سوچھ بھارت مشن صحت عامہ اور زندگیوں کو بہتر بناتا ہے اظہار خیال

ڈاکٹر وی کے پال

صفائی ستھرائی صحت عامّہ سے متعلق بنیادی اقدام ہے۔ صفائی ستھرائی سے اسہال، ہیضہ، ٹائیفائڈ، ہیپیٹائٹس، کیڑوں کا پھیل جانا، ہاضمہ خراب ہونا ساتھ ہی ناقص تغذیہ جیسی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کے 2012 کے ایک جائزے میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ صفائی ستھرائی میں لگائے گئے ہر امریکی ڈالر کے بدلے میں کم صحت اخراجات میں 5.5 امریکی ڈالر کا فائدہ، پیداواریت میں اضافہ ہوا ہےاور بچوں کی پیدائش سے قبل اموات میں کمی ہوئی ہے۔

ہندوستان کی تاریخ میں صفائی ستھرائی کی جڑیں بہت گہری ہیں، جن کے نشانات وادی سندھ کی تہذیب میں بھی ملتے ہیں جہاں بیت الخلا کی تعمیر اور فضلہ کے انتظام کے سائنسی طریقے رائج تھے۔ہمارے صحیفے کہتے ہیںایک پاک جسم میں، ایک پاک دماغ اور ایک پاک دماغ میں حقیقی علم رہتا ہے۔

اس مالا مال وراثت کے باوجود، صفائی ستھرائی کی جامع کوریج میں ہندوستان کو بہت سے چیلنجز درپیش رہے ہیں۔ 1981 کی مردم شماری کے وقت تک، صرف ایک فیصد دیہی گھروں میں بیت الخلاء تھے۔ اس نےحکومتِ ہند کی طرف سے ، مرکزی دیہی صفائی ستھرائی پروگرام(سی آر ایس پی)، مکمل صفائی ستھرائی مہم(ٹی ایس سی) اور نرمل بھارت ابھیان صفائی ستھرائی کے پروگراموں کے آغاز کی راہ ہموار کی۔ ان تمام پروگراموں کے سبب ہندوستان میں صفائی ستھرائی کی کوریج 39 فیصد تک پہنچ گئی۔

ہندوستان میں 50 کروڑ لوگوں کے کھلے میں رفع حاجت کرنے کے ساتھ ہی اس کا دنیا کے کھلے میں رفع حاجت کرنے کے بوجھ کا تقریباً 60 فیصد حصہ تھا۔ ہماری خواتین کواندھیرے میں اپنی بنیادی حاجات کو پورا کرنا ہوتا تھا اور اپنے وقار اور تحفظ کو برقرار رکھنا ہوتا تھا۔

اس پس منظر میں وزیر اعظم نریندر مودی نےسال 2014 میں سوچھ بھارت مشن کا آغاز کیا، جس کا مقصد پانچ سال میں دیہی ہندوستان کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک (اوڈی ایف) بنانا تھا۔بھارت نے یہ سنگ میل 2 اکتوبر 2019کو مہاتما گاندھی کی 150 ویں سالگرہ پر حاصل کیا۔ ان یادگار پانچ برسوں میں دیہی صفائی ستھرائی کی کوریج 100 فیصد تک بڑھ گئی۔

اس مشن کے تحت 2014 سے سرکار کی طرف سے 1.4 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے 11.7 کروڑ سے زیادہ بیت الخلا تعمیر کیے جاچکے ہیں۔ یہ محض اثاثہ کی تشکیل نہیں تھی بلکہ یہ ایک ایسی ملک گیر تحریک تھی جس نے ایک بلین لوگوں کو تحریک دی جس نے مضبوط طرز عمل کی تبدیلی کے ساتھ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا بھی احاطہ کیا۔اس کی نمایاں خصوصیت عوام کی تحریک (‘جن آندولن’) اور شاید طرز عمل میں تبدیلی کی دنیا کی سب سے بڑی کوشش تھی۔ بچے، خواتین، مرد،سماجی نمائندگان، سول سوسائٹی اور حکومتی انتظامیہ نے مل کر کام کیا۔صفائی ستھرائی سے متلق پیغامات ہر وسیلے سے لوگوں کو ملے۔ بڑی شخصیتوں نےبھی اس میں حصہ لیا۔ گاؤں کی سطح کے رضاکار (سوچھ گرہیس) زمینی سطح پر تبدیلی کے ہیرو بن گئے۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریروں، میٹنگوں، من کی بات گفتگو اور مقامات اور جگہوں کی صفائی کرنے کے قابل تقلید طریقوں سے ملک کی قیادت کی اور ایسا کرنے کی ترغیب دی۔

ایس بھی ایم کے پہلے مرحلے کی کامیابی کے بعد دوسرے مرحلے کا آغاز کیا گیا۔اس مرحلے کا مقصد ٹھوس اور مائع فضلہ کے بندوبست، نظر آنے والی صفائی ستھرائی اور مجموعی طور پر دیہی صفائی ستھرائی کے وسیع پہلوؤں کو حل کرتے ہوئےاو ڈی ایف کی کامیابیوں کو برقرار رکھنا ہے۔اس کا مقصد 25-2024 تک، تمام گاؤوں کواو ڈی ایف پلس ماڈل میں تبدیل کرنا ہے، جس کی خصوصیت پائیدار طرز عمل اور بہتر صفائی ستھرائی ہے۔اس مشن کا اگلا مقصد سمپورن سوچھتا یعنی مکمل صفائی ستھرائی ہے جس کے لیے ہندوستان میں ہر شہری، سماج اور ادارے کی مسلسل محنت کی ضرورت ہوگی۔

عالمی جریدے ‘نیچر’ میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں صحت عامہ پر، خاص طور پر بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے میں،ایس بی ایم کے گہرے اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس تحقیق کا عنوان ہے ‘‘سوچھ بھارت مشن کے تحت بیت الخلا کی تعمیر اور نوزائیدہ بچوں کی اموات’’ہے جس میں 35 ہندوستانی ریاستوں اور 640 اضلاع کے 10 برسوں (20-20211) کی مدت کے دوران نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات (آئی ایم آر) اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات (یوپانچ ایم آر) کے رجحانات سے متعلق اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ تحریر کنندگان نے بیت الخلا کی فراہمی میں اضافہ اور بچوں کی اموات میں کمی کے درمیان گہرے تعلق کا ذکر کیا ہے۔اس تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایس بی ایم کے بعد ضلعی سطح پر بیت الخلاء تک رسائی میں ہر 10 فیصد پوائنٹ اضافہ، ضلعی سطح کےآئی ایم آر(بچوں کی شرح اموات)میں 0.9 پوائنٹس اوریو 5ایم آر (پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات)میں اوسطاً 1.1 پوائنٹس کی کمی کے مساوی ہے۔ایس بی ایم کے زبردست اثر کے مزید شواہد موجود ہیں جس میں ضلعی سطح پر بیت الخلا کی 30فیصد (اور اس سے زیادہ) کوریج نوزائیدہ بچوں میں 5.3 پوائنٹس اور یو 5ایم آرمیں فی ہزار زندہ پیدائشوں میں 6.8 کی کمی کے مساوی ہے۔تاہم، یہ بتانا ضروری ہے کہ کسی مشن کے اثر کےبارے میں یہ واحد مطالعہ نہیں ہے جوایس بی ایم کے ادا کردہ تبدیلی کے رول پر روشنی ڈالتا ہے۔ عالمی صحت تنظیم (2018) کے مطابق، ایس بی ایم نے 2014 اور 2019 کے درمیان اسہال سے ہونے والی 300000 سے زیادہ اموات کو روکا۔ بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن (2017) نے اطلاع دی کہ غیراو ڈی ایف گاؤوں کے مقابلے او ڈی ایف گاؤوں میں بچوں کی اموات کے معاملات میں 37 فیصد کمی ہوئی جس سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ کس طرح صفائی ستھرائی بچوں کے تغذیے میں مثبت طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ 2017 میں یونیسیف کے اندازے کے مطابق 93فیصد خواتین نے گھر میں بیت الخلا تعمیر ہونے کے بعد خود کو محفوظ محسوس کیا، جس سے خواتین کی حفاظت اور وقار کو بڑھانے میں ایس بی ایم کے رول کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس کےعلاوہ اس تحقیق میں اقتصادی جائزے بتاتے ہیں کہ او ڈی ایف گاؤوں میں گھروں نے صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات پر سالانہ تقریباً 50000 روپے کی بچت کی نیز محفوظ زندگیوں کی اقتصادی قدر اور وقت کی بچت ہوئی ۔

صفائی ستھرائی اور صحت کے درمیان تعلق کے پیش نظر ایس بی ایم سے ہونے والے عوامی فوائد ناگزیر ہیں۔ اس حالیہ تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا کہ بچوں کی بقا کا بیت الخلا کی فراہمی سے مضبوط تعلق ہے۔ قومی سطح پر صفائی ستھرائی میں بڑی تبدیلی کا ،نوجوانوں میں گندے پانی سے پھیلنے والی بیماریوں میں کمی کرنے اور اینٹی مائکروبیل مزاحمت کے بوجھ کو کم کرنے میں یقینی طور پر اثر پڑے گا۔بچوں میں قد نہ بڑھنے اور نشو و نما پر مستقل اثرات پر بھی غور کیا گیا ہے۔ آئی سی ایم آر اور اہل علم کو ایس بی ایم کے ان پہلوؤں پر معروضی تحقیقات کرنی چاہیئں۔

سوچھ بھارت مشن اس کی مثال ہے کہ محنت، اشتراک، منصوبہ بندی، بہترین تعمیل، اور انتھک جن آندولن کے ذریعے کیا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایس بی ایم کے 4پی کامنتر — سیاسی خواہش، سرکاری فائننس، شراکت داری اور عوامی شرکت کےساتھ، مشن کےنفاذ پر زور دینے نے اس کی کامیابی اور رسائی میں بھی اہم رول ادا کیاہے۔یہ ‘حکمت عملی پیکیج’ ملک اور ملک سے باہر دیگر سماجی بڑی تبدیلیوں کے مشن کا نمونہ ہے۔ ایسے وقت میں جب ہم وکست بھارت 2047 کے لیے کوشش کر رہے ہیں، تو ہمیں صفائی ستھرائی اور پاکیزگی میں عالمی لیڈر کے طور پر ابھرنے کی ضرورت ہے۔تعمیر شدہ بیت الخلاکے مستقل استعمال اور فضلہ کے بند و بست کے جدید طریقوں کو مربوط کرنے کو یقینی بناتے ہوئے طرز عمل میں تبدیلی لانے کا پختہ عزم برقرار رہنا چاہیے۔

اگلے مہینے گاندھی جینتی پر اس مشن کو دس سال پورے ہوجائیں گے۔ ایس بی ایم کے دس سال میں-صاف ستھرا ماحول، خواتین کا وقار اور حفاظت، طرز زندگی میں آسانی، گھریلو بچت اور ہماری روایت کے مطابق صفائی کی ایک تہذیب کی شکل میں بے شمار فائدے ہوئے ہیں۔ اب صحتِ عامّہ میں بہتری لانے اور زندگیوں کو بچانے میں ایس بی ایم کے پختہ ثبوت کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں۔
اس مشن کی کامیابی ہر ہندوستانی کے لیے فخر کی بات ہے۔
( ڈاکٹر وی کے پال نیتی آیوگ کے رکن ہیں۔ یہ ان کے ذاتی نظریات ہیں۔مضمون بشکریہ پی آئی بی)