سبزار احمد بٹ
انٹرنیٹ نے پوری دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنایا۔ دنیا بھر کی خبریں پل بھر میں ہم تک پہنچ جاتی ہیں ۔ سوشل میڈیا نے تو سونے پہ سہاگے کا کام کیا ہے۔ اس سے مختلف کام لئے جا سکتے ہیں بلکہ لئے جاتے ہیں ۔سوشل میڈیا پر آنی والی اچھی بری پوسٹس کا اثر نئی نسل ایک دم سے قبول کرتی ہے۔لیکن کچھ لوگ سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے ذہنی انتشار اور بد اخلاقی کو فروغ دے رہے ہیں ۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک عجیب قسم کی مخلوق نمودار ہو گئی جو ٹیلنٹ کے نام پر نہ جانے کن کن ذہنی بیماریوں اور خرافات کو پھیلاتی جارہی ہے۔ کچھ لوگ جانوروں کی طرح کچا گوشت کھاتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں تو کچھ لوگ اپنے آپ کو بڑی بے دردی سے مارتے ہوئے ۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ آتے ہی گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں کچھ لوگ اپنا سر پھوڑتے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر اس بات کو مانتا ہوں کہ کسی بھی معاشرے میں اخلاقی طور کمزور یا ذہنی مریضوں کی موجودگی کو خارج از امکان قرار دیا دیا جاسکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان خرافاتی ویڈیوز اور پوسٹس سے ہماری نئی نسل کے متاثر ہونے کا خطرہ بہت حد تک بڑھ گیا ہے۔ اس لئے اس بد اخلاقی پر فوراً سے پیش تر قدغن لگانے کی اشد ضرورت ہے ۔
بدقسمتی سے نئی نسل کو یہ نہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ ذہنی کمزور ہیں اور اس قسم کے لوگوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے کی ضرورت ہے نہ کہ ان کی تقلید کرنے کی۔ اس بد اخلاقی میں روز بہ روز اضافہ ہوتا ہوتا جارہا ہے اور آج سوشل میڈیا کھولتے ہی انسان تذبذب میں پڑ جاتا ہے کہ ہم کس چڑیا گھر میں آگئے ہیں ۔ سب سے زیادہ تکلیف تب ہوتی ہے جب ہمارے چھوٹے بچے اس قسم کے انتشار میں پائے جاتے ہیں ،جو اچھے برے کی تمیز کرنے کی صلاحیت کھوتے جا رہے ہیں ۔ لیکن اس سب کے لئے ہم سب بھی ذمہ دار ہیں ۔ ہماری اجتماعی سوچ بھی اب بگڑتی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر کوئی دینی بیان ہو، کوئی اخلاقی درس ہو، یا علم و ادب کی کوئی اور ویڈیو، کوئی بھی اچھی بات ہو ،اسے لوگ نہ ہی پسند کرتے ہیں اور نہ ہی کمنٹ ۔شیئر کر کے دوسروں تک پہنچانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیری قوم کو ان اچھی چیزوں سے کوئی دلچسپی ہی نہیں رہی۔ دوسری طرف جب یہ خرافاتی ویڈیو نمودار ہوتے ہیں تو لوگ لاکھوں میں کمنٹ اور لائک کرتے ہیں اور اس قسم کے ویڈیوز کو شیئر کر کے منٹوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔
بظاہر یہ ایک معمولی عمل ہے لیکن اس سے ہماری اجتماعی سوچ کا پتہ چلتا ہے۔ اس عمل سے یہ بد اخلاقی پھیلانے والوں کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں اور وہ ایک نئی بد اخلاقی کی ویڈیو تیار کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔ والدین کو اس بد اخلاقی پر اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہئے بلکہ انہیں اس بد اخلاقی سے باز لانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس ضمن میں ماہرین کی رائے بھی لینی چاہئے کیونکہ یہ بیماری نہ صرف پھیلتی جا رہی ہے بلکہ اپنی جڑیں مضبوط کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جگر چھلنی ہو جاتا ہے جب چھوٹے بچوں کو اپنے سروں پر کانگڑیاں پھوڑتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ افسوس صد افسوس۔ ہمارے یہاں تو مقابلہ جاتی امتحانات ہونے جارہے ہیں اپنا سر پھوڑنے کے مقابلے نہیں ۔ بچوں کو یہ بات سمجھانا ضروری ہے کہ یہاں گالیوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہونے جا رہا ہے اور نہ یہ دیکھا جانا ہے کہ کس نے کتنا کچا گوشت کھایابلکہ دیکھا یہ جائے گا کہ کس نے علم و ادب میں کوئی نیا کارنامہ انجام دیا۔ کس نے کوئی نئی ایجاد کی اور کس نے معاشرے کو کچھ نیا دیا۔
پہلے تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس سنگین صورتحال میں بچوں کو سوشل میڈیا سے دور ہی رکھا جائے ۔ اور اگر بچے کوئی ایسا ویڈیو دیکھتے بھی ہیں تو انہیں فوراً یہ بات سمجھانی بہت ضروری ہے کہ یہ انسان ذہنی مریض ہے اسی لئے اپنا سر پھوڑ رہا ہے۔ کچھ لوگ ہیں جنہیں اس بد اخلاقی کا شدتِ سے احساس ہے اور جو یہی احساس باقی لوگوں میں جگانے کی کوشش کرتے ہیں اور انتظامیہ کو بھی اس سنگین صورتحال کی طرف توجہ مبذول کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔جی ہاں! میری مراد منتظر مومن وانی صاحب سے ہے جن کے سینے میں ایک درد مند دل دھڑکتا ہے اور جو اپنی درد بھری آواز میں عوام کی توجہ ان باتوں کی طرف مبذول کراتے رہتے ہیں ۔ اس طرح کی سوچ رکھنے والے لوگوں کو سامنے آنا چاہئے اور اس بیماری کے علاج کے بارے میں کھل کر بولنا چاہیے بلکہ سوشل میڈیا کا ہی استعمال کیا جانا چاہئے تاکہ بات وہاں پہنچے جہاں ہم پہنچانا چاہتے ہیں ۔
بات صرف ان ہی لوگوں کی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایسے ویڈیوز دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا کوئی مطلب نہیں ہے جو سراسر غلط اور فضول ہیں ۔ کچھ لوگ اچھا کام بھی کرتے ہیں جن کے ویڈیوز سے ہماری تہذیب و ثقافت محفوظ ہوجاتی ہے۔ لیکن ان کے مقابلے میں ان بد اخلاقی کے ویڈیوز کو زیادہ ہی پراموٹ کیا جا رہا ہے۔ ہم سب کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور بچوں کو تعلیمی میدان میں محنت کرنے اور نئی نئی سائنسی ایجادات کی طرف راغب کیا جانا چاہئے ۔ ہم اگر یوٹیوبرز کو انفلنسر کا نام دیں گے تو ہماری نئی نسل ان ہی کے نقشِ قدم پر گامزن ہو گی اور ایک وقت ایسا آئے گا جب ہم چاہیں گے کہ ہماری نئی نسل اس بد اخلاقی سے باز آئے لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی اور ہمارے پاس کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہوگا۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی ہم پر ایسا وقت آئے ۔ آمین
[email protected]