سید مصطفیٰ احمد
لگ بھگ ایک مہینے سے میں اس بات کا غور سے مشاہدہ کررہا ہوں کہ کچھ نوجوان اور بچے اپنے آپ کو مائی کا لال سمجھتے ہوئے اپنے جسموں کو اذیت دینے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ پہلے تو مجھے یہ بات سمجھ میں ہی نہیں آرہی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ انسان اب انسانیت کے نچلے پائیدان پر پہنچ کر جانوروں سے بدتر ہوگیا ہے۔ بچوں کا تو گلہ نہیں ہے مگر نوجوانوں اور جوانوں کا انسانیت کے منافی کام کرنا ایک باشعور انسان کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ پاگل حرکتوں کو یہاں ہنر یا skill کا نام دیا جاتا ہے۔ ان افراد کی عقل پر ماتم کرنا چاہیے، جن کے یہاں ان نازیبا حرکتوں کو ہنر کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔ ایک نوجوان کپڑے اُتار کر اپنے سینے کو پیٹ رہا ہے۔ دوسرے موقع پر وہ کانگڑی سے اپنے سر کو مار رہا ہے۔ اس طرح کے حیوانی حربے اب سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیل رہے ہیں۔ پرانے زمانے میں ایک پاگل کی حرکتیں ایک علاقے تک محدود ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت دنیا اتنی جڑی ہوئی نہیں تھی جتنی آج ہے۔ اس کے علاوہ پاگلوں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھالیکن آج معاملہ الٹا ہے۔ پاگلوں کو ابinfluencers کا لقب دیا گیا ہے۔ دیوانوں کو راہنماؤں کے حسین القابات سے نوازا گیا۔ نجی زندگی کو لوگوں کے درمیان دکھانا، اب کچھ عقل سے کورے لوگوں کا مشغلہ بن گیا ہے۔ یہ ایسی وباء ہے جس کا علاج دوائیوں سے ممکن نہیں ہے۔ وباء سے احتیاط تو ممکن ہے مگر جب ذہنی وباء کھلےعام گھوم رہی ہو، تو احتیاط کے علاوہ اور بھی بہت ساری تراکیب کو بروئے کار لانا ہوگا۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم سب کو ان وجوہات کا کم و بیش علم ہونا چاہیے جس سے لوگوں کے اذہان مفلوج ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس نائو میں گھیسٹنے کی مذموم کوششیں کرتے ہیں۔
پہلی وجہ ہے ناقص نظام تعلیم۔ اس تعلیمی نظام سے کیا توقع کی جاسکتی ہے جو انسان کو سب کچھ تو بننے میں تو معاون ہے مگر انسان بننے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے نصاب میں اس بات کا فقدان ہے کہ اصل زندگی کیا ہے اور اس دنیا میں جینے کا صحیح ڈھنگ کیا ہے؟۔ مختلف اقسام کے لوگوں کے درمیان کیسے جیا جاتا ہے؟، اس بات کا ہمارے نظام تعلیم میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ حلال رزق اور حرام رزق کو ایسے ملایا گیا ہے کہ ایک دوسرے کو پہچاننا مشکل ہوگیا ہے۔ جب ایسی صورتحال ہے تو ایسے میں ان لوگوں کا سوشل میڈیا پر یا اپنی زندگیوں میں قابل مذمت حرکتوں میں ملوث ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ان کو اس نظام نے کبھی یہ بات نہیں سمجھائی کہ انسان کا مرتبہ کیا ہے اور انسان کن چیزوں سے پہچاننا جانا جاتا ہے۔
دوسری وجہ ہے دین سے دوری۔ ہمارے یہاں کچھ فیصد کو چھوڑ کر باقی سارے بے دینی کا شکار ہوگئے ہیں۔ زمانے کی رفتار نے دین کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کے جذبے کو بہت حد تک ڈھیلا کر دیا ہے۔ اب اصولوں کے منافی ایسے ایسے واقعات اور حادثات کا وقوع پذیر ہونا عام سا ہوگیا ہے جو کچھ دہائیوں پہلے سننے میں بھی آنا محال تھے ۔ لیکن اب بچے سے لے کر بڑے اپنے پاگل پن کو سوشل میڈیا پر چڑھا کر اپنا بھی اور خاندان کا نام بھی مٹی میں ملا رہے ہیں۔ اس کے مضر اثرات میں یہ بھی شامل ہے کہ دوسرے لوگ بھی ان کے بہکاوے میں آتے ہیں اور اس راہ کے فقیر ہوجاتے ہیں۔ دین کا بنیادی مقصد روحانی اور جسمانی پاکیزگی ہے۔ دوراندیشی اور تنگ نظری سے دور رہنا دین کی بنیاد ہے۔ مگر یہاں دین کی الٹی گنگا بہتی ہے۔ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل تو دور کی بات، ہم دین کی چھاؤں میں اپنا احتساب نہ کرپائے۔ دوسروں کے گناہوں کو سزا سمجھ کر ہم اپنے آپ سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔
تیسری اور آخری وجہ ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کا مکروہ چہرہ۔ سائنس کے بے شمار فوائد ہیں مگر اس کا مکروہ چہرہ بھی ہے ،جس نے ہر ایرے غیرے کو یہ سہولیت فراہم کی ہے کہ وہ اپنی گندگی کو آن لائن چڑھا کر بےعزتی اور گالیوں کا شکار ہوجائے۔ ایک نوجوان کچھ دن مزدوری کرکے سمارٹ فون خریدتا ہے اور پھر اپنی نادانیوں کو آن لائن چڑھا کر دوسروں کے ساتھ بھی شیئر کرتا ہے جس سے تباہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
حالات اور خراب ہونے سے پہلے ہم سب کو جاگنا پڑے گا۔ کسی بھی قسم کی لاپرواہی تباہیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ماں باپ، حکومت اور سماج کے ذی شعور افراد کو اس میں اپنا نمایاں رول ادا کرنا ہوگا۔ اپنے بچوں کی تربیت میں کسی بھی قسم کی کوتاہی قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔ اساتذہ کو بھی طلبہ کی صحیح تربیت کرنے میں آگے بڑھنا چاہیے۔ مذہبی اداروں کو اختلافات کی وادیوں سے کچھ وقت کے لئے سماج کی اصلی ترقی کی فکر کرنی چاہیے اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔
ای میل۔[email protected]