وادی ٔ کشمیر کے اطراف و اکناف کی کم و بیش اہم مصروف و معرو ف شاہراہوں اور بیشتر ترسیلی سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوفناک صوتِ حال کا موجب بن رہی ہیں۔آئے دن ٹریفک حادثات میں انسانی جانوں کے اتلاف اور مال و اسباب کے نقصانات کی جتنی بھی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں ،اُن میں سے زیادہ تر شاہراہوں اور سڑکوں خستہ حالی کار فرما ہوتی ہے۔جبکہ سڑکوں اور شاہراہوں کی یہ صورتِ حال مسافروں ،ٹرانسپورٹرںاور نجی موٹر گاڑیوں کے مالکان کے لئے بھی نہ صرف تکلیف دہ بلکہ نقصان دہ بھی ثابت ہورہی ہے۔ شہرو دیہات کے عوام کے ساتھ ساتھ دور دراز علاقوں کے باشندگان کے لئے بھی شکستہ حال سڑکیں باعثِ عذاب بنی ہوئی ہیں۔آج کے اس دورِ جدید میں جہاں انسان زمین پر بیٹھ کر چاند پر چندریان چلا رہا ہے ،سورج پر اپنے مشن بھیج رہا ہے ،گھر کی چار دیواری میں دنیا جہاں کی سیر کررہا ہےاور مشکل سے مشکل کام آسانی کے ساتھ انجام دے رہا ہے، وہیں وادیٔ کشمیر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانےکا مسئلہ دن بہ دن پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔قطع نظر اس کے کہ پہاڑ وں کے بیچ یا پہاڑیوں کے دامن میں موجود شاہراہیں اور سڑکیں برف باری اور بارشوں کے دوران ڈَھ جانے،پسیاں گِر آنے،چٹانیں گرنے اور زمین کھسکنے سے تباہ ہوجاتی ہیں اور کچھ وقفہ کے لئے ناقابل آمدرفت بن جاتی ہیںلیکن سطح زمین پر موجود اہم شاہراہیں اور سڑکیں کھنڈرات میں کیوں تبدیل ہوچکی ہیں، انتہائی تعجب خیز بات ہے۔ظاہر ہے کہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران مرکزی حکومت کی جانب سے ملک کے گوشے گوشے میںسڑکوں کا جال بچھانےکے تئیںجودعوے بار بار دہرائے جارہے ہیں،وہ ابھی تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پارہے ہیں،تاہم جتنی بھی سڑکیں تعمیر کی جاچکی ہیں ،اُن میں سے زیادہ تر سڑکیں خستہ حال پڑی ہوئی ہیں۔خصوصاًدور دراز دیہات اور پہاڑی علاقوں تک تعمیر کی جانے والی سڑکیں شکستہ صورت حال کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔اگرچہ دیہی سڑکوں کی تعمیر کا کام پردھان منتری گرام سڑک یوجنا (پی ایم جی ایس وائی)کے تحت کیا جاتا ہے،تو ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وادی ٔ کشمیر کے بہت سارے دیہی علاقے ابھی تک اس اسکیم سے کیوں محروم ہیں اور جہاں کہیں سڑکیں تعمیر بھی ہوئی ہیں، وہ کھنڈرات کیوں بنی ہوئی ہیں؟کہا تو یہی جارہا ہے سڑکیں ترقی کا اہم ذریعہ ہوتی ہیںلیکن ہمارے یہاں ترقی کا یہ ذریعہ بھی جانی و مالی نقصان اُٹھانےکے ساتھ ساتھ بہت مشکل اور عذاب دہ بنا دیا گیا ہے۔اگر شہر ِ سرینگرکی سڑکوں پر ہی نظر ڈالیںتوپچاس فیصد سڑکوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔جس کے نتیجے میں دس منٹوں کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوجاتا ہے۔یہ سڑکیں نہ صرف مسافروں،ٹرانسپورٹروں اور عام راہ گیروں کے لئے دردِ سَر بنی ہوئی ہیں بلکہ یہاں کے تاجروں ،کاروباری اداروں،دکانداروں اور سڑکوں کے قرب و جوار کی رہائشی بستیوں کے لئے نقصان سے دوچار کررہی ہیں۔ اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کے لئے بھی یہ سڑکیں باعث تکلیف بنی ہوئی ہیں۔ایک طرف جہاں حالیہ بارشوں کےنتیجے میں ان خستہ حال سڑکوں کی صورت حال مزید ابتر ہوگئی ہےوہیں دوسری طرف مختلف سڑکوں کی کھدائی اور اُن پر تعمیراتی میٹریل کی موجودگی سے بھی ان سڑکوں کی صورت حال ناقابل آمدروفت بن گئی ہیں،اور جہاں کہیں بھی ان کی تعمیر و مرمت کا کام شروع کیا گیا تھا،وہ بھی کافی عرصہ سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ رہا ہے۔سڑکوں اور شاہراہوں کی اس صورت حال نے ہر خاص و عام میں ایک عجیب سی گھٹن پیدا کردی ہے۔جہاں ملازمین مقررہ وقت پر ڈیوٹی پر نہیں پہنچ پاتے وہیں اسکولی بچوں کی گاڑیاں ،ہسپتالوں کی ایمبولنسیں بھی گھنٹوں تک درماندہ ہوکر رہ جاتی ہیں۔جس سے بچوں کی تعلیم کا نقصان ہورہا ہے،اور مریض وقت پر ہسپتال نہیں پہنچ پاتے ،بعض اوقات یہی صورت حال کئی مریضوں کے لئے جان لیوا بھی ثابت ہوجاتی ہے۔ اکثر جگہوں پر کھودی گئی سڑکوںکے اردگرد حفاظتی حصار کی عدم موجودگی کے باعث ایسی صورت حال بنی ہوئی ہے جو کسی بھی وقت حادثات کے موجب بن سکتی ہے۔متعلقہ محکموں کا یہی کہنا ہے کہ تین چار مہینوں کے اندر اندر شہر بھی کی تمام سڑکوں اورشاہراہوں کی تعمیر و مرمت کا کام مکمل کیا جائے گا ، اُن کا یہ کہنا کہاں تک صحیح اور سچ ثابت ہوگا ، یہ آنے والے تین چار مہینے کے بعد ہی پتہ چل جائے گا ۔