بلا شبہ گذشتہ دس ،بارہ برسوں میں ایک شئے ’’سوشل میڈیا‘‘ دنیا بھر میں لوگوں کی ذاتی زندگیوں، معاشرتی رویوں، سرکاری پالیسیز اور سیاست پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوئی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اُٹھنے والی عوامی تحریکوں سے لے کر روہنگیا کے مسلمانوں کی نسل کشی، شام کی خانہ جنگی ، شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے عروج و زوال اور امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے الزامات، کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل تک، جہاں سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں ہونے والے واقعات سامنے آئے اور بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہوئیں، وہیں سوشل میڈیا خود بھی ان برسوں میں ارتقا کے مراحل سے گزرا۔ان برسوں کے دوران مختلف ممالک کے سیاسی منظر ناموں پر بڑی تبدیلیاں بھی دیکھنے میں آئیں، سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں نے سوشل میڈیا کا رُخ کیااوراسی کے ذریعے اپنے پیغامات کا پرچار کرتی رہیں۔ اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور شخص انکار نہیں کرسکتا کہ اس کامثبت کرداربھی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس دنیا بھر میں بہت سےسماجی، اخلاقی، سیاسی، طبّی اور اقتصادی مسائل کا سبب بھی بن چکی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا کے مختلف خِطّوں میں اس کے اثرات مختلف اقسام کے ہیں ۔تاہم بعض اثرات پوری دنیا میں ایک ہی طرح کے ہیں، مثلاً سماجی اورطبّی نوعیّت کے۔آج دنیا کی نصف آبادی سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے۔ جبکہ تحقیق سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا زیادہ استعمال کرنے والے اضطراب اور ڈپریشن جیسی دماغی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ایک جانب دنیا بھر کے لوگ سوشل میڈیا کے مثبت پہلوؤں کا اقرار کرکے یہ کہتے ہیں کہ یہ ویب سائٹس انہیں رائےکے اظہار کا موقع فراہم کرتی اور تنہائی کے شکار لوگوں کو جذباتی سہارا تلاش کرنے کا راستہ مہیا کرتی ہیں۔ دوسری جانب بہت سے افراد کا یہ کہناہے کہ سوشل میڈیا زندگی کا حصہ توبن چکا ہے، لیکن یہ عام زندگیوں پربُری طرح اثر انداز ہورہا ہے۔اس کے بے جا استعمال سے نہ صرف ڈپریشن میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ احساس تنہائی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ان حالات میں دماغی صحت پر سوشل میڈیا کے طویل مدتی اثرات کا جائزہ لینے والی تحقیق سے عیاں ہے کہ اس پر زیادہ وقت گزارنے والے ڈپریشن، اضطراب، تنہائی اور دوسری منفی چیزوں کی طرف راغب ہورہے ہیں ۔ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ انسانوں کے ذہنی طور پر صحت مند رہنے کے لیے بالمشافہ رابطے کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن وہ فرد جس سے آپ کی ملاقات اور گفت و شنید آپ کے لیےباعث ِ اطمینان ہے، اُس سے آن لائن چیٹ یا اس کے میسیجز پڑھنے سے حقیقی اطمینان حاصل نہیں ہوسکتا۔ویسے تو سوشل میڈیا کے عادی افراد سارا دن اس سے جُڑے رہتے ہیں، تاہم رات کے وقت دیر تک آن لائن رہنے اورلیپ ٹاپ اور فون کی ا سکرین کو دیر تک دیکھنے سے جہاں نیند ضائع ہوجاتی ہے وہیںبصارت کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے ماہرین ہر وقت سوشل میڈیا سے جڑے رہنے کو منفی قرار دیتے ہیں اور اس کے مناسب استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔آج انٹرنیٹ استعمال کرنے والا ہر شخص ایک ذاتی شناخت رکھتا ہے اور ویب کی دنیا کی بہت سی شناختیں رکھ سکتا ہے۔ اس طرح شناخت کے خانے بڑھ جانے سے بھی ذہنی خلجان بھی بڑھ تا چلارہا ہے۔ نوجوان اس فکر میں رہتے ہیں کہ ان کی کوئی بھی سرگرمی ویب پر تحریر یا تصویر کی صورت میں آنے سے رہ نہ جائے۔ جس کے باعث زیادہ تر نوجوان غیر مفید اور غیر ضروری سرگرمیوں میں وقت ضائع کردیتے ہیں،یہاں تک اپنے گھریلو کاموں اور تعلیمی سرگرمیوں تک کو نظر انداز کردیتے ہیں۔گویا وہ مختلف قسم کے مخمصوں کا شکار ہوجاتے ہیںاور ان کی جسمانی سرگرمیاں محدود ہونے کی وجہ سے ذہنی صحت کے مسائل بھی سامنے آرہے ہیں۔ تشویش ناک بات یہ سامنے آرہی ہے کہ ان کی حقیقی سماجی زندگی دن بہ دن گھٹتی چلی جارہی ہے، جسمانی حرکات بہت محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔دوست ،احباب و رشتہ دار تو کُجا،اپنے والدین اور بہن بھائیوںکے ساتھ تھوڑا سا وقت گذرنا تک اُن کے لئے ناگوار بن گیا ہے اور معاشرے کے مسائل سے بھی وہ بے بہرہ نظر آرہے ہیں، نتیجتاً ہمارا معیشی اور معاشرتی نظام بکھرتا اور بگڑتا چلا جارہا ہے۔جس سے اس بات کا خدشہ بڑھ رہا ہے کہ اگر ہم نے اس جانب فوری توجہ نہ دیں تو من حیث القوم ہمیں بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔