عظمیٰ نیوز ڈیسک
نئی دہلی// سپریم کورٹ آف انڈیا نے نجی ملکیت کے حقوق کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے اس فیصلے میں کہا کہ تمام نجی ملکیتیں کمیونٹی کے وسائل نہیں ہیں اور کچھ نجی ملکیتیں واقعی کمیونٹی کے وسائل ہو سکتی ہیں۔ یہ فیصلہ نو ججوں کی آئینی بنچ نے دیا ہے، جس نے 1978کے بعد سے کئی اہم فیصلوں کو تبدیل کر دیا ہے۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں 9ججوں کی بنچ نے اس سال یکم مئی کو اس معاملے کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ انہوں نے کہا، ہمارا ماننا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 31سی کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھا جانا چاہئے۔ اس فیصلے نے واضح کر دیا کہ حکومت تمام نجی ملکیتوں کا حصول نہیں کر سکتی۔سپر یم کورٹ نے کہا ہے کہ 1978کے بعد جو فیصلے سماجی انصاف کی بنیاد پر سامنے آئے تھے، ان کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا، سماجی فلاح کے نام پر حکومت تمام نجی ملکیتوں پر قبضہ نہیں کر سکتی۔ نجی ملکیتیں کمیونٹی کے وسائل نہیں ہیں اور اس حوالے سے پچھلے فیصلے درست نہیں تھے۔انہوں نے مزید کہا’’سماجی ملکیت کے فلسفے کا اثر 1960 اور 1970 کی دہائی میں تھا لیکن 1990 کی دہائی میں ہندوستان نے بازار کے اصولوں کی جانب پیش رفت کی۔ ہندوستان کی معیشت اب کسی خاص اقتصادی نظریے کی طرف نہیں جا رہی، بلکہ ترقی پذیر ملک کی ضروریات کے مطابق چل رہی ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے ملک میں موجود مختلف قانونی و سماجی مسائل کی طرف بھی اشارہ کیا۔ مختلف بنچز کی طرف سے آرٹیکل 39(بی) کی مختلف تشریحات نے اس مسئلے کو پیچیدہ بنا دیا تھا، جس کے نتیجے میں یہ بات واضح نہیں تھی کہ کیا چیز کمیونٹی کا وسیلہ سمجھا جا سکتا ہے۔اس فیصلے کے نتیجے میں حکومت کو اب اپنی نجی ملکیت کے حوالے سے اصلاحات کے لئے نئی راہیں تلاش کرنی ہوں گی۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مستقبل میں ملک کی معیشت اور ملکیتی حقوق کے حوالے سے ایک نیا باب کھولے گا۔
یوپی مدرسہ ایکٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ مسترد
یو این آئی
نئی دہلی//سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے 22 مارچ 2024 کے فیصلے کومنگل کو مسترد کر دیا، جس میں ‘اتر پردیش مدرسہ ایکٹ 2004’ کو غیر آئینی اور سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے انجم قادری اور دیگر کی طرف سے دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ ایکٹ اتر پردیش میں تعلیم کے معیار کو ریگولیٹ کرتا ہے۔بنچ نے کہا، اقلیتوں کو تعلیمی اداروں کا نظم و نسق کرنے کا حق مطلق نہیں ہے اور ریاست اس طرح کی تعلیم کے معیار کو ریگولیٹ کر سکتی ہے۔بنچ نے قانون کی درستگی کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ مدارس کو ریگولیٹ کرے تاکہ وہاں تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔ عدالت نے کہا کہ یہ ایکٹ ریاست کو معیارات طے کرنے کے لیے قواعد بنانے کا اختیار دیتا ہے۔تاہم بنچ نے کہا کہ ایکٹ، جس حد تک ‘فاضل اور ‘کامل ڈگریوں کے حوالے سے اعلی تعلیم کو ریگولیٹ کرتا ہے، وہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) ایکٹ سے متصادم اور کسی حد تک غیر آئینی ہے۔قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے 22 اکتوبر کو اس معاملے میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ عدالت نے تب کہا تھا کہ ملک میں مذہبی تعلیم کبھی بھی لعنت نہیں رہی ہے۔
انصاف کی جیت ہوئی: محمود مدنی
یو این آئی
نئی دہلی//صدر جمعیت علما ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے یوپی مدرسہ بورڈ کی قانونی حیثیت کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے مدرسہ کمیونٹی کیلئے انصاف کی فتح قراردیا ہے ۔اس امر کا اظہار انہوں نے جاری ایک بیان میں کیا۔مولانا مدنی نے اس فیصلے کو خوش آئندبتاتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ہندستانی مسلمانوں اور خاص طور پر مدرسوں سے وابستہ افراد کے لیے تسلی بخش اور حوصلہ افزائی کا باعث بھی ہے۔ ہم اسے صرف مدرسہ بورڈ کے تناظر میں نہیں دیکھ رہے ہیں، بلکہ اس میں مدرسوں کے خلاف منفی مہم چلانے والے سرکاری اور غیر سرکاری عناصر کے لیے ایک واضح پیغام بھی پوشیدہ ہے جو ملک کے آئین کی پروا کئے بغیر ایک تعلیمی نظام کے سلسلے میں شب و روز جھوٹا پروپیگنڈا چلاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ لگاتار شکایت رہی ہے کہ نچلی عدالتیں اپنے فیصلوں میں توازن برقرار رکھ نہیں پاتیں اور اکثر پولس اور سرکاری موقف پر فیصلہ کرتی ہیں ۔ آج سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو بدل کر آئینی اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنایا ہے۔واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ نے اپنے تا ریخی فیصلے میں اتر پردیش مدرسہ بورڈ کی قانونی حیثیت پر مہر لگادی ہے اور الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کومسترد کرتے ہوئے اس کی قانونی حیثیت برقرار رکھی ہے۔مولانا محمود مدنی نے چیف جسٹس کے اس تبصرے “جیو اور جینے دو” پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس جملے کی گہرائی سمجھنا ہر ہندوستانی کے لیے ضروری ہے۔ اس فیصلے سے ملک میں ایک پیغام جانا چا ہیے کہ ملک کے سبھی طبقے کو جینے کا یکساں حق حاصل ہے، بالخصوص آج مسلمان جس طرح خود کو علیحدہ اور بے بس محسوس کررہا ہے۔