کشمیر میں سڑے ہوئے گوشت کی بازیابی کے پے درپے واقعات نے ذی جس طبقہ کی نیندیں اچٹ دی ہیں ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک4ہزار کلو کے قریب گوشت یا تو ضبط کیاجاچکا ہے یا پھر تلف کیاجاچکا ہے ۔اب تو پولیس چھاپوں سے بچنے کیلئے اس زہریلے دھندے سے جڑے لوگ ایسا گوشت از خود باہر ویران جگہوں ،سڑک کناروں یا ندی نالوں میں پھینک رہے ہیں۔ظاہری طور پر یہ گوشت بڑی بڑی پیٹیوں میں پیک ہوکر باہر سے کشمیر آتا ہے اور ان پیٹیوں پر نہ ہی اس گوشت کے بیچنے والا کا کوئی نام پتہ لکھا ہوتا ہے اور نہ ہی یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ گوشت کس جانور کا ہے اور آیا یہ حلال ہے یا حرام ہے ۔اتنا ہی نہیں ،یہ بھی نہیں لکھا ہوتا ہے کہ یہ گوشت کب پیک کیاگیا ہے اور یہ کب تک کھانے کے لائق رہ سکتا ہے ۔عمومی طور پر یہ کشمیر آتا رہا ہے اور یہ نہ صرف یہاں ہوٹلوں ،ریستورانوں اور خوانچہ فروشوں کو سپلائی ہوتارہا ہے بلکہ یہی گوشت انڈسٹریل علاقوں میں بڑے کارخانوںکو بھی سپلائی ہوتا رہاہے جہاں اس کے رستے ،کباب اور گوشتابے بنتے رہے ہیں اور وہ رستے ،کباب اور گوشتابے پھر پورے کشمیر سے لیکر جموں صوبہ تک ہوٹلوں اور ریستورانوں کے علاوہ خوانچہ فروشوں کو سپلائی ہوتے رہے ہیں۔
حکومت اب جاگ گئی ہے جب لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس گھنائونے دھندے کو طشت ازبام کیا ورنہ یہ دھندا یہاں سالہا سال سے چل رہا ہے اور شاید ہی کوئی گھر یا فرد بچا ہوگا جس نے اس گوشت کا مزہ نہ چکھا ہوگا۔حکومت سے جواب طلبی تو بنتی ہی ہے لیکن پہلے ہمیں اپنے گریباں میں جھانک لینا چاہئے ۔کشمیر کی99فیصد آبادی مسلم ہے ۔اس سڑے ہوئے گوشت کو یہاں لانے والے مسلمان ہیں ،اس کو سپلائی کرنے والے مسلمان ہیں ،اس کو ہوٹلوں اور ریستورانوں تک پہنچانے والے مسلمان ہیں ،ہوٹلوں ،ریستورانوں اور ریڑیوں پر لوگوں کو کھلانے والے مسلمان ہیں ،کھانے والے بھی مسلمان ہیں۔آخر کیا پوچھا جاسکتا ہے کہ محض چند ٹکوں کی خاطر مسلمان ہونے کے باوجود یہ لوگ اپنا ضمیر ہی نہیں بلکہ اپنا دین و ایمان کیوں بیچ رہے ہیں۔یہ محض دنیا وی فوائد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ براہ راست دین سے جڑا ایک شرعی معاملہ ہے کیونکہ اس گوشت کی شرعی حیثیت انتہائی مشکوک ہے اور معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ لوگ ہمیں گوشت کے نا م پر کیا مردار کھلا رہے تھے ۔کیا ہمارا معاشرہ اس حد تک گر چکا ہے کہ ہم چند پیسوں کیلئے ایک پورے معاشرے کے دینی معاملےکے ساتھ سمجھوتہ کرنے سے بھی عار محسوس نہیں کررہے ہیں؟۔ایسے لوگوں کی اس سماج میں کوئی جگہ نہیں ہے اور ایسے لوگوں کو نہ صرف بے نقاب کیا جانا چاہئے بلکہ اُن کا سوشل بائیکاٹ کیاجاناچاہئے ۔ان کی جگہ انسانی سماج میں نہیں بلکہ زندان خانوںمیں ہے جہاں انہیں درندوں کے ساتھ رکھا جانا چاہئے کیونکہ اُن کے کرتوت درندوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔
اب جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو حکومت تو اب تک اس معاملہ میں خاموش تما شائی بنی بیٹھی رہی ہے اور آگے بھی کچھ زیادہ امید نہیں کی جاسکتی ہے ۔یہ اچھا ہوا کہ عوامی دبائو میں آکر متعلقہ محکمہ حرکت میںآگیا ورنہ یہ محکمہ یہاں پہلے سے بھی موجود تھا اور محکمہ کو یہ کام پہلے ہی کرنا چاہئے تھا لیکن یہاں چونکہ سرکاری مشینری کو عادت ہے کہ جب تک اُنہیں جگایا نہ جائے ،وہ جاگنا نہیں چاہتے ،یہی حال فوڈ اینڈ ڈرگ محکمہ کا بھی ہے جو ہمیشہ برائے نام ہی ہے اور اب 12سو کلو گوشت کی ضبطی نے اس محکمہ کی لمبی نیند توڑ دی ہے لیکن یہ بیداری بھی زیادہ دیر رہنے والی نہیں ہے ۔اس کا اصل حل یہ ہے کہ لکھن پور میں اس کا تدارک کیاجائے جہاں سے یہ گوشت جموںوکشمیر میں داخل ہوتا ہے ۔سرکار کی ناک کے نیچے یہ سب یہاں ہوتا رہا ہے اور سرکار کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی ،یہ کیسے ممکن ہے ۔عین ممکن ہے کہ اس سارے گھنائونے دھندے میں سرکاری کارندے بھی ملوث رہے ہونگے ۔اس لئے یہ معاملہ ایک شفاف تحقیقات کا متقاضی ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے ورنہ اگر حسب روایت لیپا پوتی سے کام لیکر چند دن تک چھاپے ماری کی گئی اور معاملہ سرد ہونے کا انتظار کرکے معاملہ کو ہی گول کیاگیا تو یہی سمجھا جائے گا کہ ارباب بست و کشاد کو لوگوں کے صحت کی کوئی فکر نہیںہے۔