شہرت کی بھوک اور اخبارات و میڈیا میں کوریج پانے کی چاہ جب حدسے گز ر جاتی ہے تو لالچی انسان کو یہی چاہ بیشتر معاملے میںچڑ چڑا اور مجنوں بنادیتی ہے ،شہرت کی چاہت کا بیمار مریض ہمیشہ اسی تاک میں رہتا ہے کہ کب موقع ملے اور وہ کوئی متنازعہ تذکرہ چھیڑ کر خود کو موضوع گفتگو بنانے میں کا میابی حاصل کرلے ۔شہرت کی ہوس اس قدر خطرناک بیماری ہے کہ اس کا شکار مریض دو بھائیوںکے اجتماعی آنگن میں نفرت کی دیوار کھڑی کرنے میں بھی کوئی جھجھک یا شرم محسوس نہیں کرتا۔اس کی ناجائز ہوس کنبہ کو ہی نہیں بلکہ دو محلے ،دوگاؤں ،دوشہر، دو ریاستیں حتیٰ کہ دو ملکوں اورمذہبوںکے درمیان جنگ کرانے کی سازش سے بھی گریز نہیں کرتی ،جس کے نتیجے میں کئی نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں ،بے گناہوں کا قتل عام ہوجا یا کرتا ہے،جوان بہنیں اور بیٹیاں بیوہ بنادی جاتی ہیں،لاکھوں کی تعداد میں معصو م بچے یتیم کردیے جاتے ہیں اور ساری کلفتوں سے شہرت کے لالچی فرد کو بے انتہا سکون ملتا ہے۔البتہ اگر اسے شہرت کی بھوک مٹانے کا کوئی راستہ نہ ملے تو ایسا شخص کتے والی کھجلی کا مریض بن جا تاہے اور وہ پورے اپنے جسم کو جہاں تہا ں کھجاتا نظر آ تا ہے۔چونکہ ہوس کی بھوک کے انتہائی شکار گلوکار سونو نگم کو کافی دنوں سے اپنی بھوک مٹانے کا کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا تھا،اس کے نتیجے میںانہیں گزشتہ کئی برس سے کتے والی کھجلی کا مرض بھی لاحق ہوگیا تھا ،لہٰذا انہوں نے اس کے علاج کیلئے مسجد اور اذان کا انتخاب کرلیا ،جس کا وہ اپنے دیوالیہ دماغ کے علاج میں بھی استعما ل کررہے ہیں۔اسے کہتے ہیں ’’ایک پنتھ دو کاج‘‘۔یہ وہ حقائق جو تشخیص اور مرض کی جانچ کے بعد برآمد ہوئے ہیں، جسے بیان کرنا اس لئے ضروری ہے کہ ایک مجنون کی بڑ بڑاہٹ پر زیادہ توجہ دینے اور اس کے بیان پر اپنی انرجی ختم نہ کی جائے ،بلکہ ’’اور بھی کام ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ کے مصداق اپنی توانائی ملت اور مذہب اسلام کو درپیش اہم مسائل کے ازالے میں صرف کی جائے کیوں کہ مسلم رہنماؤں کیلئے وقت کا تقاضا یہی ہے۔یہ مشورہ دینا اس لئے ضروری ہے کہ جب سے ’’بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے مشہور گلوکار سونو نگم نے ٹوئٹر پر کہاہے کہ اذان کی آواز سے ان کی نیند خراب ہو جاتی ہے،جب کہ بی بی سی کے جانباز صحافیوں اور رپورٹروں کا دعویٰ ہے کہ جہاں سونو نگم رہتے ہیں، وہاں تک تو اذان کی آوازہی نہیں پہنچتی،مگرواقعہ یہ ہے کہ سونونگم کے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ہنگامہ ہوگیاہے اور اچھے بھلے سنجیدہ قسم کے مسلمان بھی اس فالتو کی جگ ہنسائی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔سونو نگم پر تنقید کرنے کیلئے کافی لوگ موجود ہیں اور اسی طرح کانگریس کے وظیفہ خوا ر احمد پٹیل کو مسکت جواب دینا بھی تضیع اوقات سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا،اس لئے احمد پٹیل جیسے متضاد لوگوں کو ہندوستان کے مسلمان 1992میں رد کر چکے ہیں۔سوشل سائٹس پر اسی وجہ سے احمد پٹیل کو زیادہ توجہ نہیں دی گئی ،احمد پٹیل پر اس لئیبھی فوکس نہیں رکھا گیا کہ انہوں نے اور ان جیسے بیشتر لامذہب نیتاؤں نے ہمیشہ ایمان اور اسلام پر اپنے سیاسی مفادات،اپنی پارٹی اور شہرت کی بھوک مٹانے کی ترا کیب کو ہمیشہ اہمیت دی ہے۔پٹیل صاحب سو نو نگم کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے انہوں نے مساجد سے لاوڈاسپیکر پر صبح صبح ہونے والی اذان کے سلسلے میں گلوکار سونو نگم کے مجنونانہ اعتراض کی حمایت کی ہے ۔کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر مسٹر پٹیل نے آج ٹویٹ کر کے کہا، ''اذان نماز کا اہم حصہ ضرور ہے لیکن جدید تکنیکی والے آج کے دور میں لاوڈاسپیکر کی ضرورت نہیں ہے ''۔واضح رہے کہ مسٹر نگم نے ٹویٹ کرکے اذان کی وجہ سے ان کی نیند میں خلل کے بارے میں اعتراض کیا تھا۔ اس ٹویٹ کے بعد سوشل میڈیا پر تنازع ہوگیا تھا اور آج اخبارات میں بھی اس سلسلے میں خبریں نمایاں طور پر شائع ہوئیں۔مسٹر پٹیل کی ٹویٹ سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ کانگریس پارٹی بھی لاوڈاسپیکر کے ذریعے مساجد سے ہونے والی اذان سے لوگوں کو ہو نے والی تکلیف کے سلسلے میں فکر مند ہے ۔مسٹر نگم نے ٹویٹو میں کہا تھاکہ خدا سب پر مہربانی کرے ، میں مسلمان نہیں ہوں اور صبح میری نیند اذان سے کھلی، ملک میں کب تک مذہبی رسم و رواج کو زبردستی ڈھونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ تین دیگر ٹویٹوں میں بھی مسٹرنگم نے خاصااعتراض کیا تھا۔ آخری ٹویٹس میں تو موسیقی کے سمع خراش شور سے پیٹ پالنے والے گلوکار نے اسے جرم تک بتایا۔ سوشل میڈیا پر مسٹر نگم کے اس ٹویٹ کے بعد کئی لوگوں نے لاوڈسپیکر کے ذریعے جاگرن پر بھی اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے شور سے محلے میں امتحان کے دوران طالب علم بھی متاثر ہوتے ہیں۔ان کے الفاظ کے انتخاب پر تنقید بھی ہوئی لیکن بہت سے لوگوں نے ان کے بنیادی پیغام سے اتفاق بھی کیا۔پھر سونو نگم نے وضاحت کی کہ وہ صرف مساجد میں نہیں بلکہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال کے خلاف ہیںلیکن سوال یہ ہے کہ کیا سونو نگم کے گھر اذان کی آواز پہنچتی ہے اور اگر ہاں تو کیا واقعی اس سے کسی کی نیند خراب ہو سکتی ہے؟جب اس کی سچائی تک پہنچیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سونو نگم کا یہ بیان غیر جانبداری یا حق گوئی پر مبنی نہیں بلکہ یہ بیان کسی منظم بھگوا سازش کا نتیجہ ہے،جس کا ایک مہرہ کانگریس کا چمچہ احمد پٹیل بھی ہوسکتے ہیں۔
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے میں کچھ روز قبل اذان کے وقت سے پہلے ہی ممبئی میں سونو نگم کے گھر کے قریب جا کر کھڑی ہوگئی۔وہ ورسووا میں رہتے ہیں۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ عام طور پر انتہائی مصروف رہنے والی ممبئی کی سڑکیں خالی پڑی تھیں لیکن اس خاموشی میں بھی سونو نگم کے دو منزلہ مکان کے باہر صحافی پورے ساز و سامان کے ساتھ موجود تھے۔گھر کی تمام لائٹیں بند تھیں اور باہر سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے پولیس کی ایک گاڑی بھی موجود تھی۔سونو نگم کے گھر کی بائیں جانب تقریباً آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر مدرسہ تعلیم القرآن ہے، جہاں فجر کی اذان پانچ بج کر بیس منٹ پر ہوئی۔میری طرح باقی دوسرے صحافی بھی اذان کی آواز کا انتظار کرتے رہے لیکن رات کی خاموشی نہیں ٹوٹی۔ ممبئی میں فجر کی اذان پانچ بج کر چار منٹ پر ہوتی ہے لیکن میں آدھا گھنٹہ اور بیٹھی رہی۔آہستہ آہستہ باقی صحافی وہاں سے چلے گئے۔ دن نکلنے لگا تو میں نے بھی اپنا سامان سمیٹا، تب تک ٹریفک کے شور کے علاوہ میں نے کوئی دوسری آواز نہیں سنی تھی۔مقامی لوگوں سے معلوم ہوا کہ اس علاقے میں تین مساجد ہیں اور تینوں سے سونو نگم کے گھر سے تقریباً 600 میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔سونو نگم کے گھر کی بائیں جانب تقریباً آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر مدرسہ تعلیم القرآن ہے، جہاں فجر کی اذان پانچ بج کر بیس منٹ پر ہوئی۔مسجد کے ایک منتظم نے بتایاکہسونو نگم دو چار سال پہلے ہی یہاں رہنے آئے ہیں اور یہ مدرسہ 30 سے 35 پینتیس سال سے قائم ہے۔اب سے پہلے کبھی کسی نے اذان کی آواز کے بارے میں شکایت نہیں کی، سونو نگم جہاں رہتے ہیں ،وہاں ہمارے مدرسے کی اذان کی آواز جاتی بھی نہیں ہے، یہ صرف ایک پبلسٹی سٹنٹ ہے۔سونو نگم کے گھر کی دائیں جانب بھی دو مدرسے ہیں۔ ان میں سے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ وہاں لاؤڈ سپیکر استعمال نہیں کیا جاتا، جب کہ دوسرے نے کہا کہ ان کے یہاں اذان آج سوا پانچ بجے ہوئی تھی۔اس مدرسے میں میری ملاقات ایک شخص سے ہوئی جنہوں نے اپنا نام غلام بتایا۔ انہوں نے کہا’’سونو نگم‘‘ پہلے رات بھر جاگرن (ہندو مذہبی تقریب) میں گانا گایا کرتے تھے، وہ بھول گئے ہیں کہ اس وقت کتنے لوگوں کو تکلیف ہوئی ہوگی۔ اب نئے گائیک آ گئے ہیں اور انھیں کام نہیں ملتا۔میں نے سونو نگم کے بنگلے کا رخ کیا۔ وہاں قریب ہی ایک عمارت میں لتا سچدیوا رہتی ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ انھیں پورے دن میں کبھی کسی اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔قریب ہی رہنے والی کرن واسن کا کہنا تھا کہ انھیں اذان کی آواز کبھی کبھی دوپہر کو سنائی دیتی ہے، لیکن فجر کے وقت انہوں نے اذان کی آواز کبھی نہیں سنی۔خود سونو نگم نے ٹویٹر پر وضاحت کی ہے کہ ان کا مقصد کسی کے بھی جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔
09911587378