یونیورسٹی آڈیٹوریم میں میں اس کی ویڈیو دیکھ رہا تھا اور اس کا لیکچر سن رہا تھا تو میرے رونگتے کھڑے ہورہے تھے۔دل ونگاہ ششدر تھے۔آنکھیں خیرہ تھیں۔ افکار وخیالات میں ہیجان سا بپا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ دنیا جس طرح اس کائنات کو دیکھتی ہے۔ یہ آدمی اسے اس طرح دیکھنے کا عادی نہیں۔ لوگ جس طرح سوچتے ہیں یہ آدمی اس طرح سوچنے کا قائل نہیں۔ وہ سب سے الگ دیکھتا ہے۔ اس کا انداز نظر بہت نرالا اور Uniqueہے۔وہ سب سے الگ سوچتا ہے۔اس کی طرز فکر بہت بے مثال ہے۔وہ گھسی پٹی شاہراہوں سے ہٹ کر اپنی راہ سب سے الگ نکالتا ہے۔ اس کی پہچان کا راستہ بہت منفرد اور بے مثال ہے۔ وہ خوابوں میں نہیں جیتا بلکہ خوابوں کو حقیقت کا روپ عطا کرتا ہے۔
میں اس شخص کی بات کررہا ہوں جسے دنیا سونم وانگ چک آف لداخ کہتی ہے۔ جی ہاں وہی سونم وانگ چک جس سے Inspire ہوکر تھری ایڈیٹ نامی بالی وڈ فلم بنائی گئی تھی۔تھری ایڈیٹ کا وہ کردار جسے دنیا فنشک وانگڑو کے کردار سے بخوبی جانتی ہے۔،جس نے نو برس کی عمر تک اسکول نہیں دیکھا، جو ٹیوشن سے اپنی فیس ادا کرتا تھا،جس نے آئی آئی ٹی سری نگر سے مکینکل انجینئر کے بعد شہروں میں زندگی جینا پسند نہیں کیا بلکہ اس نے اپنی مادر وطن لداخ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز ومحوربنایا۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب لداخ کے تمام سرکاری وغیر سرکاری اسکولوں میں پچانوے فیصد بچے فیل ہوجاتے تھے۔چنانچہ اس نے فیل ہونے والے بچوں کوٹیوشن پڑھانا شروع کیا تو ان کے نتائج بہت حوصلہ افزا ثابت ہوئے۔اس نے اس ٹیوشن سنٹر کو آگے بڑھایا یہاں تک کہ یہ سنٹر اسکول کی شکل اختیار کرگیامگر اس اسکول کی خاص بات یہ ہے کہ اس میںصرف فیل ہونے والے بچوں کو داخلہ دیا جاتا ہے اور یہی یہاں پر داخلے کی شرط اولین ہے۔وانگ چک کے عزم صمیم اور جہد مسلسل اور خلوص ومحبت نے فیل ہونے والے بچوں میں علم کی شمع روشن کی۔
وانگ چک نے 1988میں لداخ میںSECMOLیعنی اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل اینڈ کلچرل موومنٹ آف لداخ کے نام سے ایک تحریک چھیڑ دی۔ منفی تیس ڈگری ٹمپریچر میں سانس لینے والے بچوں کے لیے Aفار Appleاور Fفار Fanنہیں پڑھایا جاتا۔ بلکہ ان کے لیے نیا syllabusڈیزائن کیاگیا جو ان کی ذہنیت اور معاشرے کے لیے مناسب ہو،جہاں ٹیبل کرسی پر درس نہیں دیا جاتا بلکہ زمین پر بیٹھ کر پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، جس کی عمارتیں مٹی سے بنائی گئی ہیں اور ا س طرح بنائی گئی ہیں کہ مائنس پچیس ڈگری ٹمپریچر کے عالم میں عمارت کے اندر پلس پچیس ڈگری کا ٹمپریچر ہوجاتا ہے، جہاں بجلی کی سپلائی نہیں ہے مگر اسّی کی دہائی سے ہی وہاں سورج کی توانائی یعنی سولر سسٹم سے سارے کام کیے جاتے ہیں۔جس اسکول میں بچوں کی اپنی ایک پارلیمنٹ ہوتی ہے اور اس کا ہر دو ماہ پر الیکشن ہوتا ہے، بچے دو ماہ کے لیے اپنا لائحۂ عمل بناکر کام کرتے ہیں۔ ہر چیز کی وہ خود دیکھ بھال خود کرتے ہیں۔ سولر کاانتظام انصرام خود دیکھتے ہیں اور خود سبزی اگاتے ہیں۔ خود کھانا بناتے ہیں اور خود تقسیم کرتے ہیں۔خود پڑھاتے ہیں اور استاد محض نگرانی کرتا ہے۔ جہاں بچے کو جب سزا دی جاتی ہے تو اسے اس کے گھر بھیج دیا جاتا ہے اور بچہ اس سزا سے بہت تکلیف محسوس کرتا ہے کیونکہ وہ اسکول چھوڑکر جانا نہیں چاہتا۔ آج حالت یہ ہے کہ لداخ کے جن اسکولوں میں پنچانوے فیصد بچے فیل ہوجاتے تھے آج وہاں پچہتر فیصد رزلٹ آرہا ہے۔ مزید پچیس فیصد کے لیے کام ہورہا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس اسکول کے کئی وہ بچے جو دوسرے اسکولوں میں فیل ہوگئے تھے کامیابیوں کی بلندیوں پر پہنچ گئے ہیں۔ کچھ وزیر تک بنے، کچھ فلم میکر تو کچھ کامیاب تاجر۔اس اسکول نے ناکام ہونے والے بچوں کی ایک ناقابل بیان مثال رقم کی ہے۔
یہ اس علاقے کی بات ہے جو دہلی ممبئی اور بنگلور میں نہیں لداخ کے دور دراز علاقے میں پڑتا ہے، جہاں چھ ماہ تک برف کی سفید چادر میں لوگ قید رہتے ہیں۔جہاں موسم سرما میں پانی فریز ہوجاتا ہے۔ جم جاتا ہے۔ جہاں موسم گرما میں برف کے پگھلنے کی وجہ سے پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ سونم وانگ چک اپنے ذہن کی اختراع سے ، اپنی انجینئرنگ سے برف کا اتنا بڑا بڑا تودا بنانے میں کامیاب ہوگیا جو نو نو منزلہ عمارت جتنا بلند ہوتا ہے، جسے آئس اسٹوپا کہا جاتا ہے،جس میںکل تیس لاکھ پانی برف کی شکل میں جمع ہوتا ہے یعنی اتنا پانی جتنا کہ تین سو ٹینکر میں جمع کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح برف کے کئی اسٹوپے مصنوعی طور سے بنائے جاتے ہیں۔ یہ اسٹوپے دھیرے دھیرے پگھلتے ہیںیہاں تک کہ مئی جون تک لوگوں کو، کھیتوں کو مویشیوں کو پانی مہیا کرتے ہیں۔ سونم وانگ چک کی اس مصنوعی تکنیک کو اب کئی ملکوں میں امپورٹ کیا جانے والا ہے۔ کئی یورپی ممالک جہاں گلیشیئر پگھل رہے ہیں وانگ چک کی اس مصنوعی اور اختراعی سائنس سے استفادہ کرنے کے لیے اسے اپنے یہاں ایسے ہی آئس استوپا بنانے کی دعوت دی گئی ہے۔اس کا یہ کام پورے ملک اور پوری دنیا میں شہرت کا حامل بن رہا ہے۔ لوگ اس کی دامے درمے سخنے مدد کررہے ہیں۔ donaitonکی پیشکش کررہے ہیں اور اس قد راسے ڈونیشن مل رہا ہے کہ اسے منع کرنا پڑرہا ہے کہ پہلے سوچنے دیجیے کہ یہ پیسہ کہاں او رکیسے خرچ کیا جاسکتا ہے۔
سونم وانگ چک کو اس کی تعلیمی واقتصادی پیش رفت کے لیے ملک وبیرون ملک کے ڈھیر سارے قیمتی ایوارڈ بھی دیے جاچکے ہیںجس میں سے سب سے بڑا ایواررولکس ایوارڈ فار انٹر پرائز قابل ذکر ہے۔۱۴۴ ملکوں کے ۲۳۲۲ لوگوں میں سے وانگ چک کو اس ایوارڈ کے لیے ۲۰۱۶ء میں منتخب کیا گیا۔ یہ ایوارڈ کم وبیش چاڑ کروڑ روپے پر مشتمل تھا۔ اس کا ایک کروڑ روپیہ اس نے اپنے اسکول کے لیے وقف کردیا جس سے وہ اب اسی اسکول کے طرز پر ایک یونیورسٹی بنانے کی کوشش میں ہیں۔یہ اور اس کی اختراعی تکنیک، اس کا اسکول اور اس کا نظام تعلیم پوری دنیا میں شہرت کا حامل ہوگیا ہے۔ الجزیرہ انگلش نے بھی اس کی پوری کور اسٹوری نشر کی۔ کون بنے گا کروڑ پتی میں بھی اس کو بلایاگیا۔ وانگ چک کی اس جیسی نہ جانے کتنی باتیں ہیں جو قابل ذکر ہیں۔قابل تقلید نمونہ اور مشعل راہ ہیں۔ ہماری یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ پروفیسر جاوید مسرت اور رجسٹرار ڈاکٹر اشفاق احمد زری کی کوششوں سے اتنی عظیم اور حقیقی معنوں میں عبقری شخصیت کا یہاں تشریف لانا اور طلبہ وطالبات کو اپنے تجربات سے مستفید کرنا بہت اہم قدم ہے۔
میں وانگ چک کی کہانی سن رہا تھا اور حیرت واستعجاب کے سمندر میں غرق ہورہا تھا ۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کتنا بڑا عبقری شخص ہے جس نے چٹیل پہاڑوں پربسنے والوں کے لیے تعلیم وتدریس کی عجیب وغریب تاریخ رقم کی ہے۔ روایتی طرز سے ہٹ کر جس نے کامیابی کی ایسی شاہراہ بنائی ہے جس کی مثال کم کم ملتی ہے۔ ہمارے بڑے بڑے روایتی تعلیمی ادارے اور دانش گاہیں جس کی ہمسری کرنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتیں۔
……………………….
رابطہ: صدرشعبۂ عربی/ اردو/ اسلامک اسٹڈیز باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں کشمیر