سچائی کواپنائیں اور جھوٹ سے پرہیز کریں

محمدشمیم احمد
اللہ کا بےپناہ کرم و احسان ہے کہ اس نے دنیا میں صدق یعنی سچائی جیسی عظیم صفت بھی پیدا کی ہے اور انسانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ سچائی کو اپنائیں،اوراس کواپناشیوہ بنائیں، اسی طرح اللہ نے جھوٹ کو بھی پیدا کیا مگر اس سے بے حد ڈرایا،اس سے دوررہنے کی تلقین کی اوراس کے برے نتائج سے بھی آگاہ فرمایا۔

اگر اللّہ کی جانب سے سچائی کو اپنانے اور جھوٹ سے پرہیز کرنے کا حکم نہ ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ،ہر انسان ایک دوسرے سے جھوٹ بولتا، ظاہر ہے کہ جھوٹ بولنا بے حد آسان ہوتا ہے جب کہ سچ بولنا بہت مشکل ہے، بہت زیادہ جاں گسل اور کٹھن ہے۔ سچ یا جھوٹ کی نوبت ہی اس وقت آتی ہے جب معاملہ پھنستا ہوا نظر آتا ہے، اور عموماً اس کے پیچھے کوئی ڈر اور کوئی خوف پوشیدہ ہوتا ہے، کہیں مال کے ضائع ہونے کا ڈر ،کہیں جان جانے کا ڈر ، کہیں لوگوں کی نظروں سے گر جانے کا ڈر، تو کہیں نوکری چلی جانے کا ڈروغیرہ وغیرہ، یہ ڈر اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ انسان سے جانے انجانے میں کوئی ایسا عمل سرزد ہو جاتا ہے جس کا اظہار معیوب ہو، یا اس کی وجہ سے کسی پریشانی کا اندیشہ لاحق ہو،اوروہ اس پریشانی سے بچنے کے لیے کوئی بہانہ تلاشتا ہو، کوئی خوبصورت سا بہانہ بنا کر اپنا دامن بچا لینا چاہتا ہو،ایسا کرنے پر وقتی طور پر تو وہ خود کو کامیاب تصور کرتا ہے، مگرجھوٹ تو جھوٹ ہے، اس کا پردہ کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں ضرورفاش ہو جاتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جھوٹ کا انجام بُرا ہوتا ہے۔جھوٹ سے جہاںاعتماد کاخاتمہ ہوجاتاہے، وہیں جھوٹ سےانسان اخلاقی معیارسے بھی گرجاتاہے۔جب کہ سچ سے آپسی اعتماد بحال ہوتاہے اور سچ سے انسان کوبلندی ملتی ہے۔جب انسان سچ کو اپناتاہے توفطری طور پر اس کے دل سے اللّٰہ کے سوا تمام لوگوں کا ڈر نکل جاتا ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اللّٰہ تو مجھے دیکھ رہا ہےجس کے سامنےجوابدہ ہوناہوگا۔ نتیجتاً ایسا انسان برائیوں سے بچ جاتا ہے۔ اللّٰہ نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:  ’’اے ایمان والو! اللّٰہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔‘‘[سورۂ توبہ:۱۱۸] 

 محسن انسانیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا۔سچائی ایسی صفت ہے جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یکساں طور پر تسلیم کی گئی ہے، اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی، اسی لیے شریعت اسلامیہ میں اس کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے اور ہر حال میں سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے۔ 

اسلام میں سچائی کی اتنی اہمیت ہے کہ ہر مسلمان کو سچ بولنے کے علاوہ اس کی بھی تاکید فرمائی گئی ہے کہ ہمیشہ سچوں کے ساتھ رہے اور سچوں کی صحبت میں رہے ۔حدیث پاک میں ہے کہ نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ایک موقع پر صحابہ سے فرمایا کہ ’’جو یہ چاہے کہ اللّٰہ اور اس کے رسولؐ سے اس کو محبت ہو، یا اللّٰہ اور اس کے رسولؐ اس سے محبت کریں تو اس کے لئے لازم ہے کہ جب بات کرے تو ہمیشہ سچ بولے‘‘۔ ایک اور حدیث میںنبی اکرم صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے فرمایا: سچائی اختیار کرو اگرچہ تمہیں اس میں بربادی اور موت نظر آئے۔ دراصل نجات اور زندگی سچائی میں ہے اور جھوٹ سے پرہیز کرو اگرچہ اس میں بظاہر کامیابی اور نجات نظر آئے کیونکہ جھوٹ کا انجام بربادی اور نامراد ہے۔سچ نجات کی کنجی ہے اور جنت تک پہنچانے والا ایک ایسا عمل ہے، جس کی فضیلت فرمان الٰہی اور ارشادات رسالتؐ میں ایک وسیع ذخیرہ ہمارے لئے مہیا ہے، اسلام کی نظر میں قول کی سچائی اُسی وقت قابل قبول ہے جب کہ عمل میں بھی اسی کی مطابقت ہو –۔

ایک روایت میں رسول اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے پوچھا گیا: اہل ِ جنت کی علامت کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا، سچ بولنا۔ اسی کے بالمقابل ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جھوٹ بولنا منافق کی نشانیوں میں سے ہے۔بلاشبہ سچائی ایک مسلّمہ اخلاقی قدر ہے، دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جس نے سچائی کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین نہ کی ہو اور دنیا کا کوئی معلّم ایسا نہیں جس نے سچ پرکاربندرہنے کادرس نہ دیاہو۔ سچ بولنے سے انسان کا دل مطمئن رہتا ہے، اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور اسے کسی قسم کا کوئی خدشہ نہیں رہتا ،اس کے برعکس جھوٹ بولنے والا ہمیشہ پریشان رہتا ہے اوراسے خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں اس کے جھوٹ کا پول نہ کھل جائے اور اسے ذلّت و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

سچ بولنے سے چہرے پر رونق و تازگی رہتی ہے اور جھوٹے آدمی کا چہرہ اس نور سے محروم ہوتا ہے،اس کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ واقعی سچے کے چہرے پر رونق دکھائی دیتی ہے اور جھوٹے کے چہرے پر لعنت برستی نظر آتی ہے، اور خود قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے کہ’’ جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘

لہٰذا جب انسان سچ بولتا ہے تو سچ کا راستہ اس کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی کا راستہ جنت کی طرف لے جاتا ہے اور بندہ سچ بولتا ہے یہاں تک کہ وہ اللّٰہ کے نزدیک سچّا لکھ دیا جاتا ہے۔اس لیے ہمیں سچ بولنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور اپنے ہر قول و فعل میں سچ کواپناناچاہئے، اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ سچّاشخص صدق کے درجہ سے صدیقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے،حدیث شریف میں ہے۔’’ سچااور امانت دار تاجر انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘ اب اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ چوبیس گھنٹے اس کی نیکی ہی لکھی جائے تواس کوچاہئے کہ وہ بازار یا دفتر یا کسی جگہ پر بھی بیٹھتا ہو، وہ سچائی اور امانتداری کی نیت کے ساتھ بیٹھے ، تو اللّٰہ کی رحمت سے یہ امّیدہے کہ جواجر مسجدمیں ملتاہے وہی اجر دکان اور دفتر میں بھی ملےگا۔

انسان کے تمام اخلاقِ رزیلہ میں سب سے زیادہ بری اور مزموم صفت’’جھوٹ ‘‘کی ہے۔ جھوٹ چاہے زبان سے بولاجائےیاعمل سے ظاہر ہوجائے ،بہرحال یہ تمام قولی اور عملی بُرائیوں کی جڑ ہےاور جھوٹے شخص سے محض جھوٹ بولنے کی وجہ سے دوسری کئی برائیاں لازمی طورپر صادر ہوجاتی ہیں۔اسی وجہ سے قرآن مقدّس میں اللّٰہ تعالیٰ نے ’’جھوٹ‘‘ کے ساتھ دوسری بھی کئی برائیوں کاذکر فرمایاہے۔چنانچہ ایک جگہ ارشادہے۔ ترجمہ:’’وہ[شیاطین] ہر ایسے شخص پر اُترتے ہیں جو پرلے درجے کا جھوٹا گنہگار ہو‘‘۔ اور حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے۔’’جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ میں لے جاتاہے اورآدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے یہاں جھوٹا لکھ دیا جاتاہے‘‘۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضور نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کہ ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں، ۱۔ جب بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا ،۲۔ جب وعدہ کرے گا تو اس کی خلاف ورزی کرے گا،۳۔اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے گی تو وہ اس میں خیانت کرے گا‘‘۔

بظاہرتو یہ تین مختلف باتیں ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک ہی کی تین مختلف صورتیں ہیں،جھوٹی باتیں کرناتو جھوٹ ہے ہی، مگر وعدہ کرکے اس کو پورا نہ کرنا ،اور امین بن کر امانت میں خیانت کرنا یہ بھی توایک قسم کے عملی جھوٹ ہی ہیں۔

جھوٹ بولنااتنی بُری چیز ہے کہ اس سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے،اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے فرمایا: ترجمہ ’’ جب بندہ جھوٹ بولتاہے تو فرشتے اس سےاس کے جھوٹ کی بو کی وجہ سے ایک میل دور چلےجاتے ہیں‘‘۔لہٰذا ہم سبھی مسلمانوں کو چاہئے کہ جھوٹ بولنےاور جھوٹی باتوں کے بیان کرنے سے بچیں،کیونکہ جھوٹ بولنامنافق کی نشانیوں میں سے ہے اورجھوٹ بولنے والا جہنّم کے سب سے نیچے طبقہ میں رہےگا۔اسی طرح سُنی سُنائی باتوں کوبغیرتحقیق کےبیان نہیں کرناچاہئے،کیونکہ اس طرح انسان بعض مرتبہ جھوٹ میں مبتلا ہوجاتاہے،اور حضور سرکار مدینہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ ہرسُنی سُنائی باتوں کو بیان کرتا پھرے‘‘۔

بہت سےلوگ دنیا میں ایسے بھی پائے جاتے ہیں جوبظاہرسچے معلوم ہوتےہیں مگرحقیقت میں وہ سچے نہیں ہوتے،بات کوگھماپھراکر سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں،مگر سچ کے پردے میں جھوٹ کوچھپانا سخت ترین گناہ ہے۔اس کے علاوہ جس بات کے کہنے سے کوئی فتنہ پیداہو،چاہے وہ بات سچ ہی کیوں نہ ہو،اُسے کہنابالکل ہی غیرمناسب ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیشہ سچ بولیں اور جھوٹ کبھی نہ بولیِں تو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اندرتقویٰ اور خشیّتِ الٰہی پیدا کریں،اس لئے کہ جس انسان کے بھی دل میں خوفِ خداوندی جاں گزیں ہوجائے،اوروہ صحیح معنوں میں اللّٰہ سے ڈرنے لگے تو وہ جھوٹ ہی کیا کسی بھی بُرائی کے قریب نہیں جائے گا۔

[email protected]