ڈاکٹر محمد وسع ظفر
اللہ کا ارشاد ہے:’’اور مومنوں کو صرف اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے۔‘‘ (آل عمران) ایک جگہ فرمایا :’’اور اپنا بھروسہ صرف اللہ پر ہی رکھو اگر تم واقعی مومن ہو۔‘‘ (مائدہ) اور ایک جگہ یہ بشارت بھی دی ہے:’ ’ حق تعالیٰ شا نہ توکل کرنے والوں کو محبوب رکھتے ہیں۔‘‘ (آل عمران)
مومن کی چوتھی صفت زیر بحث آیات میںاقامت صلوٰۃ بتائی گئی ہے یعنی نماز کو قائم کرنا۔ نماز قائم کرنے سے مراد اوقات کی پابندی، کامل وضو، رکوع و سجود کی تکمیل، خشوع و خضوع کے لحاظ اور فرائض، سنن و آداب کی رعایت کے ساتھ نماز ادا کرنا ہے۔ علامہ ابن کثیرؒ نے اس سلسلے میں سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۳؍کے تحت عبد اللہ بن عباسؓ، قتادہؒ اور مقاتل بن حیانؒ کے جو اقول نقل کئے ہیں ان سب کا یہی خلاصہ ہے۔ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ اقامت صلوٰۃ کے حکم میں مداومت کا پہلو بھی مضمر ہے جس کا معنی یہ ہے کہ نماز اس فکر و اہتمام سے ادا کی جائے کہ اسے ترک کرنے کا تصور بھی ذہن میں باقی نہ رہے۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ اسے محافظت علی الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بعض علماء کا خیال یہ بھی ہے کہ نماز قائم کرنے سے مراد ذاتی طور پر نماز ادا کرنا ہی نہیں بلکہ اس بات کی کوشش بھی کرنا ہے کہ محلہ کے تمام افراد مسجد میں یکجا ہوکر جماعت کی پابندی کے ساتھ نماز ادا کریں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کوشش یہ ہو کہ نظام صلوٰۃ پورے معاشرے میںاس طرح برپا ہوجائے کہ مسلمانوں کے تمام شعبہ حیات کو متاثر کئے بغیر نہ رہے۔ گویا کہ ایک مومن سے نماز کے سلسلے میں یہ سارے توقعات وابستہ ہیں۔ قرآن کریم کی چند دوسری آیتوں میں بھی نماز کو اسلام کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً کافروں کے سلسلے میں اللہ کا ارشاد ہے:’’اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیںتو دین میں تمہارے بھائی ہیں۔‘‘ (التّوبۃ:)گویا اسلامی برادری میں کسی کی شمولیت کو تب ہی تسلیم کیا جائے گا جب وہ نماز قائم کرنے لگے۔ اسی طرح ارشاد ربانی ہے:’’اللہ کی مسجدوں کو تووہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔‘‘ (التّوبۃ)جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز کو ایمان کی علامت قرار دیا ہے، آپؐ کا ارشاد ہے: ’’ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز کا ترک کرنا ہے۔ ‘‘ (سنن الترمذیؒ) دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک آدمی اور شرک و کفر کے درمیان نماز کا ترک(حائل) ہے۔‘‘ (صحیح مسلمؒ) ایک اور روایت میںہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’وہ عہد جو ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان ہے نماز ہے، پس جس نے اسے ترک کر دیا اس نے کفر کیا۔‘‘ (سنن الترمذی)۔ امام ترمذیؒ نے عبداللہ بن شقیق عقیلیؒ سے روایت نقل کی ہے کہ اصحاب رسولؐ اعمال میںسے کسی بھی چیز کے ترک کو کفر نہیںسمجھتے تھے سوائے نمازکے۔(سنن الترمذی) گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ایسی قوم کا تصور بھی نہیں تھا جو نماز نہ پڑھے اور خود کو مسلمان سمجھے لیکن ہمارے زمانے کے لگ بھگ اسّی فیصد کلمہ گو نماز کے اہتمام سے غافل ہیں اور کامل مومن ہونے کا دعوی بھی رکھتے ہیں، انہیں اپنی اس حالت پر غور کرنا چاہیے۔
ایمان والوں کی پانچویں صفت مذکورہ آیات میں یہ بتائی گئی ہے کہ جو کچھ اللہ نے انہیںرزق دیا ہے وہ لوگ اس میں سے اللہ کی راہ میں محض اس کی رضاجوئی کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ایک صورت تو زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے رشتہ داروں، یتیموں، غریبوں، مسافروں، فقیروں، مسکینوں، بیکسوں، قیدیوں اور غلاموں کی مالی امداد کرنا ہے جس کا اشارہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۷۷؍، آیت نمبر ۲۱۵؍ اور ان جیسی چند دیگر آیات میں دیا گیا ہے۔ اس کی دوسری صورت ہے اسلام کو زندہ کرنے، اسے دوسرے تمام ادیان پر غالب کرنے اور اس راستے کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے جو کہ ہر ایک مومن کامطلوبہ مقصد حیات ہے، اپنے مال کو بے دریغ خرچ کرنا۔ اس کا اشارہ سورۃ الصف کی آیت نمبر ۱۱ ؍ ، سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۶۰؍ ، اور ان جیسی متعدد آیات میں ملتا ہے۔ سورۃ التوبہ کی ۱۱۱؍ویں آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ رب العزت نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ انہیں جنت ملے گی جس کا تقاضہ بھی یہی ہے ان چیزوں کو اللہ کے حکم کے مطابق اس کی راہ میں خرچ کیا جائے کیوں کہ یہ سب اسی کی امانت ہے۔ اب شہرت، ناموری اور ریاکاری سے دور رہ کر خلوص و للہیت کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ وہی شخص کرسکتا ہے جو واقعی مومن ہو، جسے جان و مال کے اللہ کی امانت ہونے کا احساس ہو اور آخرت میں اس کے انعامات کے وعدوں پر بھروسہ اور یقین ہو۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو کسی کے لئے بھی کسی نیک راہ میں مال خرچ کرنا آسان نہیں، اگر کرے گا بھی تو اس کا بدلہ کسی نہ کسی شکل میں اسی دنیا میں چاہے گا۔ مسلمانوں میں بھی بہت
سے مالدار لوگ ایسے ہیں جنہیں نہ تو ملت کے غرباء و مساکین کے اصلاح حال کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی تجدید و احیاء دین کی جب کہ منگنی، شادی بیاہ، برتھ ڈے، میرج ڈے وغیرہ کے نام پر لاکھوں روپے کی فضول خرچی بے دریغ کرتے ہیں۔ انہیںاپنا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے کہ کل بروز حساب خدا کو کیا جواب دیں گے اگر یہ پوچھ لیا گیا کہ میں نے تمھیں مال و دولت سے نوازا تھا ، تو نے اس کا کیا حق ادا کیا؟ ایمان والون کی مذکورہ پانچ صفات بیان کرنے کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ سچے ایمان والے وہی ہیں جو ان صفات سے متصف ہوں اور ان کے لئے ہی ان کے رب کے پاس بلند درجات ہیں، مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔ اب ان آیات کی روشنی میں ہم لوگوں کو اپنی حالت پرغور کرنا چاہیے کہ ہمارے اندر یہ صفات کس درجہ تک موجود ہیں؟ کیا اللہ کا ذکر سن کر واقعی ہمارے دل کانپ جاتے ہیں ؟ کیا قرآن کریم کی آیات پڑھ کر یا سن کر ہمارا ایمان واقعی میں بڑھ جاتا ہے ؟کیا واقعی ہم اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں ؟کیا ہم نماز کو قائم کرنے کی فکر کرتے ہیں یا کم از کم خود نماز کا اہتمام کرتے ہیں ؟کیا ہمارے اندر اللہ کی راہ میں اور دین کی سربلندی کے لئے اپنا مال خرچ کرنے کا جذبہ ہے ؟ اگر ان سوالات کا جواب اثبات میں ہے تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں ایمان کی حقیقت نصیب فرمادی اور اگر ان کا جواب نفی میں ہے یا ان میں سے کوئی صفت موجود نہیں تو ہمیں اس کو حاصل کرنے کی فکر میں لگ جانا چاہیے کیونکہ یہ ضعف ایمان کی علامت ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ نصیب کرے۔آمین