عظمیٰ مانیٹرنگ ڈیسک
جوہانسبرگ،// جنوبی افریقہ میں غیر قانونی کان کنی کے دوران دل دہلا دینے والا واقعہ رونما ہوا، جس میں 100 افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے ۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق 100 مزدور اسٹلفونٹین شہر کے قریب بفیلفونٹین کی سونے کی کان میں پھنسے ہوئے تھے ۔ اس دوران حادثہ پیش آگیا۔رپورٹس کے مطابق مرنے والے افراد کئی ماہ تک وہاں پھنسے رہے جب انہیں نکالنے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ بھوک اور پیاس کے باعث مرچکے تھے ۔مزدوروں نے اپنی حالت کی ویڈیوز موبائل فون کے ذریعہ اپنے گھروالوں کو بھیجی تھیں، جن میں پلاسٹک میں لپٹی ہوئی لاشوں کو دیکھا جاسکتا ہے ۔مائننگ افیکٹڈ کمیونٹیز یونائیٹڈ ان ایکشن گروپ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اب تک 26 مزدوروں کو زندہ نکالا جا چکا ہے جبکہ 18 لاشیں بھی باہر نکال لی گئی ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ کان کی گہرائی تقریباً 2.5 کلومیٹر ہے ِ، خدشہ ہے کہ اب بھی وہاں تقریباً 500 مزدور پھنسے ہوں، کان کو سیل کرنے کی پولیس کی کوششوں کے دوران مزدوروں کے ساتھ تصادم بھی ہوا۔ غیر قانونی طور پر کان کنی میں ملوث 82 کان کنوں کو ریسکیو کرنے کے بعد گرفتار بھی کیا گیا ہے ۔قبل ازیں پولیس کے لیفٹیننٹ جنرل ٹیبیلو موسیکیلی نے جائے وقوع پر موجود صحافیوں کو بتایا کہ جوہانسبرگ سے تقریباً 140 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع اسٹلفونٹین کے قریب سائٹ پر سونے کی تلاش کرنے والے کان کنوں کو باہر نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن کیا گیا۔پولیس ترجمان نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ تقریباً 1500 افراد رضاکارانہ طور پر سائٹ چھوڑ چکے ہیں، کمیونٹی لیڈر جوہانس کنکاسے نے کہا کہ وہ بہت بیمار اور پانی کی کمی کا شکار ہیں۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ تقریباً مرنے کے قریب ہیں۔کان کنی کی پیشہ ور کمپنی نے ‘ریسکیو ونڈر’ نامی ایک مشین نصب کی تھی تاکہ زمین میں سوراخ کر کے کان کنوں تک پہنچ سکیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ سیکڑوں افراد اب بھی زیر زمین ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی صحیح تعداد واضح نہیں ہے ۔کہا جاتا ہے کہ ہزاروں غیر قانونی کان کن، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق دوسرے ممالک سے ہے ، جنوبی افریقہ میں لاوارث کانوں میں کام کرتے ہیں۔جنوبی افریقہ کی معدنیات کونسل کے مطابق، ملک میں دنیا کی سب سے گہری سونے کی کانیں ہیں، جو زیر زمین کئی کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں۔پولیس حکام کے مطابق سطح پر پہنچنے کے بعد بہت سے کان کنوں کو ہسپتال لے جایا گیا، جب کہ 2 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پولیس کی تحویل میں ہیں۔سرکاری عہدیداروں نے منگل کے روز جائے وقوع کا دورہ کیا۔حکام پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ کان کنوں کو ارد گرد کی کمیونٹی کی جانب سے فراہم کی جانے والی خوراک اور پانی کی فراہمی کا گلا گھوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مقامی عدالت نے نومبر میں حکم دیا تھا کہ پولیس کانوں پر عائد پابندیاں ختم کرے ، تاکہ لوگوں کو زمین کے نیچے جانے والے لوگوں کو کھانا اور پانی کم کرنے کی اجازت مل جائے گی۔نومبر کے وسط میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ 4 ہزار افراد زیر زمین ہیں، لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ یہ تعداد شاید سیکڑوں میں ہے ۔کان کنوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی 2 تنظیموں کی جانب سے پیر کو جاری کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی لاشیں پلاسٹک میں لپٹی ہوئی ہیں۔جائے وقوع پر موجود ‘اے ایف پی’ کے صحافیوں نے پیر کو پنجرے سے لاشوں کے کئی تھیلے نکالے جانے کی ویڈیو بنائی۔گزشتہ ہفتوں کے دوران، کان کنوں (جو باہر نکلے ہیں) نے شدید بھوک اور پانی کی کمی سمیت زیر زمین سنگین حالات کی اطلاع دی تھی، کچھ کو مناسب دستاویزات کے بغیر جنوبی افریقہ میں ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔مقامی طور پر ‘زاما زماس’ کے نام سے پہچانے جانے والے غیر ملکی جو کہ زولو زبان بولتے ہیں، کان کنی کی کمپنیوں کو مایوس کرتے ہیں اور رہائشیوں کی طرف سے اکثر ان پر جرم کا الزام عائد کیا جاتا ہے ۔