سُستی ،ٖغفلت ،بزدلی اور کہالت | ڈپریشن کی علامت بن جاتی ہیں

فہم و فراست

فاروق احمد انصاری

میری کونڈو ’ڈی کلٹرنگ‘ کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ وہ گھر کی تمام اشیاء کو نظم و ضبط سے رکھنے اورفالتوسامان کو ٹھکانے لگانے کے لیے بہترین مشورے دینے کی وجہ سے ہردلعزیز ہیں۔ میری کونڈو صرف گھر کی صفائی، نظم وضبط یا ڈی کلٹرنگ کو ہی فروغ نہیں دیتیں بلکہ وہ جذباتی نکتہ نگاہ سے بھی خواتین کے مسائل حل کرنے کیلئے کوشاں رہتی ہیں۔ جاپان کی اس مشہور مصنفہ کی ڈی کلٹرنگ کے حوالے سے انسٹاگرام فیڈز سے سبھی مستفید ہوتے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ صفائی کی اہمیت کے حوالے سے انسٹاگرام پرکلینز اسپو(cleanspo)کے نام سے ایک مہم بھی دیکھنے میں آئی، جس میں خواتین نے اپنے گھر وںمیں کی جانے والی صفائی، فالتو سامان کو ٹھکانے لگانے اور ڈی کلٹرنگ کے حوالے سے اپنے تجربات تصاویر کے ساتھ شیئر کیے۔

’’ٹائڈنگ اَپ وِد میری کونڈو‘‘ کے نا م سے نیٹ فلکس پر شوکرنے والی میری کونڈو کا طریقہ ’کون میری‘ کہلاتاہے ، جس پر عمل کرکے واشنگٹن ڈی سی میں لوگوں نے اپنا فالتو سامان باہر نکال کر عطیہ کرنا شروع کیا۔ بہت سی خواتین نے جب میری کونڈو کے مشورے پر عمل کرکے فالتو سامان سے جان چھڑائی تو انہیں اس عمل میں اپنی مشکلات اور ذاتی چیلنجز سے نمٹنے میں بھی بہت مدد ملی۔

ایک خاتون کا کہنا تھا،’’پچھلے سال میرا ڈپریشن ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھااو ر اس وجہ سے میں نیویارک میں اپنا چھوٹا سا اپارٹمنٹ بھی منظم نہیں کرپارہی تھی۔ میں کوئی سست کاہل عورت نہیں ہوں، لیکن اپنی الماریوں کو کھنگال کر اس میں دوبارہ کپڑے سیٹ کرکے ڈالنامیرے لیے ایک امتحان تھا۔ میں نے زیادہ تر کپڑے اٹھا کر باہر پھینکے اور صرف پہننے کے ضروری کپڑے رکھ لیے۔تب مجھے احساس ہوا کہ میرا ڈپریشن کافی حد تک کم ہوگیاہے‘‘۔

اسی طرح ایک خاتون نے گھر کی اشیا ءکو پالش کر کے پریشانیوں اور گھبراہٹ سے نجات پانے کی کوشش کی جبکہ ایک لڑکی جو شادی کے ختم ہونے کےبعد ذہنی دبائو کا شکار تھی تو اس نے مہنگے طریقہ علاج پر پیسہ خرچ کرنے کے بجائے محض صفائی کو ترجیح دی او ر ڈپریشن سے نجات حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہی۔

ان خواتین کے تجربات کی روشنی میں جب سائنسی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ ترتیب اور نظم وضبط میں ایک سکون ہے۔ کیلیفورنیا کی یونیورسٹی آف سدرن میں نفسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ڈوربی کے مطابق، جن خواتین کے گھروں میں کھچا کھچ سامان بھرا رہتا ہے، وہ زیادہ ڈپریشن کا شکا ر ہوتی ہیں بنسبت ایسی خواتین کے جن کے گھر صاف ستھرے ہوں یا سامان ترتیب سے رکھا ہوا ہو۔ یعنی جب خواتین کو لگتاہے کہ ان کا گھر بے ترتیب اور گندہ ہورہا ہے تو ان میں کورٹیسول نامی ہارمون کی شرح بڑھ جاتی ہے، جس کا تعلق اسٹریس/ڈپریشن سے ہوتا ہے ۔ان نتائج کو دیکھتے ہوئےایک خاتون نے اپنا تجربہ شیئر کیا کہ جب ڈھائی برس قبل ان کے والد کا اچانک انتقال ہوگیا تو انہیں جاپانی مصنفہ میری کونڈو کی شہرہ آفاق کتاب The Life Changing Magic of Tidying Up پڑھ کر غیر متوقع سکون نصیب ہوا، کیونکہ والد کو کھونےکے
بعدوہ اپنے کیریئر کیلئے پریشان تھیں، ان پر یہ بہت مشکل وقت تھا۔

ان سے اپنی دلچسپی کے ناول بھی نہیں پڑھے جارہے تھے، یہاں تک کہ اپنی مدد آپ کے موضوع پر جو کتابیں دستیاب تھیں، انہیں پڑھنے میں بھی ان کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ ایسے میں میری کونڈو کی کتاب پڑھ کر ان کی زندگی سے ذہنی دباؤ کم ہو ا۔ انہیں ایسا لگا جیسے بچوں کیلئے کوئی کہانی لکھی گئی ہو۔

دراصل میری کونڈوا پنی کتاب میں بتاتی ہیں کہ زندگی کے روزمرہ معاملات کو سادہ طریقوںسے کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ آ پ گھر کا کوئی چھوٹا موٹا کام کامیابی سے انجام دیتی ہیں تو یہ چھوٹی کامیابی چھوٹی سی خوشی میں ڈھل جاتی ہے اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں آپ کے ڈپریشن کو دور کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

میری کونڈو لکھتی ہیں، جب آپ سامان کی چھانٹی کریں اور تلف کرنے کیلئے کسی چیز کا انتخاب کریں تو اس چیز کا ’شکریہ‘ ادا کریں کہ اس نے کافی عرصے آپ کا ساتھ نبھا یا۔ جب آپ اپنی امی یا ابو کی کوئی چیز تلف کرنے کے بجائے اسے سنبھال کر رکھنے لگتی ہیں تو اس چیز سے وابستہ خوشگوار یادیں آپ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہیںاور آپ اپنی پریشانی وقتی طور پر بھول جاتی ہیں۔زیادہ ترلوگوں کے گھر میں کوئی نہ کوئی دراز ایسی ہوتی ہے، جس میں کاٹھ کباڑ جمع ہوتا ہے۔ اس میں ایسی تمام چیزیں ہوتی ہیں، جن کی فوری ضرورت نہیں ہوتی مگر مستقبل میں کام آجانے کے امکان کے پیش نظر انھیں جمع کرلیا جاتا ہے۔ ایسے کسی بھی کاٹھ کباڑ سے بچیں اور ہرچیز کے لئے جگہ بنائیں۔ زندگی بہت قیمتی ہےاس کو کاٹھ کباڑ کی درازوں پر ضائع مت کریں۔ آپ جب گھر کے کاٹھ کباڑ کو باہر پھینکیں گی تو آپ کے دماغ کی منفی سوچیں بھی اس کاٹھ کباڑ کے ساتھ باہر چلی جائیں گی۔