مالک بن دینار ؒ اپنے زمانے کے محکمہ پولیس میں اچھے خاصے منصب پر فائز تھے ،لیکن تھے پرلے درجے کے رشوت خور ،انتہائی کمینہ ،انتہائی نکما اور حد درجہ گھٹیا کردار کے حامل۔شادی کے بعد ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی ۔لاڈلی اور حسین و جمیل بیٹی۔بیٹی جب چلنے دوڑنے کی عمر کو پہنچی تو اس کا انتقال ہوا جس کا مالک بن دینارؒ کو اتنا دکھ ہوا کہ ننھی سی بچی کو بھولنے کی ہزار کوششوں کے باوجود اُسے بھول نہ پائے تھے اور لاڈلی بیٹی کی یاد سایہ کی طرح مالک بن دینارؒ کے قلب و ذہن پر چھائی رہتی۔غم و اندوہ کے اس عالم میں مالک بن دینارؒ نے ایک خواب دیکھا ۔خواب میں آپ نے اپنے آپ کو میدانِ محشر میں پایا ،سراسیمگی کے عالم میں آپ ؒ نے ایک بھیانک اژدھے کو اپنی طرف منہ کھولے ہوئے آتے دیکھا ۔آپ اژدھے سے بچنے کی کوشش میں دوسری جانب مڑے تو اژدھا اسی جانب اس پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا ۔اسی دوران ایک بوڑھے آدمی نے آپؒ کو اژدھا سے بچانے کی بے حد کوشش کی ، مگر اس کی کوشش بے سود ثابت ہوئی ۔خیر کسمپرسی اور لاچارگی کے اسی عالم میں آپؒ کے ایک جانب ابو !ابو!! کی ایسی آواز آپ کے پردۂ سماعت سے ٹکرائی کہ آپ ؒجان گئے کہ یہ آواز میری ہی بیٹی کی آواز ہے ۔اسی عالم میں آپ دیکھتے ہیں کہ آپ ؒ کی جاںبحق ہوئی بیٹی نے ایک ہاتھ آپ کی جانب بڑھایا اور دوسرے ہاتھ سے اژدھے کو دوسری طرف ہٹا دیا ،اس سے مالک بن دینارؒ خونخوار اژدھے کی گزندسے بچ نکلے ۔اژدھے کے غائب ہونے کے بعد مالک بن دینار ؒ کی پیاری بیٹی اسی طرح اپنے ابو کے گود میں بیٹھی جس طرح وہ زندہ ہونے کی صورت میں آپ ؒ کے آغوش میں بیٹھتی اور آپ سے باتیں کرنے لگیں جیسے وہ زندہ ہونے کی صورت میں اپنے ابُو سے باتیں کرتی۔ یہ سلسلہ کچھ دیر چلتا رہا تو بیٹی نے اپنے ابو سے کہا کہ میرے ابو!آپ کے برے اعمال نے لازوال اور ابدی دنیا میں خونخوار اژدھے کا روپ دھارن کرلیا اور جو بوڑھا آدمی آپ کی مدد کے لئے آپ کے دفاع میں آیا تھا وہ آپ کے نیک اعمال ہیں جو اتنے تھوڑے اور قلیل ہیں کہ ان اعمال نے اس ناتواں بوڑھے کی شکل اختیار کی ۔۔۔بیٹی نے اپنے ابو سے قرآن کی یہ آیت سنائی :’’کیا ابھی تک وہ گھڑی نہیں آئی ہے کہ اللہ کا ذکر سن کر مومنوں کے دل لرز جائیں اور نرم پڑجائیں‘‘(الحدید:۱۶)۔قرآن کی یہ ٓایت سن کر مالک بن دینارؒ نے اپنی بیٹی سے استفسار کیا کہ پیاری بیٹی ! کیا آپ یہاں قرآن پڑھتی ہیں۔بیٹی نے جواباً کہا کہ ہاں ،عالم برزخ میں ہمیں باقاعدگی کے ساتھ قرآن پڑھایا جاتا ہے؟۔۔۔۔ابو نے اپنی بیٹی سے پھر سوال کیا کہ بیٹی ! آپ یہاں کس جگہ رہتی ہیں؟ بیٹی نے ایک اونچی جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواباً کہا کہ اس اونچی جگہ کے اوپر ہمارا مسکن ہے اور وہاں ہم آپ کے ہمارے ہاں آنے کا انتظار کررہے ہیں۔اس گفتگو کے فوراً بعد مالک بن دینارؒ کی آنکھ کھلی او خواب میں اس منظر نے آپ کے قلب و ذہن پر ایسے نقوش مرتسم کئے کہ آپؒ کی کایا ہی پلٹ گئی اور آپ ؒ نے فوراًسچی اور پر خلوص توبہ کی ۔آپ ؒ اپنے گناہوں پر نادم و شرمسار ہوئے اور اللہ بزرگ و برتر کے ہاں توبہ قبول ہوئی ۔ آپ ؒ کی زندگی یکسر بدل گئی اور آپ اتنے نیک بنے کہ ان کا شمار اولیا ء اللہ میں کیا جاتا ہے ۔آپ ؒ ہمیشہ فرماتے کہ افسوس !جیتے جی لوگوں کو سب سے زیادہ میٹھی اور لذیذ چیز سے لطف اندوز ہونے کی سعادت نصیب نہیں ہوتی اور لوگ اسی عالم میں دوسری لافانی اور ابدی دنیا کی جانب کوچ کرجاتے ہیں۔سننے والے آپ ؒ سے سوال کرتے کہ وہ میٹھی اور لذیذ چیز کیا ہے ؟تو آپ ؒ جواباًفرماتے ۔۔۔معرفت الٰہی۔۔۔ ؎
اس دل پہ خدا کی رحمت ہو جس دل کی یہ حالت ہوتی ہے
اک بار خطا ہوجاتی ہے سو بار ندامت ہوتی ہے
رابطہ: 9906603748