی بیاہ کی عمر کو پار کر جاتی ہے اور والدین ہاتھ ملتے رہتے ہیں، افسانہ ’’ انتظار‘‘ میں آزاد ؔ صاحب نے کشمیری پنڈتوں اور مسلمانوں کا روایتی میل جول نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ اگر چہ یہ میل جول اب ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے تاہم کہیں کہیں اب بھی اس کی باز گشت سنائی دیتی ہے ۔
آخر پرمیں اس مجموعے میں شامل افسانہ ’’سکوت ‘‘، جو اس کتاب کا نام بھی ہے، کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔ سکوت کے لفظی معنی ہیں خاموشی! سناٹا! لیکن مصنف نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس کوجمود اور جمائو کی اصطلاح میں پیش کیا ہے۔ جیسا کہ واضح ہے کہ شہر کے اطراف واکناف میں جمود اور جمائو چھایا ہوا ہے۔ خاموشی، سناٹے، بے حسی،بے بسی، ڈر اور خوف نے ڈھیرا ڈالا ہے اور آبادی کو اپنے شکنجے میں کس کے رکھ دیا ہے۔ پکڑ دھکڑ ہڈبونگ جاری ہے اُف کرنے کی اجازت نہیں ہے، حواس پر پہرہ ہے ہونٹ سی لئے گئے ہیں۔ بقول علامہ اقبالـؒ؎
یہ دستور زبان بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زبان میری
یہ حال دیکھ کر آزادملک کی آزاد فضائوں میں چلنے والی ایک انگریز خاتون جو اپنے ایشیائی شوہر کے ساتھ سسرال آئی ہے، اپنے شوہر عبدالوحید سے کہتی ہے
’’نو نو ۔۔مین ۔۔تم چیٹ ہو۔ تم بولا تھا کہ ہمارا شہر جنت ہے اور وہ کیاکہتے تھے تم ۔اگر فردوس بروئے زمین است۔۔ ہمیں است وہمیں است وہمیں است لوگوں کو ظلم سہتے ہوئے دیکھ کر کہتی ہے ۔‘‘
’’سب اندر ہی اندر گھٹ کے مر رہے ہیںمگر کوئی کچھ بولتا نہیں۔ پر ہیپس perhapsیہ گونگوں کا شہر ہے، کوئی ایک لفظ بھی بولتا نہیں ہے۔ میں یہاں پاگل ہوجائوں گی۔‘‘
آزاد ؔ صاحب ابھی جوان ہیں۔ ان کی وابستگی اردو زبان سے ہے۔ یہ ان کا سبجیکٹ ہے اور ذو ق و شوق سے اس زبان کا درس دیتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ مدھر اور میٹھی زبان کو سنوارنے اور سجانے میں تن من دھن سے مصروف رہیں گے۔ ہندو مسلمانوں اور دیگر طبقہ جات کی یہ مشترکہ زبان ایک قومی اثاثہ ہے، جس کی نشو ونما کرنا بالعموم ہم سب کا فرض ہے او ر بالخصوص ادباء شعراء پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس زبان کی تدوین ترویج میں اہم حصہ ادا کریں اور ودیعت شدہ مخفی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنی قلبی واردات کو تخلیقات کا روپ عطا کرکے ظاہر کریں، جیسا کہ دانائے راز حکیم الامت علامہ اقبال تحریک دیتے ہیں ؎
سحر در شاخسارے بوستانے
چہ خوش مے گفت مرغِ نغم خوانے
بر آورہر چہ اندر سینہ داری
فسرورے نالہء آہ وفغانے
���
تارزہ سوپور، کشمیر،موبائل نمبر؛9796953161